ہانگ کانگ (نیوز ڈیسک)دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی، خوبصورتی، سہولیات اور لاگت کے لحاظ سے مختلف ایئرپورٹس کو سراہا جاتا ہے، مگر اگر بات کی جائے دنیا کے مہنگے ترین ایئرپورٹ کی، تو سب سے پہلا نام ’ہانگ کانگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘ کا آتا ہے۔ نہ صرف اس کی تعمیر پر ریکارڈ لاگت آئی، بلکہ یہاں روزمرہ کی عام اشیاء بھی انتہائی مہنگی دستیاب ہیں۔

ہانگ کانگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز 1991میں ہوا اور اسے 6 جولائی 1998کو عوام کے لیے کھولا گیا۔ اس میگا پراجیکٹ پر مجموعی طور پر 20 ارب امریکی ڈالر (تقریباً 5,600 ارب پاکستانی روپے) کی لاگت آئی۔ یہ دنیا کی تاریخ میں سب سے مہنگا ایئرپورٹ پروجیکٹ مانا جاتا ہے۔ یہ ریکارڈ 1998 میں گنیز ورلڈ ریکارڈز نے تسلیم کیا تھا ۔

ایئر پورٹ کی تعمیر کے دوران مصنوعی جزیرہ ’چیک لپ کوک‘ کو زمین دوز کیا گیا۔ اور 31 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن اور زیرِ زمین ٹنلز بنائے گئے۔ پورا ایک نیا شہر تعمیر کیا گیا تاکہ مزدوروں اور عملے کے رہنے کے لیے سہولت ہو۔

یہ ایئرپورٹ صرف فضائی سفر کا مرکز نہیں بلکہ ایک مکمل ’ایوی ایشن سٹی‘ ہے۔ جہاں حیران کن سہولیات موجود ہیں۔ اس ایر پورٹ میں دو بڑے رن وے ہیں، جدید ترین خودکار چیک ان سسٹمز، بین الاقوامی سطح کے ریستوران اور شاپنگ مالز، بچوں کے لیے تفریحی مقامات، اور دنیا کے بلند ترین کنٹرول ٹاور بلڈنگز میں سے ایک ہے۔

ہانگ کانگ ایئرپورٹ نہ صرف اپنی تعمیر میں مہنگا ہے بلکہ یہاں اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ ایک عام مسافر کے لیے سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں ایک کیلا یا سیب کی قیمت تقریبا 10 امریکی ڈالر ہے۔ یہ قیمت صرف مہنگائی کی نہیں بلکہ ایئرپورٹ کی ’پریمیئم‘ مارکیٹ پالیسی کی بھی عکاسی کرتی ہے، جہاں محدود سپلائی، کرایوں اور ٹیکسز کے باعث عام چیزیں بھی بہت مہنگی ہوتی ہیں۔

ہانگ کانگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ہوائی اڈوں میں شامل ہے، جو نہ صرف تکنیکی لحاظ سے اعلیٰ ہے بلکہ مالی اعتبار سے بھی سبقت رکھتا ہے۔ یہاں کا ہر گوشہ انجینئرنگ کا شاہکار اور جدیدیت کی علامت ہے۔
مزیدپڑھیں:مسئلہ کشمیر کے حل تک خطے میں امن کا قیام ناممکن ہے، خواجہ سعد رفیق

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہانگ کانگ کی تعمیر کے لیے

پڑھیں:

