Daily Ausaf:
2025-06-18@08:57:01 GMT

اولیا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

انسان تو سب ہی اللہ کے بندے ہیں، اس کے پیدا کردہ ہیں لیکن کچھ انسان اللہ تعالیٰ کے خاص اور مقبول بندے ہوتے ہیں عرف عام میں جن کو اولیاء کہاجاتا ہے، یہ وہ بزرگ ہستیاں ہیں کہ توحید و رسالت پر ایمان کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اعمال و اخلاق اورعبادت سب اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے تابع اور احکام شرع کے مطابق ہوتے ہیں،قرآن کریم نے ایسے ہی خاص بندوں کو ’’عبادالرحمن‘‘کا لقب عطا فرمایا جو ان کا بہت بڑا اعزاز ہے۔سورہ الفرقان کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی کچھ صفات و علامات ذکر کی گئی ہیں کہ وہ خاص متعینہ لوگ نہیں بلکہ جو بھی ان صفات کو اپنائے گا، اپنا کردار، گفتار، اخلاق و اطوار، عبادات و معاملات وغیرہ ان صفات کے مطابق کرے گا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ان قریبی اور مقبول بندوں ’’عبادالرحمن‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کی بیان کردہ ’’عباد الرحمن‘‘کی وہ خاص صفات پڑھتے ہیں کہ جن کی بدولت ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔عباد الرحمن کی پہلی صفت ہے ’’عبودیت‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کا ہی بندہ بن کر رہنا، اپنے اعمال و اخلاق بلکہ اپنے وجود تک کو مالک حقیقی کا مملوک سمجھنا، ہر قول و فعل مالک کی مرضی کے مطابق کرنا، ہمہ وقت ہر حال میں اس کی اطاعت کے لئے کمر بستہ رہنا، ایسے لوگ ہیں اللہ کے بندے اور جو اس لائق ہیں کہ انہیں بندہ کہا جائے کیونکہ اپنی حد تک یہ بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ورنہ جو برائے نام کا رحمن کا بندہ ہو اور کام اس کے شیطان کے ہوں تو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں آتا ہے: ’’اولئک کالانعام بل ھم اضل‘‘ یعنی باوجود یکہ ان کا خالق و مالک بھی اللہ ہی ہے لیکن ان کے اخلاق و اعمال عقائد و عبادات ایسے ہیں کہ یہ اس لائق نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے بلکہ یہ جانوروں سے بھی بدترہیں، جانور بھی اپنے مالک کے اتنے نافرمان نہیں ہوتے جتنا یہ شخص ہے، ان جانوروں میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن وہ اپنے مالک کے اتنے وفادار ہوتے ہیں کہ مالک کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں مگر یہ (بعض) انسان ہیںکہ جو اپنے مالک حقیقی اللہ جل شانہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی عملاً بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔
قرآن و سنت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی، جی چاہی زندگی گزار رہے ہیں ، حیات چند روزہ کو حیات جاوداں(آخرت)پر ترجیح دے رہے ہیں یہ لوگ اس بات کے مستحق ہی نہیں کہ ان کو اللہ کا بندہ کہا جائے اور’’عباد الرحمن‘‘کا تمغہ امتیاز ان کو دیا جائے۔ عبادالرحمن کی دوسری صف یہ ہے کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں،ا کڑاتے ہوئے تکبر کی ساتھ نہیں چلتے، ان کی چال میں مسکنت(عاجزی)اور وقار کی صفت نظر آرہی ہوتی ہے،عورتوں کی طرح بہت آہستہ آہستہ چلنا مراد نہیں کیونکہ یہ تو خلاف سنت ہے، آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ یعنی آپ ﷺ جب چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا بلندی سے اتر رہے ہیں اور زمین آپﷺ کے لئے سمیٹ دی گئی ہے۔ اس وجہ سے بتکلف (بلا ضرورت)مریضوںکی طرح آہستہ آہستہ چلنے کو علماء نے مکروہ لکھا ہے کہ اس ادا سے تکبر صاف دکھائی دے رہا ہوتاہے اور تکبر کرنا، بڑائی جتلانا بندہ کی شان نہیں ہے، ایسے اکڑ اکڑ کر، یا کسی بھی دوسرے طریقے پر متکبرانہ انداز میںچلنے سے قرآن کریم نے صاف لفظوں میں منع فرمایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یعنی زمین پر اتراتے ہوئے مت چل بے شک تو زمین کو پھاڑ بھی نہیں سکتا اور پہاڑ کی بلندی کو بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘ حضرت حسن بصری ؒنے اس آیت ’’یمشون علی الارض ھونا‘‘کی تفسیر میں فرمایا کہ مومنین مخلصین کے تمام اعضا و جوارح آنکھ، کان، ہاتھ ، پائوں سب اللہ کے سامنے ذلیل و عاجز ہوتے ہیں، ناواقف ان کو دیکھ کر معذور وعاجز سمجھتا ہے حالانکہ نہ وہ بیمار ہیں نہ وہ معذور بلکہ تندرست قوی ہیں مگر ان پر حق تعالیٰ کا خوف ایسا طاری ہے جو دوسروں پر نہیں ہے۔ ان کو دنیا کے دھندوں سے آخرت کی فکر نے روکا ہوا ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ نہیںکرتا اور اس کی ساری فکر دنیا ہی کے کاموں میں لگی رہتی ہے تو وہ ہمیشہ حسرت ہی حسرت میں رہتا ہے(کہ دنیا تو ساری ملتی نہیں اورآخرت میں اس نے حصہ نہیں لیا)اور جس شخص نے اللہ کی نعمت صرف کھانے پینے کی ہی چیزوں کو سمجھا اور اعلیٰ اخلاق کی طرف دھیان نہیں دیا، اس کا علم بہت تھوڑا ہے اور عذاب اس کے لئے تیار ہے۔(از ابن کثیر)
قرآن کریم میں اسی لفظ ’’ھونا‘‘کااستعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسکنت اور وقار کے ساتھ چلنا اور چلتے وقت پائوں اٹھا کر رکھنا، زمین پر گھسیٹتے ہوئے نہ چلنا آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپﷺ جب چلتے تو پائوں اٹھا اٹھا کر رکھتے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ بلندی سے اتر رہے ہوں اور سینہ تان کر چلنا یہ متکبرین کا کام ہے عباد الرحمن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تکبر اور خود نمائی سے بچتے ہیں اور اپنے گفتار و کردار، عادات اور اطوار اور چال چلن میں تکبر کی بو بھی محسوس نہیں ہونے دیتے،مسکنت اور عاجزی ان کی اک اک ادا سے ٹپک رہی ہوتی ہے اور یہ انسان کی چال ہی ہے جو اس کے ذہن، اور سیرت و کردار کی مکمل ترجمانی کرتی ہے ایک بدمعاش اور غنڈے آدمی کی چال ایک ظالم و جابر کی چال، ایک مہذب آدمی کی چال الگ الگ ہوتی ہے اور انسان کی چال چلن کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔ انسان کا یہ قدم ہی ہے جو اس کو خیر کی طرف بھی لے جاتا ہے اور شر کی طرف بھی، کامیابی کی طرف بھی ، ناکامی کی طرف بھی اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے اوائل ہی میں اس کا تذکرہ کیا،جن کا ہرقدم خیر کے ساتھ اٹھتا ہے اور خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، نہ تو کسی پر ظلم و جبر کرنے کے لئے اور نہ زمین میں فساد مچانے اور اپنی بڑائی جتلانے کے لئے۔خلاصہ اس صفت کا یہ ہوا کہ عباد الرحمن یعنی اللہ کے خاص اور مقرب بندے(بلاضرورت)نہ تو بہت آہستہ چلتے ہیں (عورتوں اور مریضوں کی طرح)اور نہ ہی بہت تیز بلکہ درمیانی رفتار سے چلتے ہیں اور چلتے وقت زمین پر پائوں گھسیٹتے ہوئے نہیں چلتے بلکہ قدم اٹھا اٹھا کر رکھتے ہیں، متکبرانہ انداز میں سینہ تان کر اوپر اٹھا کر نہیں چلتے بلکہ عاجزی اور مسکنت و وقار کے ساتھ سینہ اور نظریں جھکائے ہوئے چلتے ہیں اور ان کا کوئی قدم گناہ اور معاصی کے کام کی طرف نہیں اٹھتا بلکہ خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی ہی چال ہر مسلمان کو نصیب کردے۔ آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عباد الرحمن اللہ تعالی کی طرف بھی ہوتے ہیں چلتے ہیں ہیں اور اٹھا کر اللہ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے اور ہیں کہ کی چال کے لئے

