Daily Ausaf:
2025-05-04@01:39:38 GMT

اولیا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

انسان تو سب ہی اللہ کے بندے ہیں، اس کے پیدا کردہ ہیں لیکن کچھ انسان اللہ تعالیٰ کے خاص اور مقبول بندے ہوتے ہیں عرف عام میں جن کو اولیاء کہاجاتا ہے، یہ وہ بزرگ ہستیاں ہیں کہ توحید و رسالت پر ایمان کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اعمال و اخلاق اورعبادت سب اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے تابع اور احکام شرع کے مطابق ہوتے ہیں،قرآن کریم نے ایسے ہی خاص بندوں کو ’’عبادالرحمن‘‘کا لقب عطا فرمایا جو ان کا بہت بڑا اعزاز ہے۔سورہ الفرقان کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی کچھ صفات و علامات ذکر کی گئی ہیں کہ وہ خاص متعینہ لوگ نہیں بلکہ جو بھی ان صفات کو اپنائے گا، اپنا کردار، گفتار، اخلاق و اطوار، عبادات و معاملات وغیرہ ان صفات کے مطابق کرے گا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ان قریبی اور مقبول بندوں ’’عبادالرحمن‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کی بیان کردہ ’’عباد الرحمن‘‘کی وہ خاص صفات پڑھتے ہیں کہ جن کی بدولت ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔عباد الرحمن کی پہلی صفت ہے ’’عبودیت‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کا ہی بندہ بن کر رہنا، اپنے اعمال و اخلاق بلکہ اپنے وجود تک کو مالک حقیقی کا مملوک سمجھنا، ہر قول و فعل مالک کی مرضی کے مطابق کرنا، ہمہ وقت ہر حال میں اس کی اطاعت کے لئے کمر بستہ رہنا، ایسے لوگ ہیں اللہ کے بندے اور جو اس لائق ہیں کہ انہیں بندہ کہا جائے کیونکہ اپنی حد تک یہ بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ورنہ جو برائے نام کا رحمن کا بندہ ہو اور کام اس کے شیطان کے ہوں تو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں آتا ہے: ’’اولئک کالانعام بل ھم اضل‘‘ یعنی باوجود یکہ ان کا خالق و مالک بھی اللہ ہی ہے لیکن ان کے اخلاق و اعمال عقائد و عبادات ایسے ہیں کہ یہ اس لائق نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے بلکہ یہ جانوروں سے بھی بدترہیں، جانور بھی اپنے مالک کے اتنے نافرمان نہیں ہوتے جتنا یہ شخص ہے، ان جانوروں میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن وہ اپنے مالک کے اتنے وفادار ہوتے ہیں کہ مالک کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں مگر یہ (بعض) انسان ہیںکہ جو اپنے مالک حقیقی اللہ جل شانہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی عملاً بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔
قرآن و سنت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی، جی چاہی زندگی گزار رہے ہیں ، حیات چند روزہ کو حیات جاوداں(آخرت)پر ترجیح دے رہے ہیں یہ لوگ اس بات کے مستحق ہی نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے اور’’عباد الرحمن‘‘کا تمغہ امتیاز ان کو دیا جائے۔ عبادالرحمن کی دوسری صف یہ ہے کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں،ا کڑاتے ہوئے تکبر کی ساتھ نہیں چلتے، ان کی چال میں مسکنت(عاجزی)اور وقار کی صفت نظر آرہی ہوتی ہے،عورتوں کی طرح بہت آہستہ آہستہ چلنا مراد نہیں کیونکہ یہ تو خلاف سنت ہے، آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ یعنی آپ ﷺ جب چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا بلندی سے اتر رہے ہیں اور زمین آپﷺ کے لئے سمیٹ دی گئی ہے۔ اس وجہ سے بتکلف (بلا ضرورت)مریضوںکی طرح آہستہ آہستہ چلنے کو علماء نے مکروہ لکھا ہے کہ اس ادا سے تکبر صاف دکھائی دے رہا ہوتاہے اور تکبر کرنا، بڑائی جتلانا بندہ کی شان نہیں ہے، ایسے اکڑ اکڑ کر، یا کسی بھی دوسرے طریقے پر متکبرانہ انداز میںچلنے سے قرآن کریم نے صاف لفظوں میں منع فرمایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یعنی زمین پر اتراتے ہوئے مت چل بے شک تو زمین کو پھاڑ بھی نہیں سکتا اور پہاڑ کی بلندی کو بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘ حضرت حسن بصری ؒنے اس آیت ’’یمشون علی الارض ھونا‘‘کی تفسیر میں فرمایا کہ مومنین مخلصین کے تمام اعضا و جوارح آنکھ، کان، ہاتھ ، پائوں سب اللہ کے سامنے ذلیل و عاجز ہوتے ہیں، ناواقف ان کو دیکھ کر معذور وعاجز سمجھتا ہے حالانکہ نہ وہ بیمار ہیں نہ وہ معذور بلکہ تندرست قوی ہیں مگر ان پر حق تعالیٰ کا خوف ایسا طاری ہے جو دوسروں پر نہیں ہے۔ ان کو دنیا کے دھندوں سے آخرت کی فکر نے روکا ہوا ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ نہیںکرتا اور اس کی ساری فکر دنیا ہی کے کاموں میں لگی رہتی ہے تو وہ ہمیشہ حسرت ہی حسرت میں رہتا ہے(کہ دنیا تو ساری ملتی نہیں اورآخرت میں اس نے حصہ نہیں لیا)اور جس شخص نے اللہ کی نعمت صرف کھانے پینے کی ہی چیزوں کو سمجھا اور اعلیٰ اخلاق کی طرف دھیان نہیں دیا، اس کا علم بہت تھوڑا ہے اور عذاب اس کے لئے تیار ہے۔(از ابن کثیر)
قرآن کریم میں اسی لفظ ’’ھونا‘‘کااستعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسکنت اور وقار کے ساتھ چلنا اور چلتے وقت پائوں اٹھا کر رکھنا، زمین پر گھسیٹتے ہوئے نہ چلنا آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپﷺ جب چلتے تو پائوں اٹھا اٹھا کر رکھتے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ بلندی سے اتر رہے ہوں اور سینہ تان کر چلنا یہ متکبرین کا کام ہے عباد الرحمن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تکبر اور خود نمائی سے بچتے ہیں اور اپنے گفتار و کردار، عادات اور اطوار اور چال چلن میں تکبر کی بو بھی محسوس نہیں ہونے دیتے،مسکنت اور عاجزی ان کی اک اک ادا سے ٹپک رہی ہوتی ہے اور یہ انسان کی چال ہی ہے جو اس کے ذہن، اور سیرت و کردار کی مکمل ترجمانی کرتی ہے ایک بدمعاش اور غنڈے آدمی کی چال ایک ظالم و جابر کی چال، ایک مہذب آدمی کی چال الگ الگ ہوتی ہے اور انسان کی چال چلن کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔ انسان کا یہ قدم ہی ہے جو اس کو خیر کی طرف بھی لے جاتا ہے اور شر کی طرف بھی، کامیابی کی طرف بھی ، ناکامی کی طرف بھی اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے اوائل ہی میں اس کا تذکرہ کیا،جن کا ہرقدم خیر کے ساتھ اٹھتا ہے اور خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، نہ تو کسی پر ظلم و جبر کرنے کے لئے اور نہ زمین میں فساد مچانے اور اپنی بڑائی جتلانے کے لئے۔خلاصہ اس صفت کا یہ ہوا کہ عباد الرحمن یعنی اللہ کے خاص اور مقرب بندے(بلاضرورت)نہ تو بہت آہستہ چلتے ہیں (عورتوں اور مریضوں کی طرح)اور نہ ہی بہت تیز بلکہ درمیانی رفتار سے چلتے ہیں اور چلتے وقت زمین پر پائوں گھسیٹتے ہوئے نہیں چلتے بلکہ قدم اٹھا اٹھا کر رکھتے ہیں، متکبرانہ انداز میں سینہ تان کر اوپر اٹھا کر نہیں چلتے بلکہ عاجزی اور مسکنت و وقار کے ساتھ سینہ اور نظریں جھکائے ہوئے چلتے ہیں اور ان کا کوئی قدم گناہ اور معاصی کے کام کی طرف نہیں اٹھتا بلکہ خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی ہی چال ہر مسلمان کو نصیب کردے۔ آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عباد الرحمن اللہ تعالی کی طرف بھی ہوتے ہیں چلتے ہیں ہیں اور اٹھا کر اللہ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے اور ہیں کہ کی چال کے لئے