غرور کی قیمت، جنگ کی گونج

دنیاکی تاریخ اورنقشے پربعض ایسے لمحات شاذونادرآتے ہیں جب الفاظ بارودسے بھاری اورجملوں کی کاٹ تلواروں کی دھار سے بڑھ جاتی ہے،اورایک جملہ کسی توپ کے گولے سے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ آج جب جنوبی ایشیاء کی دوایٹمی قوتیں،انڈو پاک،لفظوں کی تلواریں نیام سے نکال کرایک دوسرے پربرسارہی ہیں،توہواں میں صرف سیاسی تناہی نہیں،بلکہ تاریخ کے پنوں سے اٹھتی ہوئی وہ گردبھی محسوس ہورہی ہے جس نے ماضی میں تہذیبوں کوملبے میں بدل دیاتھا۔
گزشتہ چندروزسے پاکستان اورانڈیاکے تعلقات میں شدیدکشیدگی دیکھی جارہی ہے،جس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان لفظی جنگ،سندھ طاس معاہدے کومتنازعہ بنانے کی کوششیں،اور باہمی طور پر جارحانہ بیانیہ ہے۔یہ تنائونہ صرف خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے بلکہ عالمی برادری کی تشویش کاباعث بھی بناہواہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں جاری لفظی جنگ ایسی ہی ایک ہولناک کیفیت کی غمازہے۔
چندروزکی خبروں اوربیانات نے ایک ایسے آتش فشاں کی صورت اختیارکرلی ہے جوکسی بھی لمحے ایٹمی لاوااگل سکتاہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کاانتباہ کہ ’’انڈیانے پاکستان کاپانی بندکیاتو اسے اقدامِ جنگ تصورکیاجائے گا‘‘ محض ایک رسمی بیان نہیں بلکہ ایک ایسااعلان ہے جس کے پس منظرمیں قومی غیرت کی پوری تاریخ رقص کررہی ہے۔دوسری جانب مودی کایہ کہنا کہ ’’حملہ آوروں اورحملے کی سازش کرنے والوں کوان کے تصورسے بھی بڑی سزاملے گی‘‘،ایک ایساجارحانہ اشارہ ہے جو جنوبی ایشیا کے امن کی بنیادوں کولرزا رہاہے۔
وزیردفاع پاکستان،خواجہ آصف،کے جذبات میں لپٹاہوایہ جملہ کہ ’’پاکستان اپنے ہر شہری کی موت کابدلہ لے گا‘‘ دشمن کویہ پیغام دے رہاہے کہ پاکستانی قوم کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوچکاہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے تحمل کی تلقین ایک ایسابوسیدہ مرہم ہے جو ناسوربنتے زخم پررکھاجارہاہے۔یہ سب ایک ایساخطرناک منظرنامہ تشکیل دے رہاہے جہاں معمولی سی لغزش پوری دنیاکو تاریک کرسکتی ہے۔
1960ء کے معاہدے کی روسے دریائے سندھ،جہلم،اورچناب کاپانی پاکستان کوجبکہ راوی، بیاس،اورستلج کاپانی انڈیاکودیاگیا۔یہ معاہدہ دنیا کا سب سے طویل المدتی امن معاہدہ سمجھاجاتا ہے، جس نے 1965ء اور1971ء کی جنگوں کے دوران بھی کام جاری رکھا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کوپانی کے استعمال،ڈیموں کی تعمیر، اورآبی تنازعات کے حل کیلئے ایک مکینزم مہیاکیا گیا۔انڈیانے معاہدے کے آرٹیکل12 کے تحت اسے’’جزوی طورپرمعطل‘‘ کرنے کا اعلان کیاہے،جسے پاکستان نے’’جنگی اقدام‘‘ قرار دیتے ہوئے سختی سے ردکیاہے۔جس کامطلب ہے کہ وہ پاکستان کے حصے کے دریاؤں پرڈیموں کی تعمیریاپانی کابہاؤروک سکتا ہے۔پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ انڈیاکے یہ اقدام’’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘‘اور’’جنگ کی دعوت‘‘ ہے۔پاکستان کے مطابق، دریائے چناب پر انڈیا کے زیرِتعمیرکشن گنگاڈیم سے پانی کے بہامیں 40فیصد تک کمی آسکتی ہے ، جوزراعت اور پینے کے پانی کے بحران کاباعث بنے گی۔
عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والاسندھ طاس معاہدہ دریاؤں کے پانی کے تناسب کوطے کرتا ہے اورگزشتہ6دہائیوں میں کئی جنگیں اوربحران جھیلنے کے باوجودقائم رہاتھا۔انڈیا کایہ قدم پانی کو’’جنگی ہتھیار‘‘ کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش سمجھاجا رہا ہے۔ انڈیا پانی کوہتھیاربناکرپاکستان کومعاشی طورپر کمزور کرنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کی90 فیصد زراعت دریاؤں کے پانی پرانحصارکرتی ہے۔پانی کی کمی سے زرعی تباہی کی وجہ سے گندم،چاول،اورکپاس کی پیداوارمتاثر ہوسکتی ہے۔ پانی کی قلت سے پاکستان میں سماجی بے چینی اور انڈیا کے خلاف عوامی ردعمل بڑھ سکتا ہے مگرآج جب بھارت اس معاہدے کی جزوی معطلی کی بات کررہاہے،توپانی کا مسئلہ،جوزندگی کاسرچشمہ تھا ، ہتھیاربننے جارہاہے۔ سندھ طاس معاہدہ کے قائم ستون کومودی حکومت گرانے کی دھمکیاں دی رہی ہے۔سندھ طاس معاہدہ،جووقت کی کئی آندھیوں، جنگوں اورفتنہ سامانیوں کے باوجودقائم رہا،آج بھارتی اقدام کی صورت میں اپنی پہلی سنجیدہ لغزش کاسامناکررہاہے۔پانی جیسا بنیادی اورفطری وسیلہ اب سفارتی میزوں پرایک ہتھیارکی حیثیت اختیارکرچکا ہے۔اگربھارت اس معاہدے کویکطرفہ طورپرمعطل کرکے پاکستان کے حصے کے پانی کوروکنے کی کوشش کرے،تویہ عمل محض ایک معاہدہ شکنی نہیں بلکہ فطرت کے قانون اور انسانیت کے ضمیرپرایک کاری ضرب ہوگا۔مورخین جانتے ہیں کہ پانی کی جنگیں میدانوں سے زیادہ انسانوں کے دلوں میں لڑی جاتی ہیں اوران کی تباہی کادائرہ سرحدوں سے آگے بڑھ کر تہذیبوں کے وجودکوچکناچورکردیتاہے۔
مودی نے دھمکی دی کہ’’حملہ آوروں کوان کے تصورسے بڑی سزاملے گی‘‘،جبکہ پاکستان کے وزیرد فاع خواجہ آصف نے کہاکہ ’’ہرشہری کی موت کابدلہ لیاجائے گا‘‘۔دونوں ممالک کی قیادت اپنے عوامی بیانیے میں جارحانہ لہجہ اپنارہی ہے،جس سے عوامی جذبات بھڑک رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کی ہے،مگر اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نظرنہیں آتی مگریہ زبانی جمع خرچ اب وقت کی شدت کامقابلہ کرنے کے لئے ناکافی معلوم ہوتاہے۔ دنیاکو،خاص طورپربڑی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض تلقین پراکتفانہ کریں،وہ اپنے کردارکومحض بیانات تک محدودنہ رکھیں،بلکہ عملی ثالثی کا کرداراداکریںورنہ خطے کاامن لمحوں میں دھواں ہوسکتاہے۔
خدشہ اس بات کاہے کہ لفظی جنگ سے بات بڑھ کرفوجی تصادم کی طرف جارہی ہے اورماضی کی طرح دونوں ممالک سرحدوں پرفوجی چھیڑچھاڑیامحدودفوجی کارروائیوں کاراستہ اختیار کرسکتے ہیں،فوجی محاذآرائی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پرگولہ باری اورفائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوسکتاہے جیسا کہ 2019ء کے پلوامہ حملے کے بعدہوا تھا ۔ 2019ء کی طرح انڈیا’’سٹرائک انسائیڈ پاکستان‘‘ (بالاکوٹ ایئرسٹرائیک)کی طرزپرہوائی یامیزائل حملہ کر سکتا ہے۔بحیرہ عرب میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔معاملہ مزیدخراب ہونے کی صورت میں فیصلہ کن جواب کی حکمت عملی کے طورپر روایتی جنگ میں شکست کی صورت میں ایٹمی ہتھیارکے استعمال سے صرف خطہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیاکے متاثرہونے کا قوی امکان موجودہے۔دونوں ممالک کے پاس 150-160 ایٹمی ہتھیارہیں۔کسی بھی بڑے تصادم کانتیجہ لاکھوں اموات اورماحولیاتی تباہی ہو سکتاہے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • دریائے سندھ پر جنوبی ایشیا کا سب سے طویل پُل زیرِ تعمیر
  • اسٹیڈیمز کی تعمیر پر کتنی رقم خرچ ہوئی، تفصیلات طلب
  • موسم کی بہتری کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر فلائٹ آپریشن معمول پر آگیا
  •  موسم کی بہتری کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر فلائٹ آپریشن معمول پر آگیا
  • جاوید اختر کو پاکستانی فنکاروں پر پابندی کا بیان مہنگا پڑ گیا
  • دنیا کی معمر ترین خاتون 116 سال کی عمر میں چل بسیں
  • غرور کی قیمت، جنگ کی گونج
  • بڑی کارروائی، برائلر گوشت کے مہنگا ہونے کی وجہ سامنے آگئی
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تو مکمل تباہی ہوگی: ناصر جنجوعہ