امریکا نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد یوکرین کے ساتھ توانائی اور معدنی وسائل کے مشترکہ استعمال کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، یوکرین کے لیے امریکی فوجی امداد تک رسائی کے لیے یہ معاہدہ کافی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے موجودہ نایاب ذخائر سے متعلق یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ زوروں سے جاری ہے۔

معاہدے سے متعلق امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا  کہ امریکا یوکرین ری کنسٹرکشن انویسٹمنٹ فنڈ میں فروری 2022 میں روس کے حملے کے بعد سے یوکرین کو دی جانے والی ’اہم مالی اور(جنگی) ساز و سامان‘ کی مدد کو تسلیم کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے معاہدے کے حوالے سے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق یوکرین میں دیرپا امن اور خوشحالی کے لیے پرعزم ہیں۔

واضح رہے کہ یوکرین میں گریفائٹ، ٹائٹینیم اور لیتھیم جیسی اہم معدنیات کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہ معدنیات قابل تجدید توانائی، فوجی ساز و سامان کی تیاری اور صنعتوں کے بنیادی ڈھانچے میں استعمال کی جاتی ہیں جس کے باعث ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے تعمیر نو سرمایہ کاری فنڈ کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے جس کا مقصد روس کے ساتھ جنگ سے یوکرین کی معاشی بحالی کو فروغ دینا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل یہ معاہدہ اس وقت تاخیر کا شکار ہوا تھا جب امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یوکرین آخری لمحات میں اس معاہدے میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس معاہدے میں استعال کیا جانے والا لب و لہجہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے معمول سے کہیں زیادہ یوکرین کے ساتھ یکجہتی ظاہرکر رہا ہے۔

معدنیاتی ذخائر کے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے امریکی وزیر خزانہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اس معاہدے سے یوکرین میں ترقی اثاثوں کو کھولنے میں مدد ملے گی۔

امریکی وزیر خزانہ کے مطابق یہ معاہدہ روس کو پیغام ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسے امن عمل کیلیے پرعزم ہے جس کا محور آزاد، خودمختار اور خوشحال یوکرین ہو۔

اس معادہ میں روس کی جانب سے یوکرین پر پوری شدت سے حملے کا حوالہ دیا گیا ہے اور مزید کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی ریاست یا شخص کو، جس نے روسی جنگی ساز و سامان کی فراہمی یا مالی اعانت کی تھی، یوکرین کی تعمیر نو سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

یوکرین کی نائب وزیر اعظم یولیا سویریڈینکو بدھ کے روز اس اہم معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے واشنگٹن گئی تھیں۔

انھوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’نیا فنڈ ہمارے ملک میں عالمی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا'

معاہدے کی شقوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس معاہدے میں معدنیات، تیل اور گیس کے منصوبے شامل ہیں جبکہ معدنیاتی وسائل بدستور یوکرین کی ملکیت رہیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ شراکت داری 50:50 کی بنیاد پر برابر ہوگی ، اور کیئو کیف میں قانون سازوں کی طرف سے اس کی توثیق ضروری ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے تحت امریکہ یوکرین کو فضائی دفاعی نظام سمیت دیگر نئی امداد فراہم کرے گا

صدر ٹرمپ نے کیئو کو مستقبل میں سلامتی کی کسی بھی ضمانت کی پیش کش کے لیے اس معاہدے کو ایک شرط کے طور پر بار باردہرایا ہے۔

معاہدے کے مسودے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین مستقبل میں امریکی سکیورٹی امداد کے بدلے میں واشنگٹن کو اپنے کچھ قدرتی وسائل تک رسائی دے گا تاہم یہ ٹرمپ کی ان امیدوں سے کم دکھائی دے رہا ہے جس میں وہ 2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے دی جانے والی تمام امریکی فوجی امداد کی ادائیگیوں کے لیے پر امید تھے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واشنگٹن سے کچھ رعایتیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

مذاکرات سے واقف ایک امریکی ذرائع نے یوکرین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ شرائط کو دوبارہ منوانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو بظاہر اختتام ہفتہ پر حتمی شکل دے دی گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں فنڈ کی گورننس، شفافیت کے معاملات اور دیگر نکات شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی جانب سے سے یوکرین یوکرین کی معاہدے کے یہ معاہدہ کہ یوکرین اس معاہدے انھوں نے رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاک امریکا معاہدہ، عالمی منظرنامے کی نئی حکایت

دنیا کے سیاسی اور اقتصادی منظرنامے میں جب بھی کوئی اہم معاہدہ ہوتا ہے، وہ صرف کاغذ پر دستخطوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ ایسے معاہدے نہ صرف متعلقہ ممالک بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان توازن کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان طے پانے والا حالیہ تجارتی معاہدہ بھی کچھ ایسی ہی تاریخی اہمیت رکھتا ہے، جسے دنیا کے بڑے میڈیا ادارے اپنے اپنے زاویے اور تناظر میں بیان کر رہے ہیں۔

