Express News:
2025-11-11@16:29:15 GMT

استحصال کی کوکھ سے جنم لیتی ہوئی امید

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

یکم مئی کی صبح ہمیشہ ایک تلخ ماضی اور امید بھرے کل کے درمیان جھولتی نظر آتی ہے۔ جب سورج افق پر اُبھرتا ہے تو اُس کی کرنیں فقط ایک نئے دن کا آغاز نہیں کرتیں بلکہ شکاگو کی ان گلیوں میں بھی اُترتی ہیں جہاں 1886 میں مزدوروں کے حق میں نکلی ہوئی پرامن ریلی پرگولیاں برسائی گئی تھیں۔

ان شہداء کے خون سے جو چراغ روشن ہوئے وہ آج بھی دنیا بھر کے مزدوروں کے دلوں میں جل رہے ہیں۔ ان چراغوں کی روشنی میں ہم اپنے سچ کو پہچانتے ہیں، اپنی محرومیوں کو زبان دیتے ہیں اور اپنے خوابوں کو ایک نئی تعبیرکی طرف لے جانے کی تمنا کرتے ہیں۔


شکاگو کے مزدورکوئی اجنبی نہیں تھے وہ ہمارے اپنے تھے۔ وہ انسان تھے جن کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر محنت کے نشان تھے جن کی آنکھوں میں نیند سے زیادہ بھوک ٹھہری ہوئی تھی اور جن کے قدموں میں رکاوٹیں تھیں لیکن حوصلہ ان رکاوٹوں سے کہیں بلند تھا وہ جب سڑکوں پر نکلے تو ان کے پاس کوئی بندوق کوئی توپ کوئی سرمایہ دارانہ مکر نہ تھا۔

ان کے پاس صرف ایک نعرہ تھا آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام، آٹھ گھنٹے ذاتی زندگی کے لیے یہ مطالبہ صرف وقت کی تقسیم کا نہیں تھا یہ انسانی وقار، احترام اور حق کا اعلان تھا۔

مگر تاریخ نے دیکھا کہ ان مطالبات کا جواب گولیوں سے دیا گیا۔ پولیس نے جن مزدوروں پر فائرنگ کی ان کی لاشیں ہمیں آج بھی یہ یاد دلاتی ہیں کہ سرمایہ داری جب خطرے میں ہوتی ہے تو وہ انصاف اور امن کے نعروں کو سب سے پہلے کچلتی ہے۔

شکاگو کے ان شہداء کو صرف اس لیے مارا گیا کہ انھوں نے اپنے حق کی بات کی اور جب کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے تو وہ سماج کے ظالم طبقات کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔

آج جب ہم پاکستان میں یکم مئی مناتے ہیں تو ہمارے دل میں بھی ان شہداء کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ ہمارے ہاں مزدور تحریک کا وہ جلال وہ تنظیم وہ شعور نظر نہیں آتا جو ساٹھ اور سترکی دہائی میں ہوا کرتا تھا۔

وہ وقت یاد آتا ہے جب کراچی کی سڑکوں پر مزدوروں کے قافلے نکلتے تھے جب کارخانوں سے نعرے بلند ہوتے تھے جب ٹریڈ یونینز ایک طاقت ہوا کرتی تھیں جب مزدور تحریک کا نام لینا صرف نعرہ نہیں ایک نظریاتی وابستگی ہوا کرتی تھی۔ وہ وقت گزر گیا، یونینز ٹوٹ گئیں، قیادتیں بکھرگئیں اور خواب جیسے دھند میں لپٹے چلے گئے۔


لیکن میں آج بھی پُر امید ہوں بلکہ پُر یقین ہوں کہ مزدور تحریک ایک بار پھر سر اُٹھائے گی،کیونکہ اس سرزمین کے مزدوروں کی حالت اتنی دگرگوں ہو چکی ہے کہ خاموشی اب ممکن نہیں رہی۔ یہ بھوک یہ مہنگائی یہ معاہدہ شدہ مزدوری کا استحصال یہ ظالمانہ کنٹریکٹ سسٹم یہ جبری برطرفیاں یہ سب کچھ وہ زمینی حقائق ہیں جو نئی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ وہ چنگاریاں ہیں جوکسی بھی لمحے شعلہ بن سکتی ہیں اور جب شعلہ بھڑکے گا تو پھر وہ فقط مزدورکا نہیں، پورے سماج کا مقدر بدلے گا۔