پڑھیں:

ٹرمپ کا نیا اعلان: جنگ بندی نہیں بلکہ ’تنازع کا مکمل خاتمہ‘ چاہتے ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان محض جنگ بندی نہیں بلکہ ’’تنازع کا مکمل خاتمہ‘‘ چاہتے ہیں۔

ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ایران نے امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ بنایا تو امریکا سخت ردعمل دے گا۔

انہوں نے کہا’’اگر انہوں نے ہمارے لوگوں کو کچھ کہا، تو ہم انتہائی سخت حملہ کریں گے... پھر دستانے اُتر جائیں گے،‘‘ 

ٹرمپ نے کہا ’’مجھے لگتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہمارے فوجیوں کو چھونا ان کے لیے خطرناک ہوگا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں کہ آیا وہ جنگ بندی چاہتے ہیں، ٹرمپ کا کہنا تھا: ’’ہم صرف جنگ بندی نہیں، ایک حقیقی خاتمہ چاہتے ہیں... اگر ایران مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے تو وہ بھی قابلِ قبول ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ ممکنہ طور پر نائب صدر جے ڈی وینس اور مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو ایرانی حکام سے مذاکرات کے لیے بھیج سکتے ہیں۔

انہوں نے اس بات کو بھی دہرایا کہ ’’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

 

متعلقہ مضامین

  • تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ
  • عالمی بحران کے مقابل یکجہتی کی پکار اور اپیل
  • ٹرمپ کا نیا اعلان: جنگ بندی نہیں بلکہ ’تنازع کا مکمل خاتمہ‘ چاہتے ہیں
  • ایران اور اسرائیل کی جنگ۔۔۔ یقین کیجئے فتح حق کی ہی ہوگی
  • دیسی گھی کھا کے جی
  • عید الاضحی غریب مزدوروں کے لیے خوشیوں کی نوید
  • سیدناعثمان غنیؓ نے قرآن کریم کی نشر و اشاعت سے امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا
  • ہم سب قصور وار ہیں
  • قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ
  • پانی زندگی بچاتا ہے جو اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے،چیئرمین سی ڈی اے