Daily Ausaf:
2025-09-18@10:43:03 GMT

اولیا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

انسان تو سب ہی اللہ کے بندے ہیں، اس کے پیدا کردہ ہیں لیکن کچھ انسان اللہ تعالیٰ کے خاص اور مقبول بندے ہوتے ہیں عرف عام میں جن کو اولیاء کہاجاتا ہے، یہ وہ بزرگ ہستیاں ہیں کہ توحید و رسالت پر ایمان کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اعمال و اخلاق اورعبادت سب اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے تابع اور احکام شرع کے مطابق ہوتے ہیں،قرآن کریم نے ایسے ہی خاص بندوں کو ’’عبادالرحمن‘‘کا لقب عطا فرمایا جو ان کا بہت بڑا اعزاز ہے۔سورہ الفرقان کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی کچھ صفات و علامات ذکر کی گئی ہیں کہ وہ خاص متعینہ لوگ نہیں بلکہ جو بھی ان صفات کو اپنائے گا، اپنا کردار، گفتار، اخلاق و اطوار، عبادات و معاملات وغیرہ ان صفات کے مطابق کرے گا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ان قریبی اور مقبول بندوں ’’عبادالرحمن‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کی بیان کردہ ’’عباد الرحمن‘‘کی وہ خاص صفات پڑھتے ہیں کہ جن کی بدولت ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔عباد الرحمن کی پہلی صفت ہے ’’عبودیت‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کا ہی بندہ بن کر رہنا، اپنے اعمال و اخلاق بلکہ اپنے وجود تک کو مالک حقیقی کا مملوک سمجھنا، ہر قول و فعل مالک کی مرضی کے مطابق کرنا، ہمہ وقت ہر حال میں اس کی اطاعت کے لئے کمر بستہ رہنا، ایسے لوگ ہیں اللہ کے بندے اور جو اس لائق ہیں کہ انہیں بندہ کہا جائے کیونکہ اپنی حد تک یہ بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ورنہ جو برائے نام کا رحمن کا بندہ ہو اور کام اس کے شیطان کے ہوں تو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں آتا ہے: ’’اولئک کالانعام بل ھم اضل‘‘ یعنی باوجود یکہ ان کا خالق و مالک بھی اللہ ہی ہے لیکن ان کے اخلاق و اعمال عقائد و عبادات ایسے ہیں کہ یہ اس لائق نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے بلکہ یہ جانوروں سے بھی بدترہیں، جانور بھی اپنے مالک کے اتنے نافرمان نہیں ہوتے جتنا یہ شخص ہے، ان جانوروں میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن وہ اپنے مالک کے اتنے وفادار ہوتے ہیں کہ مالک کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں مگر یہ (بعض) انسان ہیںکہ جو اپنے مالک حقیقی اللہ جل شانہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی عملاً بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔
قرآن و سنت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی، جی چاہی زندگی گزار رہے ہیں ، حیات چند روزہ کو حیات جاوداں(آخرت)پر ترجیح دے رہے ہیں یہ لوگ اس بات کے مستحق ہی نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے اور’’عباد الرحمن‘‘کا تمغہ امتیاز ان کو دیا جائے۔ عبادالرحمن کی دوسری صف یہ ہے کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں،ا کڑاتے ہوئے تکبر کی ساتھ نہیں چلتے، ان کی چال میں مسکنت(عاجزی)اور وقار کی صفت نظر آرہی ہوتی ہے،عورتوں کی طرح بہت آہستہ آہستہ چلنا مراد نہیں کیونکہ یہ تو خلاف سنت ہے، آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ یعنی آپ ﷺ جب چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا بلندی سے اتر رہے ہیں اور زمین آپﷺ کے لئے سمیٹ دی گئی ہے۔ اس وجہ سے بتکلف (بلا ضرورت)مریضوںکی طرح آہستہ آہستہ چلنے کو علماء نے مکروہ لکھا ہے کہ اس ادا سے تکبر صاف دکھائی دے رہا ہوتاہے اور تکبر کرنا، بڑائی جتلانا بندہ کی شان نہیں ہے، ایسے اکڑ اکڑ کر، یا کسی بھی دوسرے طریقے پر متکبرانہ انداز میںچلنے سے قرآن کریم نے صاف لفظوں میں منع فرمایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یعنی زمین پر اتراتے ہوئے مت چل بے شک تو زمین کو پھاڑ بھی نہیں سکتا اور پہاڑ کی بلندی کو بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘ حضرت حسن بصری ؒنے اس آیت ’’یمشون علی الارض ھونا‘‘کی تفسیر میں فرمایا کہ مومنین مخلصین کے تمام اعضا و جوارح آنکھ، کان، ہاتھ ، پائوں سب اللہ کے سامنے ذلیل و عاجز ہوتے ہیں، ناواقف ان کو دیکھ کر معذور وعاجز سمجھتا ہے حالانکہ نہ وہ بیمار ہیں نہ وہ معذور بلکہ تندرست قوی ہیں مگر ان پر حق تعالیٰ کا خوف ایسا طاری ہے جو دوسروں پر نہیں ہے۔ ان کو دنیا کے دھندوں سے آخرت کی فکر نے روکا ہوا ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ نہیںکرتا اور اس کی ساری فکر دنیا ہی کے کاموں میں لگی رہتی ہے تو وہ ہمیشہ حسرت ہی حسرت میں رہتا ہے(کہ دنیا تو ساری ملتی نہیں اورآخرت میں اس نے حصہ نہیں لیا)اور جس شخص نے اللہ کی نعمت صرف کھانے پینے کی ہی چیزوں کو سمجھا اور اعلیٰ اخلاق کی طرف دھیان نہیں دیا، اس کا علم بہت تھوڑا ہے اور عذاب اس کے لئے تیار ہے۔(از ابن کثیر)
قرآن کریم میں اسی لفظ ’’ھونا‘‘کااستعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسکنت اور وقار کے ساتھ چلنا اور چلتے وقت پائوں اٹھا کر رکھنا، زمین پر گھسیٹتے ہوئے نہ چلنا آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپﷺ جب چلتے تو پائوں اٹھا اٹھا کر رکھتے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ بلندی سے اتر رہے ہوں اور سینہ تان کر چلنا یہ متکبرین کا کام ہے عباد الرحمن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تکبر اور خود نمائی سے بچتے ہیں اور اپنے گفتار و کردار، عادات اور اطوار اور چال چلن میں تکبر کی بو بھی محسوس نہیں ہونے دیتے،مسکنت اور عاجزی ان کی اک اک ادا سے ٹپک رہی ہوتی ہے اور یہ انسان کی چال ہی ہے جو اس کے ذہن، اور سیرت و کردار کی مکمل ترجمانی کرتی ہے ایک بدمعاش اور غنڈے آدمی کی چال ایک ظالم و جابر کی چال، ایک مہذب آدمی کی چال الگ الگ ہوتی ہے اور انسان کی چال چلن کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔ انسان کا یہ قدم ہی ہے جو اس کو خیر کی طرف بھی لے جاتا ہے اور شر کی طرف بھی، کامیابی کی طرف بھی ، ناکامی کی طرف بھی اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے اوائل ہی میں اس کا تذکرہ کیا،جن کا ہرقدم خیر کے ساتھ اٹھتا ہے اور خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، نہ تو کسی پر ظلم و جبر کرنے کے لئے اور نہ زمین میں فساد مچانے اور اپنی بڑائی جتلانے کے لئے۔