یہ حقیقت ہے کہ آج کے مزدورکے پاس نہ تو کوئی بڑی ٹریڈ یونین ہے نہ وہ تحفظ ہے جو قانون اسے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی آواز جو ایوانوں میں ان کے دکھوں کا تذکرہ کرے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ ہمیشہ کمزوروں کے ہاتھوں ہی بدلی گئی ہے۔

شکاگو کے مزدور بھی طاقتور نہ تھے لیکن ان کی قربانی نے دنیا کو بدل دیا، اگر وہاں سے تبدیلی آسکتی ہے تو یہاں سے کیوں نہیں؟ پاکستان کے مزدور اگر آج اپنے حالات سے بیزار ہیں اگر ان کے بچے بھوکے ہیں اگر ان کے خواب روندے جا چکے ہیں تو پھر وہ کیوں خاموش رہیں گے؟ یہ سوال خود ایک تحریک کا آغاز ہے۔


ہم نے دیکھا ہے کہ جب مزدور جاگتے ہیں تو تاج لرزتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ جب ٹیکسٹائل ملوں کے محنت کش یکجا ہوئے تھے تو ان کے قدموں کی گونج نے حکمرانوں کو کانپنے پر مجبورکردیا تھا۔ آج شاید وہ گونج مدھم ہے لیکن مدھم گونجیں اکثر طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔

آج کے دن ہمیں صرف ماضی کو یاد نہیں کرنا بلکہ یہ عہد بھی کرنا ہے کہ ہم اپنے محنت کش بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہم ان کسانوں کے ساتھ بھی ہوں گے جو زمین پر اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں مگر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں کتاب نہیں فاقہ ہے۔

ہم ان گھریلو ملازماؤں کے ساتھ بھی ہوں گے جن کے لیے کوئی یونین نہیں، کوئی قانون نہیں، صرف استحصال ہے۔ ہم ان صنعتی کارکنوں کے ساتھ بھی ہوں گے جو فیکٹری کے دھوئیں میں اپنا سانس کھو بیٹھتے ہیں مگر ان کی تنخواہیں اتنی نہیں کہ مہینے کا خرچہ پورا کر سکیں۔

یہ یکم مئی صرف ایک دن نہیں ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہمیں اپنی زندگی بدلنی ہے تو ہمیں خاموش نہیں رہنا۔ ہمیں سوال اٹھانا ہے ہمیں صف بند ہونا ہے اور ہمیں اپنے حق کے لیے لڑنا ہے۔ یہ راستہ آسان نہیں اس میں آنسو بھی ہیں جبر بھی ہے اور شاید گولیاں بھی۔ لیکن یہی وہ راستہ ہے جو شکاگو کے مزدوروں نے چنا تھا اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ان سے جوڑتا ہے ان کا وارث بناتا ہے۔

آج جب دنیا مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل ترقی اور خودکار مشینوں کی بات کرتی ہے تو ہم یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان تمام ترقیوں کے پیچھے مزدور کا خون شامل ہے۔ مشین چلے یا ایپ بنے سڑک تعمیر ہو یا پل ہر ترقی کی بنیاد مزدور کا پسینہ ہے اور جب تک دنیا میں استحصال موجود ہے جب تک کچھ ہاتھ خالی ہیں اور کچھ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں تب تک مزدور تحریک زندہ رہے گی اور زندہ رہنی چاہیے۔