رائٹرز: اقتصادی کامیابی کی نوید

رائٹرز کے مطابق، یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک اہم اقتصادی سنگِ میل ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی منڈی میں پاکستانی برآمدات کو درپیش ٹیرف جیسے چیلنجز شدید نوعیت اختیار کر چکے تھے۔ یہ معاہدہ نہ صرف ان ٹیرف کو کم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے بلکہ پاکستانی معیشت کے لیے استحکام اور ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس معاہدے میں پاکستان کے تیل کے ذخائر کی مشترکہ ترقی کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ شراکت داری محض تجارتی مفادات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں جغرافیائی سیاست کی گہرائی بھی شامل ہے۔

عرب نیوز: تکنیکی تعاون کی نئی جہت

عرب نیوز نے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کے بیانات کو نمایاں کرتے ہوئے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے سے صرف روایتی تجارت ہی نہیں بلکہ توانائی، معدنیات، آئی ٹی، اور کرپٹو کرنسی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں بھی دو طرفہ تعاون کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو اقتصادی کے ساتھ ساتھ تکنیکی و اسٹریٹجک محاذ پر بھی نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔

فاکس بزنس: طنز میں چھپی سیاسی حقیقتیں

فاکس بزنس کی رپورٹ میں صدر ٹرمپ کے طنزیہ انداز کو اجاگر کیا گیا، جہاں انہوں نے کہا کہ شاید اس شراکت داری کے نتیجے میں تیل بھارت کو بھی برآمد کیا جائے۔ اس ایک جملے میں جنوبی ایشیا کی پیچیدہ سیاسی حرکیات کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ امریکا، پاکستان، اور بھارت کے مابین موجود جغرافیائی سیاست کی گرہیں بعض اوقات ایسے ہی بیانات سے کھلتی یا مزید الجھتی ہیں۔

بلومبرگ: سرمایہ کاری کی نئی راہیں

بلومبرگ نے اس معاہدے کو امریکی سرمایہ کاری کے تناظر میں دیکھا ہے، جس کے تحت پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں براہِ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی رشتے کو مزید گہرا کرے گا، اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کے نئے امکانات پیدا کرے گا۔

سی این این اور بی بی سی: عالمی حکمت عملی کا تسلسل

سی این این اور بی بی سی جیسے عالمی ادارے اس معاہدے کو امریکا کی وسیع تر عالمی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ سی این این کے مطابق، یہ معاہدہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کا توازن قائم کرنے کے لیے امریکی کوششوں کا حصہ ہے۔ بی بی سی نے اس پہلو کو اجاگر کیا کہ یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے سیاسی و تجارتی توازن کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب بھارت کو ٹیرف جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

بھارتی میڈیا: متضاد زاویے

بھارتی ادارے جیسے دی اکنامک ٹائمز اور این ڈی ٹی وی اس معاہدے کی سیاسی نوعیت اور علاقائی اثرات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ دی اکنامک ٹائمز نے صدر ٹرمپ کے طنزیہ جملے کو نمایاں کرتے ہوئے معاہدے کی پوشیدہ سیاسی رمق کو اجاگر کیا، جبکہ این ڈی ٹی وی نے اسے علاقائی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے مثبت پیشرفت قرار دیا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیائی سیاست میں ہر معاہدہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ اسٹریٹجک اہمیت بھی رکھتا ہے۔

معاہدے سے بڑھ کر ایک حکمتِ عملی

یہ معاہدہ جہاں پاکستان کے لیے معاشی ترقی کی نوید ہے، وہیں امریکا کی جنوبی ایشیا میں موجودگی کو مستحکم کرنے اور چین کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے کی کوشش بھی ہے۔ پاکستان اور امریکا کی یہ نئی شراکت داری صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں بلکہ خطے کے پیچیدہ سیاسی تانے بانے میں ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتی ہے۔

لہٰذا، عالمی میڈیا جیسے اس معاہدے کے ہر پہلو کو گہرائی سے دیکھ رہا ہے، ہمیں بھی اسے صرف اقتصادی معاہدہ سمجھنے کے بجائے ایک وسیع تر بین الاقوامی حکمتِ عملی کے تناظر میں پرکھنا ہوگا کیونکہ اس کے اثرات سرحدوں سے کہیں آگے جا سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

امریکا بھارت پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاک امریکا معاہدہ پاکستان چین روس مشکورعلی

متعلقہ مضامین

  • امریکی سفارت خانے نے پاکستان کیساتھ تجارتی معاہدے کو بڑی کامیابی قرار دیدیا
  • روس یوکرین جنگ: روسی فوجی تیزی سے ایڈز کا شکار ہونے لگے، ہولناک اسباب کا انکشاف
  • چین کے خلاف امریکی نمائندے کی بہتان تراشی ناقابل قبول ہے، چینی نمائندہ
  • امریکا، پاکستان تجارتی معاہدہ
  • امریکی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کے لیے ٹیرف میں کمی، پاکستان اور امریکا کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ
  • پاک امریکا معاہدہ، عالمی منظرنامے کی نئی حکایت
  • امریکہ سے معاہدہ،پاکستانی مصنوعات پر لگنے والے ٹیرف میں کمی آئے گی: وزارت خزانہ
  • پاکستان اور امریکا کے مابین تجارتی معاہدہ کامیابی سے طے پا گیا
  • امریکا کے ساتھ معاہدے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ طے پا گیا، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا اظہارِ اطمینان