خلاصہ اس صفت کا یہ ہوا کہ عباد الرحمن یعنی اللہ کے خاص اور مقرب بندے(بلاضرورت)نہ تو بہت آہستہ چلتے ہیں (عورتوں اور مریضوں کی طرح)اور نہ ہی بہت تیز بلکہ درمیانی رفتار سے چلتے ہیں اور چلتے وقت زمین پر پائوں گھسیٹتے ہوئے نہیں چلتے بلکہ قدم اٹھا اٹھا کر رکھتے ہیں، متکبرانہ انداز میں سینہ تان کر اوپر اٹھا کر نہیں چلتے بلکہ عاجزی اور مسکنت و وقار کے ساتھ سینہ اور نظریں جھکائے ہوئے چلتے ہیں اور ان کا کوئی قدم گناہ اور معاصی کے کام کی طرف نہیں اٹھتا بلکہ خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی ہی چال ہر مسلمان کو نصیب کردے۔ آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عباد الرحمن اللہ تعالی کی طرف بھی ہوتے ہیں چلتے ہیں ہیں اور اٹھا کر اللہ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے اور ہیں کہ کی چال کے لئے

پڑھیں:

اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے متنازع میچ ریفری اینڈی پائیکرافٹ کی جانب سے معافی مانگنے کے بعد کہا ہے کہ کئی لوگوں نے میچ ریفری کے معاملے میں تعاون کیا، مسلسل اس ایشو کو دیکھ رہے تھے، خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا فیصلہ ہوگا۔
محسن نقوی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، مجھے امید ہے آئندہ ہم کرکٹ پر فوکس کریں گے سیاست پر نہیں، ہمارا وقت کرکٹ پر لگنا چاہیے سیاست پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم سے امید ہے، وہ عمدہ پرفارمنس دکھائے گئی، قوم کو کہوں گا کہ ٹورنامنٹ کے آخر تک انہیں سپورٹ کریں، اگر کھلاڑیوں کی خامیاں ہوں گی تو ضرور انہیں دور کریں گے، ہمارے پاس سلیکٹرز کا پینل ہے جو پرفارمنس کا جائزہ لے گا، میرا وعدہ ہے کہ کہیں کمزوری نظر آئی تو اُسے دور کریں گے۔
اس موقع پر سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف رہا کہ کھیل میں سیاست نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے سیاست کی، ہم نے سیاست نہیں کھیلی، ہم نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، پاکستان نے میچ ریفری کی معافی کا کہا ہے اور وہ معافی آچکی ہے۔
سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے، اینڈی پائیکرافٹ لگتا ہے بھارت کے فیورٹ ہیں، اینڈی پائیکرافٹ مستقل فکسر ہیں، وہ 90 مرتبہ بھارت کے میچز میں میچ ریفری رہے ہیں، جو کہ حیرت انگیز بات ہے۔
رمیز راجہ نے مزید کہا کہ یہ ہماری فتح ہے، ایک نازک صورتحال بن گئی تھی، خوشی ہوئی کہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا گیا، جتنی بھی بات کرنی ہو، اسے پاکستان ٹیم کی پرفارمنس کے ذریعے جواب دینا ہوگا، جو بھی ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں وہ آپ فیلڈ میں بتائیں کہ ہم کتنے گریٹ کرکٹ نیشن ہیں۔
رمیز راجہ نے مزید کہا کہ پوسٹ میچ میں کی گئی بات مجھے بہت بُری لگی، اس کا ذمہ دار کون ہوگا، جو معافی آئی ہے، وہ اچھا اقدام ہے، کرکٹ کو کرکٹ ہی رہنے دینا چاہیے، یہ پولیٹیکل پلیٹ فارم بن جائے گا تو یہ سلسلہ پھر رکے گا نہیں، محسن نقوی نے بتایا کہ اس معاملے کی انکوائری ہوگی، اس کے ذمہ داران کا پتا لگا جائے گا۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • میچ ریفری تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی،محسن نقوی
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • انقلاب – مشن نور
  • دہشتگردوں کا ملک کے اندر اور باہر پورا بندوبست کیا جائے گا،راناثنااللہ
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