Daily Ausaf:
2025-11-03@02:01:31 GMT

اولیا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

انسان تو سب ہی اللہ کے بندے ہیں، اس کے پیدا کردہ ہیں لیکن کچھ انسان اللہ تعالیٰ کے خاص اور مقبول بندے ہوتے ہیں عرف عام میں جن کو اولیاء کہاجاتا ہے، یہ وہ بزرگ ہستیاں ہیں کہ توحید و رسالت پر ایمان کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اعمال و اخلاق اورعبادت سب اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے تابع اور احکام شرع کے مطابق ہوتے ہیں،قرآن کریم نے ایسے ہی خاص بندوں کو ’’عبادالرحمن‘‘کا لقب عطا فرمایا جو ان کا بہت بڑا اعزاز ہے۔سورہ الفرقان کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی کچھ صفات و علامات ذکر کی گئی ہیں کہ وہ خاص متعینہ لوگ نہیں بلکہ جو بھی ان صفات کو اپنائے گا، اپنا کردار، گفتار، اخلاق و اطوار، عبادات و معاملات وغیرہ ان صفات کے مطابق کرے گا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ان قریبی اور مقبول بندوں ’’عبادالرحمن‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کی بیان کردہ ’’عباد الرحمن‘‘کی وہ خاص صفات پڑھتے ہیں کہ جن کی بدولت ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔عباد الرحمن کی پہلی صفت ہے ’’عبودیت‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کا ہی بندہ بن کر رہنا، اپنے اعمال و اخلاق بلکہ اپنے وجود تک کو مالک حقیقی کا مملوک سمجھنا، ہر قول و فعل مالک کی مرضی کے مطابق کرنا، ہمہ وقت ہر حال میں اس کی اطاعت کے لئے کمر بستہ رہنا، ایسے لوگ ہیں اللہ کے بندے اور جو اس لائق ہیں کہ انہیں بندہ کہا جائے کیونکہ اپنی حد تک یہ بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ورنہ جو برائے نام کا رحمن کا بندہ ہو اور کام اس کے شیطان کے ہوں تو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں آتا ہے: ’’اولئک کالانعام بل ھم اضل‘‘ یعنی باوجود یکہ ان کا خالق و مالک بھی اللہ ہی ہے لیکن ان کے اخلاق و اعمال عقائد و عبادات ایسے ہیں کہ یہ اس لائق نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے بلکہ یہ جانوروں سے بھی بدترہیں، جانور بھی اپنے مالک کے اتنے نافرمان نہیں ہوتے جتنا یہ شخص ہے، ان جانوروں میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن وہ اپنے مالک کے اتنے وفادار ہوتے ہیں کہ مالک کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں مگر یہ (بعض) انسان ہیںکہ جو اپنے مالک حقیقی اللہ جل شانہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی عملاً بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔
قرآن و سنت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی، جی چاہی زندگی گزار رہے ہیں ، حیات چند روزہ کو حیات جاوداں(آخرت)پر ترجیح دے رہے ہیں یہ لوگ اس بات کے مستحق ہی نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے اور’’عباد الرحمن‘‘کا تمغہ امتیاز ان کو دیا جائے۔ عبادالرحمن کی دوسری صف یہ ہے کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں،ا کڑاتے ہوئے تکبر کی ساتھ نہیں چلتے، ان کی چال میں مسکنت(عاجزی)اور وقار کی صفت نظر آرہی ہوتی ہے،عورتوں کی طرح بہت آہستہ آہستہ چلنا مراد نہیں کیونکہ یہ تو خلاف سنت ہے، آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ یعنی آپ ﷺ جب چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا بلندی سے اتر رہے ہیں اور زمین آپﷺ کے لئے سمیٹ دی گئی ہے۔ اس وجہ سے بتکلف (بلا ضرورت)مریضوںکی طرح آہستہ آہستہ چلنے کو علماء نے مکروہ لکھا ہے کہ اس ادا سے تکبر صاف دکھائی دے رہا ہوتاہے اور تکبر کرنا، بڑائی جتلانا بندہ کی شان نہیں ہے، ایسے اکڑ اکڑ کر، یا کسی بھی دوسرے طریقے پر متکبرانہ انداز میںچلنے سے قرآن کریم نے صاف لفظوں میں منع فرمایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یعنی زمین پر اتراتے ہوئے مت چل بے شک تو زمین کو پھاڑ بھی نہیں سکتا اور پہاڑ کی بلندی کو بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘ حضرت حسن بصری ؒنے اس آیت ’’یمشون علی الارض ھونا‘‘کی تفسیر میں فرمایا کہ مومنین مخلصین کے تمام اعضا و جوارح آنکھ، کان، ہاتھ ، پائوں سب اللہ کے سامنے ذلیل و عاجز ہوتے ہیں، ناواقف ان کو دیکھ کر معذور وعاجز سمجھتا ہے حالانکہ نہ وہ بیمار ہیں نہ وہ معذور بلکہ تندرست قوی ہیں مگر ان پر حق تعالیٰ کا خوف ایسا طاری ہے جو دوسروں پر نہیں ہے۔ ان کو دنیا کے دھندوں سے آخرت کی فکر نے روکا ہوا ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ نہیںکرتا اور اس کی ساری فکر دنیا ہی کے کاموں میں لگی رہتی ہے تو وہ ہمیشہ حسرت ہی حسرت میں رہتا ہے(کہ دنیا تو ساری ملتی نہیں اورآخرت میں اس نے حصہ نہیں لیا)اور جس شخص نے اللہ کی نعمت صرف کھانے پینے کی ہی چیزوں کو سمجھا اور اعلیٰ اخلاق کی طرف دھیان نہیں دیا، اس کا علم بہت تھوڑا ہے اور عذاب اس کے لئے تیار ہے۔(از ابن کثیر)
قرآن کریم میں اسی لفظ ’’ھونا‘‘کااستعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسکنت اور وقار کے ساتھ چلنا اور چلتے وقت پائوں اٹھا کر رکھنا، زمین پر گھسیٹتے ہوئے نہ چلنا آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپﷺ جب چلتے تو پائوں اٹھا اٹھا کر رکھتے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ بلندی سے اتر رہے ہوں اور سینہ تان کر چلنا یہ متکبرین کا کام ہے عباد الرحمن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تکبر اور خود نمائی سے بچتے ہیں اور اپنے گفتار و کردار، عادات اور اطوار اور چال چلن میں تکبر کی بو بھی محسوس نہیں ہونے دیتے،مسکنت اور عاجزی ان کی اک اک ادا سے ٹپک رہی ہوتی ہے اور یہ انسان کی چال ہی ہے جو اس کے ذہن، اور سیرت و کردار کی مکمل ترجمانی کرتی ہے ایک بدمعاش اور غنڈے آدمی کی چال ایک ظالم و جابر کی چال، ایک مہذب آدمی کی چال الگ الگ ہوتی ہے اور انسان کی چال چلن کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔ انسان کا یہ قدم ہی ہے جو اس کو خیر کی طرف بھی لے جاتا ہے اور شر کی طرف بھی، کامیابی کی طرف بھی ، ناکامی کی طرف بھی اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے اوائل ہی میں اس کا تذکرہ کیا،جن کا ہرقدم خیر کے ساتھ اٹھتا ہے اور خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، نہ تو کسی پر ظلم و جبر کرنے کے لئے اور نہ زمین میں فساد مچانے اور اپنی بڑائی جتلانے کے لئے۔خلاصہ اس صفت کا یہ ہوا کہ عباد الرحمن یعنی اللہ کے خاص اور مقرب بندے(بلاضرورت)نہ تو بہت آہستہ چلتے ہیں (عورتوں اور مریضوں کی طرح)اور نہ ہی بہت تیز بلکہ درمیانی رفتار سے چلتے ہیں اور چلتے وقت زمین پر پائوں گھسیٹتے ہوئے نہیں چلتے بلکہ قدم اٹھا اٹھا کر رکھتے ہیں، متکبرانہ انداز میں سینہ تان کر اوپر اٹھا کر نہیں چلتے بلکہ عاجزی اور مسکنت و وقار کے ساتھ سینہ اور نظریں جھکائے ہوئے چلتے ہیں اور ان کا کوئی قدم گناہ اور معاصی کے کام کی طرف نہیں اٹھتا بلکہ خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی ہی چال ہر مسلمان کو نصیب کردے۔ آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عباد الرحمن اللہ تعالی کی طرف بھی ہوتے ہیں چلتے ہیں ہیں اور اٹھا کر اللہ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے اور ہیں کہ کی چال کے لئے

