امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی سوشل پلیٹ فارم ’ٹروتھ‘  پر اپنی ایک ایسی تصویر شیئر کردی جس سے نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ہی صحافیوں سے مذاق میں کہا تھا کہ وہ اگلا پوپ بننا چاہیں گے جس کے بعد اب یہ تصویر شیئر کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جو تصویر شیئر کی ہے اُس میں وہ پوپ کا روایتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔

تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پوپ کے لیے مخصوص لمبی ٹوپی بھی پہنی ہوئی ہے اور دائیں ہاتھ کی انگلی فضا میں اُٹھائے ہوئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے میں صلیب کا طلائی لاکٹ بھی لٹک رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دعائیہ تقریب کے لیے تیار ہوئے ہیں۔

یہ تصویر مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ہے اور ایک ایسے وقت شیئر کی گئی جب پوپ فرانسس کی تدفین کے بعد نئے پوپ کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس حرکت کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تصویر کسی کے مذہبی مقدسات کی توہین کے مترادف ہے۔

تاہم ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک صرف مذاق ہے جسے حس مزاح کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھنا چاہیے۔

واضح رہے کہ پوپ فرانسس 21 اپریل کو انتقال کر گئے تھے اور اب ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے کارڈینلز کا اجلاس جاری ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نے

پڑھیں:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی سے خود کو دور کیوں رکھ رہے ہیں؟

جمعہ 13 جون کی صبح جب اسرائیلی طیاروں نے ایران پر بمباری کی تو مشہور جریدے دی گارڈین نے لکھا کہ ’امریکا نے خود کو اس جنگ سے جلد علیحدہ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ اس اسرائیلی جارحیت سے مشرق وسطیٰ میں مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسرائیل کے اس یکطرفہ اقدام نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے شروع کیے گئے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اس سے قبل کہ دیر ہو جائے ایران کو کشیدگی کم کرنے پر بات کرنی چاہیے، ٹرمپ

امریکی وزیر خارجہ (سیکریٹری آف اسٹیٹ) مارکو روبیو نے اپنے بیان میں اسرائیلی جارحیت کو یکطرفہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ ایران کے خلاف اس حملے میں ہم ملوث نہیں ہیں اور ہمارا مقصد خطے میں صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

اس کے علاوہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ 13 جون سے کہہ رہا ہے کہ اگر ایران امریکی مفادات پر حملہ نہیں کرتا تو ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

لیکن اگروسیع تناظر میں ایران اسرائیل جھڑپوں میں صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کے غیر جانبداری کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو جو چیزیں سمجھ آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ امریکا اس جنگ میں مکمل طور پر غیر جانبدار تو نہیں بلکہ میزائل فراہم کرنے میں اسرائیل کا مددگار ہے اور دوسری طرف سفارتی اور باضابطہ طور پر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ سفارتی سطح پر اس جنگ کے حامی نظر نہیں آتے۔ جس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور سیاسی حکمت عملی کے  کلیدی نکات درج ذیل ہیں۔

ٹرمپ سفارتکاری کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں

مزید پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کا اسرائیلی منصوبہ مسترد کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مواد کی افزودگی کے لیے ایران کو نیوکلیئر ڈیل کی پیشکش کی اور اس کے لیے سفارتی مذاکرات پر زور دیا ہے، خاص طور پر عمان میں مذاکرات کے امکانات کو ترجیح دی۔

انہوں نے اسرائیل سے کہا کہ وہ ایران پر حملوں کو روکے تاکہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔

بی بی سی کی خبر کے مطابق امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے قتل کی تجویز کو مسترد کیا۔

اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے بیانات، جیسے کہ ’خونریز جنگ‘ کو ختم کرنے کے لیے معاہدے کی حمایت، ان کی اسرائیلی جارحیت سے انحراف کی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔

’سب سے پہلے امریکا‘ پالیسی

صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کو غیر ملکی جنگوں سے نکالیں گے اور مشرق وسطیٰ میں نئے تنازعات سے گریز کریں گے۔ ان کے حامی ایران اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف ہیں۔

سفارت کاری کی گنجائش رکھنا

صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے تعلقات ایران اور غزہ کے معاملات پر اختلافات کی وجہ سے زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن نیتن یاہو کی ایران پر فوجی کارروائی نے امریکی صدر کو مزید پریشانی میں مبتلا کیا۔ صدر ٹرمپ اس معاملے میں مذاکرات کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ اسرائیل کی محدود حد تک حمایت کرنا چاہتے ہیں

صدر ٹرمپ اسرائیل کے حامی تو ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ امریکا اس کی جنگ کا براہِ راست فریق بنے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت کی جنگ رکوائی، ایران و اسرائیل کے درمیان بھی جلد معاہدہ ہوگا : ڈونلڈ ٹرمپ

کونسل آن فارن ریلیشنز تھنک ٹینک کے ایلیٹ ایبرامز لکھتے ہیں کہ ’ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کے حملے سے آگاہی ظاہر کی، پھر خود کو الگ کر لیا، پھر تعریف بھی کی، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ وہ شریک دکھنا چاہتے ہیں، ملوث نہیں‘۔

 جغرافیائی اور تجارتی سیاسی حکمت عملی

صدر ٹرمپ تجارت بڑھانے پر زور دینے والے رہنما ہیں۔ وہ ایک علاقائی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی جنگ جو عالمی تیل منڈیوں کو متاثر کرے، تاہم صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات، جیسا کہ ایک طرف شمولیت سے انکار، دوسری طرف اسرائیل کی حمایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے حالیہ بحران بے حد پیچیدہ نوعیت کا حامل ہے جبکہ صدر ٹرمپ اپنی ’امن ساز‘ میراث کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران اسرائیل تنازع اور ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی ٹرمپ الگ تھلگ کیوں

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ اور مودی کا رابطہ، پاک بھارت تنازع پر تیسرے فریق کے معاملے پر گفتگو
  • مودی نے ٹرمپ سے کہا ہے بھارت پاکستان سے تنازع پر کبھی ثالثی قبول نہیں کریگا، وکرم مسری
  • پاک بھارت تنازع: مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی مسترد کردی، انڈیا کا دعویٰ
  • ٹرمپ ایران اسرائیل تنازع میں آگ پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں، چین
  • ٹرمپ کا نیا اعلان: جنگ بندی نہیں بلکہ ’تنازع کا مکمل خاتمہ‘ چاہتے ہیں
  • ٹرمپ کے تہران خالی کرنے کے مطالبے پر چین کا سخت ردعمل آگیا
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی سے خود کو دور کیوں رکھ رہے ہیں؟
  • اسرائیلی مظالم کے خلاف پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا تھا اور کھڑا رہے گا، نواز شریف
  • حسین میلہ لقمان خیل چیک پوسٹ پر طالبان کا حملہ
  • ایران اور اسرائیل کے درمیان جلد امن قائم ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