چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یوم مزدور پر مزدوروں کی محنت، لگن اور ملک کی ترقی میں اہم کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ مزدورں کے مقدمات جلد اور منصفانہ طور پر حل کیے جائیں گے۔

 چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یوم مزدور کے موقع پر جاری کیے گئے اپنے پیغام میں کہا کہ مزدور قوم کی ترقی کی بنیاد ہیں، ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پاکستان کا آئین مزدوروں کو عزت، مناسب تنخواہ اور اچھے کام کے حالات دینے کی ضمانت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کے ساتھ انصاف کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، عدالتوں نے ہمیشہ مزدوروں کے استحصال کو روکا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیصلے کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مزدوروں کے مقدمات جلد اور منصفانہ طور پر حل کیے جائیں گے، عدلیہ کام کی جگہ پر حفاظت، مساوات اور بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کے لیے کام جاری رکھے گی، ہر مزدور کی عزت اور وقار کو یقینی بنانا عدلیہ کی اولین ترجیح ہے، مزدوروں کے حقوق کے لیے مل کر کام کریں تاکہ آئین کا خواب پورا ہر۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مزدوروں کے چیف جسٹس کے لیے

پڑھیں:

یومِ مزدور اور پاکستان میں مزدوروں کی حالت!!

یومِ مزدور، جسے بین الاقوامی یومِ محنت یا ”مے ڈے” بھی کہا جاتا ہے، ہر سال یکم مئی کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاکہ محنت کشوں کی خدمات کا اعتراف کیا جا سکے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جا سکے۔ اس دن کی بنیاد مزدور یونین تحریک، خاص طور پر انیسویں صدی کے آخر میں آٹھ گھنٹے کام کی تحریک سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں یہ دن عوامی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے، جس میں ریلیاں، سیمینار اور تقاریر شامل ہوتی ہیں تاکہ مزدور طبقے کی جدوجہد کو سراہا جا سکے۔ تاہم، اس علامتی اعتراف کے باوجود پاکستان میں مزدوروں کی حقیقی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔ کم اجرتیں، غیر محفوظ کام کی جگہیں، ملازمت کا غیر یقینی مستقبل، اور بنیادی سہولیات تک محدود رسائی ملک بھر کے لاکھوں مزدوروں کے مسائل میں شامل ہیں۔

