پانی کے مسئلے پر تو دیہاتوں میں لوگ قتل ہوجاتے ہیں، ہم کیسے خاموش رہیں گے، خورشید قصوری
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری : فوٹو فائل
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے پر تو دیہاتوں میں لوگ قتل ہوجاتے ہیں، ہم کیسے خاموش رہیں گے، پانی روکنے کےلیے 15 سے 20 سال چاہیے ہوتے ہیں، یہ کوئی نلکا تو نہیں کہ آپ بند کر دیں گے۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید قصوری نے کہا کہ بھارت دہشتگردی کا اتنا شور مچا رہا ہے لیکن ثبوت تو ایک بھی نہیں دیا، کل آئی ایس پی آر نے پاکستان میں بھارتی دہشتگردی کے ثبوت دیے ہیں، دنیا دیکھے گی اصل میں بھارت دہشت گردی کا گڑھ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی ہر شکل میں مذمت کی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے90 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
خورشید محمود قصوری نے مزید کہا کہ بھارت دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی کر رہا ہے، کینیڈا کی مثال سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کا پاکستان کے ساتھ تعاون ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھا ہے، اسی لیے بھارت کا غصہ آج کل چین اور ترکیہ پر زیادہ ہے۔ چین کا بیان خود ہی بتا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، بھارت کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیل کا ایران پر حملہ دہشتگردی اور اعلان جنگ ہے، پیر خالد سلطان
اپنے بیان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن پیر خالد سلطان نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ متحد ہوکر اسرائیل کیخلاف صف بندی کرے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اہل سنت کے مرکزی ناظم اعلیٰ و اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن صاحبزادہ پیر محمد خالد سلطان نے اسرائیل کے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف دہشت گردی بلکہ ایران کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ متحد ہوکر اسرائیل کے خلاف صف بندی کرے۔ ایک بیان میں انہوں نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی سینئر فوجی قیادت، سائنسدانوں اور پھر عام عوام پر حملے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ دہشت گردی اور ایران کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوانین کو روندتے ہوئے اسرائیل نے جو کیا اس کے بعد اب ان قوانین کی ضرورت نہیں، کیونکہ دنیا کے طاقتور ممالک قوانین کو مانتے نہیں۔ جہاں ان کے مفادات کی بات آتی ہے تب قوانین پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ لیکن جب ان کے مفادات نہ ہوں تو پھر ان قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاتا ہے۔