پڑھیں:

انصاف تو اللہ کا کام ہے، ہم جج تو دستاویز دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

انصاف تو اللہ کا کام ہے، ہم جج تو دستاویز دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل WhatsAppFacebookTwitter 0 1 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ ہمارے حلف کے الفاظ دیکھ کر ڈر لگتا ہے، انصاف اللہ کا کام ہے، ہم تو بس فیصلہ کرتے ہیں، جج قانون کے مطابق دستاویز دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں عالمی یوم مزدور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ آپ لوگوں نے سنا ہو گا جسٹس بولتے نہیں لکھتے ہیں، سوچا تھا لکھی ہوئی تقریر پڑھ لوں گا مگر اب دل کی اور آئین کی بات کروں گا، مجھے بھی تقریر کرنا مشکل لگ رہا ہے، یہ تقریب اہم ہے جس میں مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ صدیقی صاحب نے مشکل میں ڈال دیا کہ میں بالکل اچھا مقرر نہیں مگر بات کرنا ہو گی، آئین کے مطابق تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، آئین کے مطابق کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے، ہم نے قوم کے حقوق کے تحفظ کے لیے حلف لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی فیصلوں پر میں بات نہیں کر سکتا، ہمارا کلچر ہے کہ مل بیٹھ کر جرگے کی صورت میں بات کریں، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں جج ہوں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کام کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ صرف آپ کو مزدور اور مجھے جج کا نام دیا گیا ہے، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں اس عہدے پر بیٹھا ہوں۔سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ جو میرا حلف ہے کہیں میں اس کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا؟ کوئی فریق کہے گا کہ میرا حق ہے مگر میں تو وہی فیصلہ کروں گا جو میرے سامنے دستاویز ہیں، اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو حلف کی پابندی کرنے کی توفیق دے، مجھے جو اتنے پرتعیش دفاتر اور وسائل ملے ہیں وہ مزدور اور آپ کے توسط سے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ جب ہم آپس میں بیٹھیں گے تو یقین ہے کہ مسائل حل ہوں گے، کسی بھی ادارے کے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ یونین بنائے، یہی بہتر طریقہ ہے کہ مسائل بات چیت سے حل کیے جائیں، بہت سارے چھوٹے چھوٹے مسائل مل بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں، جس صوبے سے میرا تعلق ہے وہاں کان کنی کا کام ہے جو مزدور کرتے ہیں، جو کان کے اندر جاتے ہیں ان مزدوروں کے حوالے سے قوانین حکومت کو بنانے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں درج حقوق سب کو ملنے چاہئیں، کوئی مزدور کسی کا غلام نہیں ہوتا، آئین کے مطابق ہم فیصلہ کرتے اور اس کا تحفظ کرتے ہیں، آئین میں درج پوری قوم کے حقوق کے تحفظ کا ہم نے حلف لیا ہے، ہم نے جو بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ کسی کے دبا، خوف اور لالچ میں آئے بغیر کرنا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے اور ساتھی ججز کی جانب سے یقین دلاتا ہوں ہم انصاف اور حقوق کا تحفظ کریں گے، آئیں جو بھی مسئلہ ہے اس پر مل بیٹھیں، ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ میل جول نہ رکھیں، ہم جب کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے، معلوم نہیں صدیقی صاحب نے تعریف کی یا غیبت کہ میں صبح سویرے نہیں اٹھتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے، آپ مزدور ہیں اور میں جج، ہم دونوں کا کام ایک جیسا ہے، ہم تو بس فیصلہ کرتے ہیں، انصاف اللہ کی طرف ملتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کے ساتھ تصادم جوہری جنگ کا باعث بن سکتا ہے، بلاول بھٹو نے دنیا کو خبردار کردیا بھارت کے ساتھ تصادم جوہری جنگ کا باعث بن سکتا ہے، بلاول بھٹو نے دنیا کو خبردار کردیا بھارت کو اس بار فنٹاسٹک ٹی نہیں فنٹاسٹک مار ملے گی، عطا تارڑ امبانیوں کا سب سے پیارا کتا مر گیا، ملک میں سوگ کا سماں پہلگام حملے کی تحقیقات کی پٹیشن بھارتی سپریم کورٹ سے مسترد وزیراعظم سے چینی سفیر کی ملاقات، خطے کی صورتحال پر بات چیت پاکستان نے افغان ٹرکوں کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارت جانے کی اجازت دیدی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • شاہراہ قراقرم کو حقیقت بنانے والے چینی محنت کشوں کا خاموش قبرستان
  • واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی ولولہ انگیز تقریب، ’ہر پاکستانی خود کو سپاہی محسوس کرتا ہے‘
  • بھارت نے حملے کی کوشش کی تو فنٹانسٹک ٹی نہیں ، فنٹاسٹک مار ماریں گے، عطاء اللہ تارڑ
  • پاکستان پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ انکوائری کے لیے تیار ہیں. رانا ثنا اللہ
  • ہمیں کوئی خطرہ یا خوف نہیں، یقین ہے بھارت غلطی نہیں کرے گا، رانا ثنا اللہ
  • انصاف کرنا انسان کا نہیں، اللہ تعالیٰ کا کام ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • انصاف تو اللہ کا کام ہے، ہم جج تو دستاویز دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
  • انصاف تو اللہ کا کام ہے جج تو صرف دستاویز کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
  • معیار کو کامیابی کا زینہ بنانے والی سپر اسٹار یمنیٰ زیدی کی کہانی