یومِ مزدور کی ابتدا امریکہ میں مزدور یونین تحریک سے ہوئی، خاص طور پر 1886ء میں شکاگو کے ”ہے مارکیٹ سانحہ” سے، جہاں آٹھ گھنٹے کام کے مطالبے پر ہڑتال کرنے والے مزدوروں پر تشدد کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد، یکم مئی مزدوروں کے اتحاد کی علامت بن گیا اور مزدوروں کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان، اس دن کو مزدوروں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے حالات کار بہتر بنانے کے عزم کی تجدید کے طور پر مناتے ہیں۔پاکستان میں یومِ مزدور کو 1972ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔ یہ دور مزدور تحریکوں اور اصلاحات کا تھا، جس میں انڈسٹریل ریلیشنز آرڈیننس اور ٹریڈ یونین کے حقوق جیسے اقدامات شامل تھے۔پاکستان کا مزدور طبقہ وسیع اور متنوع ہے، جس میں حالیہ اندازوں کے مطابق 7 کروڑ سے زائد افراد شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً 72 فیصد مزدور غیر رسمی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں نہ تو باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں، نہ قانونی تحفظ، اور نہ ہی صحت کی سہولیات، پنشن یا تنخواہ دار چھٹی جیسی مراعات۔ اس شعبے میں گھریلو ملازمین، ریڑھی والے، زرعی مزدور، تعمیراتی مزدور، اور کئی کارخانوں کے مزدور شامل ہیں۔رسمی شعبے میں رجسٹرڈ صنعتوں، سرکاری ملازمتوں، اور کارپوریٹ اداروں کے ملازمین شامل ہوتے ہیں، جہاں مزدوروں کو نسبتاً زیادہ حقوق حاصل ہوتے ہیں، لیکن یہاں بھی قوانین کا نفاذ اکثر ناقص ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے کے حالات بتدریج دگرگوں ہوتے جارہے ہیں اور غریب مزید غریب اور امیر امیر تر ہوتاجارہاہے۔حکومت وقتاً فوقتاً کم از کم تنخواہ کا اعلان کرتی ہے، جو 2024ء میں مختلف صوبوں میں 32,000 سے 35,000 روپے ماہانہ کے درمیان ہے۔ تاہم، عملی طور پر بیشتر مزدور اس سے بھی کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔ مہنگائی اور روزمرہ اخراجات میں اضافے نے ان کی قوتِ خرید کو شدید متاثر کیا ہے۔عارضی کنٹریکٹ پر کام کروانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بہت سے مزدور قلیل مدتی معاہدوں پر کام کرتے ہیں جس سے انھیں نوکری کی سیکورٹی، پنشن یا دیگر مراعات حاصل نہیں ہوتیں۔ ایسی صورتحال میں وہ کام کی جگہ پر آواز بلند کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔تعمیرات، کان کنی، مینوفیکچرنگ اور زراعت میں کام کرنے والے مزدور اکثر خطرناک حالات میں بغیر کسی حفاظتی سامان کے کام کرتے ہیں۔ 2012ء میں کراچی کے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے سے 250 سے زائد مزدور جاں بحق ہو گئے تھے، جس نے ان مسائل کی سنگینی کو واضح کیا۔ بچوں سے مزدوری کرانا قانوناً ممنوع ہے، لیکن یہ عمل پاکستان میں عام ہے۔ بچے قالین بُننے، اینٹوں کے بھٹوں، گھریلو کاموں اور کھیتوں میں طویل گھنٹوں تک مشقت کرتے ہیں۔ جبری مشقت، خاص طور پر زرعی علاقوں اور بھٹوں پر، آج بھی موجود ہے۔خواتین مزدور کئی طرح کے امتیازات کا شکار ہیں، جیسے کم تنخواہ، ہراسانی اور کام کی جگہوں تک رسائی میں مشکلات۔ خواتین کی مزدور قوت میں شمولیت مردوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ انھیں اکثر غیر رسمی شعبے میں کم اجرت والے کام دیے جاتے ہیں۔پاکستان میں مزدور قوانین کا ایک جامع نظام موجود ہے، جن میں فیکٹریز ایکٹ 1934۔شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس۔انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2012۔کم از کم اجرت آرڈیننس۔جبری مشقت کے خاتمے کا ایکٹ 1992۔ شامل ہیں لیکن ان پر شاذ ہی عمل ہوتا ہے۔

پاکستان نے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے کئی معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔پاکستان میں مزدور یونینز قانونی طور پر موجود ہیں، لیکن اصل مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ خاص طور پر غیر رسمی شعبے میں قوانین کا نفاذ بہت کمزور ہے۔مزدوروں یعنی محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں مزدور یونینز کا کرداربہت اہم ہوتاہے لیکن سرمایہ داروں نے مزدور یونینوں میں نقب لگانے کے مختلف طریقے تلاش کررکھے ہیں وہ مزدور رہنماؤں کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ،پاکٹ یونینیں بنواکر مزدور کی طاقت کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یونین سازی کی کوشش کرنے والوں اور محنت کشوں کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو اکثر دھمکایا جاتا ہے یا نوکری سے نکال کرانتہائی سفاکی کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھوک اور فاقوں کا شکار کردیاجاتا ہے۔ ملک میں صرف 2-3 فیصد مزدور ہی یونینز کے رکن ہیں۔ سیاسی مداخلت، اندرونی اختلافات، اور غیر رسمی شعبے میں عدم رسائی یونینز کو کمزور کرتی ہے۔اس کے باوجود، کچھ یونینز اور غیر سرکاری تنظیمیں تنخواہوں میں اضافے، بہتر حالات کار، اور گھریلو و گھر پر کام کرنے والے مزدوروں کی شناخت کے لیے کامیاب مہمات چلا چکی ہیں۔پاکستان میں مزدوروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:۔قوانین پر مؤثر عملدرآمد۔سوشل سیکیورٹی کی فراہمی۔کم از کم اجرت میں مہنگائی کے مطابق اضافہ۔فنی تعلیم اور بالغوں کے لیے تعلیمی پروگرام ۔ خواتین مزدوروں کو بااختیار بنانا۔یونین سازی کو فروغ دینا۔یومِ مزدور ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ محنت ایک عظیم فریضہ ہے اور مزدوروں کے ساتھ منصفانہ سلوک ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ پاکستان میں اگرچہ یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، لیکن مزدوروں کی حالت اکثر اس دن کے مقاصد سے دور رہتی ہے۔ ہمیں محض علامتی تقریبات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہر مزدور کی زندگی میں بہتری آ سکے۔