پڑھیں:

دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان

لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے، اسکی بلیک میلنگ و جارحیت میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس امر کے باعث دشمن مزید طلبگار ہو گا اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے ساتھ وابستہ اتحاد "الوفاء للمقاومۃ" کے سربراہ محمد رعد نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ ہم اسلامی مزاحمت میں، اِس وقت مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور دشمن کی ایذا رسانی و خلاف ورزیوں کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر پائیدار ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے موقف و انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ اپنے اور اپنے وطن کے وقار کا دفاع کر سکیں۔ عرب ای مجلے العہد کے مطابق محمد رعد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں اور  خون تک کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور مزاحمت کے انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ دشمن؛ ہم سے ہتھیار ڈلوانے یا ہمیں اپنے معاندانہ منصوبے کے سامنے جھکانے کو آسان نہ سمجھے۔
  سربراہ الوفاء للمقاومہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی لبنان کے اندر سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو قابض دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور لبنان کی خودمختاری سے ہاتھ اٹھا لینے پر اُکسا رہی ہیں درحالیکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے! انہوں نے کہا کہ ان افراد نے انتہائی بے شرمی اور ذلت کے ساتھ ملک کو غیروں کی سرپرستی میں دے دیا ہے جبکہ یہ لوگ، خودمختاری کے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں۔ 

محمد رعد نے تاکید کی کہ انتخاباتی قوانین کے خلاف حملوں کا مقصد مزاحمت اور اس کے حامیوں کی نمائندگی کو کمزور بنانا ہے تاکہ ملک پر قبضہ کرنا مزید آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود، اسلامی مزاحمت اب بھی جنگ بندی پر پوری طرح سے کاربند ہے تاہم دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا، "لبنان پر حملے" کے بہانے کے لئے تشہیری مہم کا سبب ہے اور یہ اقدام، دشمن کی بلیک میلنگ اور جارحیت کو کسی صورت روک نہیں سکتا بلکہ یہ الٹا، اس کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا کہ وہ مزید آگے بڑھے اور بالآخر پورے وطن کو ہی ہم سے چھین لے جائے۔ محمد رعد نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے وہ کم از کم کام کہ جو ہمیں انجام دیا جانا چاہیئے؛ اس دشمن کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت اور اپنے حق خود مختاری کی پاسداری ہے!!

متعلقہ مضامین

  • تجدید وتجدّْ
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے نام کا اعلان اسلام آباد سے نہیں بلکہ کشمیر سے ہوگا، بلاول بھٹو