آئی جی نے پولیس افسران و اہلکاروں کیلئے نئی سوشل میڈیا پالیسی جاری کردی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
افسران و اہلکار سرکاری سوشل میڈیا پر آگاہی و عوامی سروس کے متعلقہ پوسٹس اپلوڈ کرسکیں گے۔ کوئی بھی افسر و اہلکار اپنے پرائیویٹ اکاؤنٹ پر پولیس یونیفارم میں تصاویر اپلوڈ نہیں کرے گا۔ پولیس ملازمین کسی بھی حساس ادارے، مذہبی اور سیاسی حوالے سے تفصیلات سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کریں گے۔ کوئی بھی پوسٹ آئی جی یا اعلی رینک کے افسر کی اجازت کے بغیر اپلوڈ نہیں ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا استعمال کرنیوالے پولیس افسران و اہلکاروں کیلئے نئی مشکل کھڑی ہوگئی۔ اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاونٹ پر باوردی تصاویر لگانے پر پابندی عائدکر دی گئی۔ باوردی تصویر لگانے پر اب افسران و ملازمین کیخلاف مقدمات درج ہوں گے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئی پالیسی جاری کردی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایسا مواد جو محکمہ کے متعلق ہو، اور پرائیویٹ اکاؤنٹ پر شئیر کریں گے تو افسران واہلکاروں کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔ نئی پالیسی کے مطابق پولیس افسر واہلکار کوئی بھی محکمانہ پیپر ذاتی اکاونٹس پر شئیر نہیں کریں گے۔ افسران و اہلکار سرکاری سوشل میڈیا پر آگاہی و عوامی سروس کے متعلقہ پوسٹس اپلوڈ کرسکیں گے۔
کوئی بھی افسر و اہلکار اپنے پرائیویٹ اکاؤنٹ پر پولیس یونیفارم میں تصاویر اپلوڈ نہیں کرے گا۔ پولیس ملازمین کسی بھی حساس ادارے، مذہبی اور سیاسی حوالے سے تفصیلات سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کریں گے۔ کوئی بھی پوسٹ آئی جی یا اعلی رینک کے افسر کی اجازت کے بغیر اپلوڈ نہیں ہوگی۔ کسی بھی ملزم یا حساس کیسز کے مدعیوں کے انٹرویوز بھی نہیں کروائے جائیں گے۔ اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت زیادتی و بدفعلی کا شکار خواتین وبچوں کی شناخت میڈیا پر نشر نہیں کی جائے گی۔ کوئی بھی افسر یا اہلکار سوشل میڈیا پر ذاتی یا کاروباری پلیٹس فارمز کا حصہ نہیں ہونگے۔ پولیس افسران واہلکاروں کو سوشل میڈیا پر پہلے سے لگی باوردی تصاویر ہٹانے کا حکم بھی دیدیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے تفصیلی سوشل میڈیا پالیسی جاری کر دی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: افسران و اہلکار سوشل میڈیا پر پولیس افسر کوئی بھی حوالے سے کریں گے
پڑھیں:
مالی کے سابق وزیر اعظم پر سوشل میڈیا پوسٹ پر فرد جرم عائد
مالی میں فوجی حکومت نے سابق وزیرِ اعظم موسٰی مارا پر ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچانے، جائز اتھارٹی کی مخالفت کرنے اور عوامی نظم کو بگاڑنے کے الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کر دی گئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق وزیراعظم موسٰی مارا پر یہ الزامات کی بنیاد سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر کی گئی ایک پوسٹ ہے جو انھوں نے 4 جولائی کو کی تھی۔
موسیٰ مارا نے جولائی میں مالی کی جیلوں میں بند اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کے بعد اپنی پوسٹ میں ان قیدیوں کو "ضمیر کے قیدی" قرار دیتے ہوئے ان سے "غیر متزلزل یکجہتی" کا اظہار کیا تھا۔
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ جب تک رات باقی ہے، سورج ضرور طلوع ہوگا! اور ہم ہر ممکن ذریعے سے اس کے لیے لڑیں گے اور جتنی جلد ممکن ہو۔
مالی کے سائبر کرائم یونٹ نے اس پوسٹ کو حکومت کی اتھارٹی کے خلاف اقدام قرار دیا اور جمعرات کے روز مارا کو دوسری بار تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔
مالی کی سائبر کرائم یونٹ کے پراسیکیوٹر کے مطابق "ضمیر کے قیدیوں" جیسے الفاظ کا استعمال اور ان کے لیے لڑنے کی بات کرنا ریاست کے وقار اور اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
جمعہ کو موسیٰ مارا پر باضابطہ الزامات عائد کیے گئے اور ان کا مقدمہ 29 ستمبر کو سنا جائے گا۔
یاد رہے کہ مالی میں فوجی حکومت نے 2020 اور 2021 میں دو بار اقتدار پر قبضہ کیا۔
حالیہ مہینوں میں حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی خاص طور پر مئی میں ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد۔
موسٰی مارا جو تقریباً دس سال قبل نو ماہ کے لیے وزیر اعظم رہ چکے ہیں حالیہ دنوں میں فوجی حکومت کے سخت ناقد بن کر ابھرے ہیں۔
ایک ماہ قبل مالی کی عبوری پارلیمنٹ نے جنرل اسییمی گوئیٹا کو پانچ سالہ صدارتی مدت عطا کی جو بغیر انتخابات کے تجدید پذیر ہے۔
جنرل گوئیٹا نے 2021 میں اقتدار سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا کہ ایک سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے تاہم وہ وعدہ پورا نہیں ہوا جس سے جمہوریت کی بحالی کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا۔