پاکستان میں آ بادی کا بڑا حصہ 40سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے اور جس قوم کے پاس اپنی 24کروڑ کی آبادی میں سے کام کے قابل لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو اور اس افرادی قوت کو تعلیم اور ہنر سے لیس کر دیا جائے تواس کیلئے ترقی کی بڑی منزلیں کم وقت میں سر کرنا مشکل امر نہیں ہے ۔نوجوان تعلیم اور ہنر سے مزیّن ہوں تو اندرون ملک صنعتوں، کاروبار سمیت مختلف منصوبوں کو بروئے کار لانے اور تیزی سے آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے جبکہ بیرون ملک بھی ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے روزگار کے نسبتاً بہتر مواقع میسر آتے ہیں اورانسے فائدہ اٹھا کر زرمبادلہ کمانے کا ایک اضافی ذریعہ میسر آتاہے۔ کسی ملک میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی جہاں خوش بختی کی علامت ہے وہاں حکومت کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتی ہے کیونکہ اگر نوجوانوں کو علم و ہنر اور مناسب رہنمائی فراہم کرنے میں غفلت برتی جائے تو یہ نوجوان ملک وقوم کا قابل قدر اثاثہ بننے کی بجائے ایسا ہجوم بن جاتے ہیں جن کی ضروریات کی تکمیل حکومتوں کیلئے مشکل مسئلہ بن جاتی ہے۔ بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات سے یہ بات واضح ہوئی کہ نوجوانوں کی اکثریت کے حامل ممالک میں معاشی بے چینی سے نمٹنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کی 2017کی مردم شماری کے حوالے سے ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ملک کی 64فیصد آبادی کی عمر 30سال سے کم اور بیروزگاری کی شرح 6.3فیصد ہے جس سے2 باتیں واضح ہیں۔اول یہ کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے سرفہرست ملکوں میں شامل ہے۔ دوئم یہ کہ اس افرادی طاقت کو قابو میں رکھنے کیلئے سالانہ کم وبیش10 لاکھ کے قریب ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے چند برسوں میں پاکستانی معیشت کو جو دھچکے لگے ان کی بنا پر صورتحال زیادہ قابل توجہ ہوچکی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے جنھوں نے تعلیم، ہنر، ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کرکے اپنے معاشی حالات میں بہتری کے امکانات نکالے اور متاثرکن نتائج حاصل کئے۔

پاکستان لیبر فورس سروے 21-2020 کے مطابق ملک میں 15 کروڑ 98 لاکھ 30 ہزار افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے 8 کروڑ 92 لاکھ مرد ہیں اور تقریباً 7 کروڑ 89 لاکھ خواتین ہیں۔ تاہم اس آبادی میں سے کام کاج کے قابل2کروڑ 60 لاکھ مرد اور 6 کروڑ 20 لاکھ خواتین بے روزگار ہیں۔ اسی طرح ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگار لوگوں میں سے اکثر کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔دوسری جانب آبادی میں اضافے کی رفتار بھی خوفناک حد تک زیادہ ہے 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے 14 کروڑ تھی جو اب بڑھ کر 24 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے جس میں 80 فیصد آبادی کی عمر 40سال یا اس سے کم ہے۔اگرچہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان طبقہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ مناسب تعلیم اور ہنر سے بھی آراستہ ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق ملازمت کے حصول کی خواہشمند 60فیصد سے زیادہ افرادی قوت کے پاس خدمات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں درکار مہارتوں کی کمی ہے اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہنر مند افراد کی تعداد اتنی کم ہے کہ اس حوالے سے بنائی گئی 130 ممالک کی ایک فہرست میں اس کا نمبر 125ہے۔ اس فہرست میں شامل جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک پاکستان سے کہیں بہتر ہیں۔ ان میں سے سری لنکا کا نمبر 70، نیپال کا 98،بھارت کا 103 اور بنگلہ دیش کا 111 ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بیرون ملک ہنر مند افراد کیلئے روزگار کے بہترین مواقع وسیع تعداد میں موجود ہیں لیکن ہمارے نوجوان طبقے کے پاس ٹیکنیکل ٹریننگ کے حصول کے مواقع انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے اور ہرایک یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کر کے اعلیٰ سرکاری نوکری حاصل کرنے کا خواہشمندنظر آتا ہے۔ ملک میں ٹیکنیکل تعلیمکے اداروں کی بھی شدید کمی ہے اور ان کی مجموعی تعداد 3500کے قریب ہے جہاں بامشکل5 لاکھ افراد کو تربیت دینے کی سہولت دستیاب جبکہ دیہی علاقوں میں یہ سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم یعنی کوئی ہنر سیکھنے کیلئے قریب ترین شہر جانا پڑتاہے اور دیہی علاقوں کے لوگوں کی اکثریت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کا قریبی شہر آمدورفت کا خرچ برداشت کرسکین ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان میں دی جانے والی تعلیم اور تربیت کا معیار بھی مزید بہتر بنایا جائے اور ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں کادائرہ دیہی علاقوں تک وسیع کیا جائے تاکہ ہمارے کاشتکار اور زمینوں پر محنت مزدوری کرنے والے لوگوں کے بچے بھی کوئی ہنر سیکھ کر بہتر روزگار پیدا کرنے کے قابل بن سکیں اور مقامی طورپر صنعتیں قائم کرنے والے سرمایہ کاروں کو ہنر مند افرادی قوت کی کمی کی شکایت نہ رہے ۔

