پاکستانی باکسر شہیر آفریدی نے بھارتی حریف کو شکست دیدی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
پاکستانی باکسر شہیر آفریدی نے بھارتی حریف کو شکست دے دی۔
رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں ہونے والے پاک بھارت باکسنگ مقابلے میں پاکستانی باکسر نے بھارتی حریف کو شکست دے دی، شہیر آفریدی نے بھارتی باکسر ترجوت سنگھ باوا کوچوتھے راؤنڈ میں زیر کرکے فتح اپنے نام کر لی۔
تیسرے راؤنڈ میں ہی بھارتی باکسر ترجوت سنگھ باوا لڑکھڑا گئے تھے، چوتھے راؤنڈ میں ریفری نے بھارتی باکسر کی کی خراب حالت دیکھ کر مزید کھیل کو روک کر پاکستانی باکسر کو ٹیکنیکل ناک اؤٹ کی بنیاد پر فاتح قرار دے دیا۔
مڈل ویٹ کیٹیگری میں شہیر آفریدی کی یہ 18 ویں فائٹ تھی، اس کامیابی کے بعد سندھ پولیس سے تعلق رکھنے والے کمانڈو شہیر آفریدی دنیا کے 50 بہترین باکسر میں شامل ہوگئے۔
شہیر آفریدی نے اب تک 18 مقابلے لڑے، 16 میں کامیاب رہے ، ایک ہارے اور ایک برابر رہا جبکہ ان کے بھارتی حریف ترجوت سنگھ باوا پروفیشنل باکسنگ میں اب تک ناقابل شکست تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شہیر آفریدی کو بھارتی باکسر کو ہرانے پر مبارکباد دی اور ان کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے انعامات کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کو شہیر آفریدی پر فخر ہے،شہیر آفریدی نے بھارتی حریف کو ناک آؤٹ کرکے سندھ اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شہیر ا فریدی نے بھارتی نے بھارتی حریف کو پاکستانی باکسر بھارتی باکسر
پڑھیں:
حلیف سے حریف بننے کی وجہ
اسلام ٹائمز: یہ انتخاب واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ایک غیر ملکی رہنماء کس طرح کسی ملک کی قومی شناخت اور ملکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کارنی کو امریکہ پر انحصار کم کرنے کیلئے دوسرے ممالک کیساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھنے والے اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان انتخابات کے نتائج کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کی نافہمی اور سیاسی تکبر نے کینیڈا کو امریکی حلیف سے امریکی حریف بنا دیا ہے۔ ٹرمپ کے سو دنوں کا پہلا نتیجہ کینیڈا میں ٹرامپ مخالف موقف رکھنے والوں کی انتخابی جیت ہے۔ تحریر: مرتضیٰ مکی
کینیڈا کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے ٹرمپ کو اہم پیغام دے دیا ہے۔ مارک کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی کی جیت نہ صرف ملک کی سیاسی قیادت میں تبدیلی کی علامت ہے بلکہ کینیڈا-امریکہ تعلقات اور کینیڈینوں کی قومی شناخت کے حوالے سے ایک سنگین امتحان بھی ہے۔ یہ انتخابات سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے متاثر ہو کر کینیڈا کی آزادی اور علاقائی سالمیت پر ریفرنڈم بن کر سامنے آئے ہیں۔ اس الیکشن میں لبرل پارٹی کی جیت کینیڈا کے سیاسی ماحول میں ہونے والی گہری تبدیلیوں اور غیر ملکی خطرات کے خلاف عوامی ردعمل کی عکاسی کرتی ہے۔
انتخابات نے واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ ایک غیر ملکی رہنماء کی پالیسیاں دوسرے ملک میں انتخابات کے نتائج کو کس طرح متاثر کرسکتی ہیں، البتہ اس نے بیرونی دباؤ کے باوجود قومی تشخص کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کینیڈا کے پارلیمانی انتخابات غیر معمولی ماحول میں ہوئے، بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات نے انہیں متاثر کیا ہے۔ لبرل پارٹی ہاؤس آف کامنز میں 343 میں سے 169 سیٹیں جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ وہ وقت ہے، جب کنزرویٹو پارٹی، اہم حریف کے طور پر صرف 144 نشستیں جیت سکی۔ کینیڈا کو 55 ویں ریاست کے طور پر منوانے کے ٹرمپ کے تبصرے اور امریکہ پر کینیڈا کے معاشی انحصار کے امریکیوں کے دعوے نے کینیڈا کے قومی اتحاد کو مضبوط کرنے میں مدد دی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق جسٹن ٹروڈو کا استعفیٰ اور مارک کارنی کا لبرل پارٹی کا نیا سربراہ منتخب ہونا ایک نئی پیشرفت ہے۔ ٹرمپ کے تبصرے انتخابی راستے کو تبدیل کرنے اور کنزرویٹو پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے کے ایک عنصر کے طور پر سامنے آئے۔ البتہ نئی حکومت کی قومی اتحاد کو برقرار رکھنے اور تجارتی شراکت داروں کو متنوع بنانے کی صلاحیت کا امتحان ہے۔ کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی کی جیت نہ صرف کینیڈا کی ملکی سیاست میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ بیرونی خطرات اور سیاسی دباؤ پر عوامی ردعمل کی علامت بھی ہے۔
یہ انتخاب واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ایک غیر ملکی رہنماء کس طرح کسی ملک کی قومی شناخت اور ملکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں، کارنی کو امریکہ پر انحصار کم کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھنے والے اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان انتخابات کے نتائج کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کی نافہمی اور سیاسی تکبر نے کینیڈا کو امریکی حلیف سے امریکی حریف بنا دیا ہے۔ ٹرمپ کے سو دنوں کا پہلا نتیجہ کینیڈا میں ٹرامپ مخالف موقف رکھنے والوں کی انتخابی جیت ہے۔