صوبوں اور وفاقی حکومت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقتصادی ترقی اور بیروزگاری کو کم کرنے کے لئے ٹیکنیکل ٹریننگ کورسز کا فروغ اور ان میں جدت لانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سفارتخانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو یہ ٹاسک دیا جا سکتا ہے کہ وہ ہر ملک کی ضرورت کے مطابق افرادی قوت کی تیاری کے لئے مخصوص ٹریڈز کی نشاندہی کریں۔ اس طرح ملنے والی معلومات کو آگے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے والے اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے تا کہ وہ انہی ٹریڈز میں نوجوانوں کو عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کرکے ملازمت کا حصول یقینی بنائیں۔اگر پاکستان کودنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر خود کو منوانا ہے تو یہ ہنر مند، تعلیم یافتہ اور صحت مند انسانی وسائل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔پوری دنیا خاص طورپر ترقی پذیر ممالک میں درسگاہیں۔ اپنی اپنی مملکت کیلئے تربیت یافتہ ٹیکنو کریٹ تیار کررہی ہیں۔ بھارت سمیت کتنے ملکوں میں زیر زمین ریلوے متعارف کردی گئی۔ ماس ٹرانزٹ بڑے پیمانے پر سفر کے وسائل کے انتظامات کیے گئے۔ دریاؤں سمندروں پر نئے پل۔ ریلوے لائنوں کی مزید مقامات تک توسیع۔ فضائی سفر کی سہولتیں۔ قرضوں کی واپسی۔ بلکہ کئی ملک تو دوسروں کو قرضے دینے لگے۔دوسری طرف گزشتہ39سال کے دوران ہمارے زوال کا سفر بہت ہی تیزی سے جاری رہا ہے۔ اور اب زیادہ سرعت اختیار کرگیا ہے۔یوم مئی پر محنت کشوں کی عظمت کا اعتراف کرنے والے حکمرانوں کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • یوم مزدور: پاکستان کی عدالتوں نے آجر و اجیر کے تعلق میں توازن پیدا کیا، چیف جسٹس
  • آزاد کشمیر میں مزدوروں کے استحصال کی کسی کو اجازت نہیں دی جائیگی؛ چوہدری انوارالحق 
  • باعزت روزگار، منصفانہ اجرت ،سماجی تحفظ ہرمحنت کش کا بنیادی حق ، پی پی پی انہیں بااختیاربنانے کے لئے پرعزم ہے ، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری
  • یومِ مزدور اور پاکستان میں مزدوروں کی حالت!!
  • محنت کشوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
  • بانیٔ پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کرنے والا 2 رکنی بنچ تحلیل
  • پشاور ہائی کورٹ عدالت نے اعظم سواتی کو ایک ماہ کی حفاظتی ضمانت دے دی
  • لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کی 9 مئی کے تمام مقدمات یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی
  • سول نظام ناکام، تمام مقدمات فوجی عدالت بھیج دیں