میرے دل میں یہ یقین اب بھی روشن ہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک ایک دن پھر اسی شان سے اُٹھے گی جس شان سے وہ ماضی میں اٹھی تھی،کیونکہ حالات خود چیخ چیخ کر مزدور کو جگا رہے ہیں۔ یہ چیخیں وہ خاموشیاں توڑ دیں گی جو برسوں سے طاری ہیں اور پھر وہ دن دور نہیں جب مزدور اپنے حق کا پرچم تھامے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھے گا ایسی دنیا جہاں استحصال نہیں مساوات ہو جہاں صرف خواب نہ ہوں بلکہ تعبیر بھی ہو۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مزدور تحریک کے مزدور ہیں اور کے ساتھ اپنے حق بھی ہو یہ بھی ہے اور نہیں ا کے لیے

پڑھیں:

APFUTUکے تحت پنجاب لیبر کانفرنس کا انعقاد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مزدور رہنما پیر زادہ امتیاز سید اور سائرہ امتیاز سید (سابق ممبر ضلع کونسل گجرات) کی برسی کے موقع پر آل پاکستان فیڈریشن آف یونائیٹڈ ٹریڈ یونینز APFUTU کے زیر اہتمام منعقدہ پنجاب لیبر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیشل ایڈوائزر انٹرنیشنل پارلیمنٹرین کانگریس میجر جنرل فدا حسین ملک نے کہا کہ پاکستان میں 9 کروڑ مزدور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، یہ مزدور ہی ہیں جن کی دن رات کی محنتوں نے پاکستان کو دنیا کے نقشے میں ایک الگ عزت بخشوائی، کسان کی بدولت زرعی اجناس، مزدور وں کی بدولت سرامکس، ٹیکسٹائل، لیدر، گارمنٹس، فین، فرنیچرز، کارپٹ، فٹ بال، سپورٹس ایسیسریز، جراحی آلات سمیت پاکستان پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد اور اونچی پہچان رکھتا ہے جسکا تمام کریڈٹ پاکستان کے مزدوروں کو ہی جاتا ہے جو کہ عالمی معیار کے عین مطابق مصنوعات بنا رہے ہیں جبکہ بلڈنگ سیکٹر میں بھٹہ خشت مزدور کا بھی اہم کردار ہے جس کی بدولت پاکستان میں بلند و بالا عمارات کی تعمیرات کے شاہکار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جو بنیادی کام مزدور کرتا ہے ملت کے تمام افراد کے لیے روزی روٹی کا جو بنیادی ذریعہ ہے وہ مزدور کے ہاتھ ہے اور اگر کوئی شخص یا ادارہ مزدور یا مزدور یونینز کی قدر نہیں کرے گا تو وہ انسانیت کی قدر نہیں کرے گا۔ پاکستان کے تمام مزدوروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ کویت کے میکینکل انجینئر مسٹر عبدالعزیز العظیمی دوست کو پاکستان آمد پر شکریہ ادا کرتا ہوں جو آج اِس تقریب میں کویت اور اسلامی ممالک کی مزدور تنظیموں کی نمائندہ تنظیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پنجاب لیبر کانفرنس میں شرکت کر کے انتہائی خوشی ہوئی ہے کیونکہ آج کے دور میں محنت کش مزدور طبقہ کے حقوق کی بات کرنا کلمہ حق کہنے کے مترادف ہے تقریب میں آکر پتہ چلا کہ پیرزادہ امتیاز سید اور سائرہ امتیاز سید کی انتھک محنت اور کوشش سے بانڈڈ لیبر ایکٹ 1992ء اور چائلڈ اینڈ بانڈڈ لیبر ایکٹ 2016ء اور 2018ء بنائے گئے، جبکہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے بھی ان کی گرانقدر خدمات ہیں، گجرات جیسے صنعتی شہر سے مزدور جدوجہد کا آغاز ہونا اور عالمی سطح تک اس کو متعارف کروانا کسی عجوبے سے کم نہ تھا، کیونکہ ہمارے ملک میں غریبوں اور مزدوروں کی آواز بلند کرنا ایک انتہائی مشکل اور کٹھن کام ہے۔ میجر جنرل فدا حسین ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے پاکستان اور انڈیا معرض وجود میں آیا ہے تب سے ایک تاثر تھا کہ ہم اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے، نہ اتنی بڑی تعداد میں فوج ہمارے پاس موجود ہے نہ ہی زیادہ ہتھیار موجود ہیں لیکن اس سال مئی میں افواجِ پاکستان نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو کیسے شکست دی جاتی ہے اور کیسے اْس کو گھٹنوں پر لایا جاتا ہے، یہ بات ہمارے نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ جس طریقے سے آپ افواج پاکستان کے پیچھے کھڑے ہیں اور جس طرح ہماری ماؤں، بہنوں اور بزرگوں کی دعائیں موجود تھیں یہ سب اس کا اثر تھا کہ افواج پاکستان نے بڑے دشمن کو مات دے کر بڑی کامیابی حاصل کی۔ آپ کو یہ بھی پتہ ہو گا کہ افواجِ پاکستان نے ایک بہت بڑی ذمہ داری اپنے سر لی، سعودی عرب کی مقدس دھرتی کی حفاظت کا ذمہ بھی اپنے کندھوں پر لیا، پاک سعودی دفاعی معاہدہ کیا گیا جس کے بعد اب قطر،بحرین، کویت، عمان، بھی جلد پاکستان سے دفاعی معاہدہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان اور افواجِ پاکستان کا جو مرتبہ اْمت مسلمہ کے سامنے ہے انشاء اللہ وہ مزید بلند ہو گا، مزید انہوں نے کہا کہ میں جلد ہی آل پاکستان فیڈریشن آف یونائیٹڈ ٹریڈ یونینز کے عہدیداران سے تفصیلی ملاقات کروں گا اور مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے حکومت اور پارلیمنٹرینز تک آواز پہنچاؤں گا۔ مزدور اگر خوشحال ہو گا تو ہی پاکستان ترقی کی حقیقی سیڑھیاں چڑھ سکے گا۔ انٹرنیشنل پارلیمنٹرین کانگریس کے پلیٹ فارم پر بھی اب ہمیں مزدور کی بات کرنے کے لیے موقع ملے گا، مجھے خوش ہو گی کہ میں پاکستان کے غریبوں اور مزدوروں کے لیے اگر خدمات سرانجام دے سکوں، میری کوشش ہو گی کہ مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاؤں تاکہ پاکستان کا غریب اور مزدور طبقہ بھی خوشحال ہو سکے، اور خوشحالی تب ہی ممکن ہے جب ان کے لیے بنائے گئے قوانین پر متعلقہ ادارے عملدرآمد کو بھی یقینی بنائیں، میرے دروازے اہلیان گجرات ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے غریبوں اور مزدوروں کے لیے کھلے ہیں۔ تقریب سے آل پاکستان فیڈریشن آف یونائیٹڈ ٹریڈ یونینز کی صدر کامریڈ ثمینہ عرفان، جنرل سیکرٹری ضیاء سید، سید فرخ عباس، حماد سید، عدنان امتیاز شاہین سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔
تقریب کے شرکاء
تقریب میں آنے والے شرکاء کا سید فرخ عباس، ضیاء سید، حماد شاہ، سید ساجد حسین شاہ، ذوالفقار علی باجوہ، محمد نوید شیخ، سکندر علی بٹ، کامریڈ ثمینہ عرفان، شاہد چوہدری و دیگر نے پرتپاک استقبال کیا۔ تقریب میں اسپیشل ایڈوائزر انٹرنیشنل پارلیمنٹیرین کانگرس میجر جنرل فدا حسین ملک، عبدالعزیز السعود العظیمی آف کویت، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی ممبر پنجاب اسمبلی عمانوئیل اطہر جولیس، ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن چوہدری ضیاء اللہ سوہی، نوجوان کاروباری شخصیت سیٹھ یاسر لطیف صراف، سماجی شخصیت ملک امجد حسین اعوان، ورلڈ سلور میڈل باکسنگ لیاقت علی لکی بٹ، ممتاز بزنس مین کلیم اللہ گیلانی (لبرٹی گجرات)، معروف بزنس مین چوہدری سہیل تارڑ، براؤن میڈل پاکستان عمر شفقات، مصنف و کالم نگار حمید اللہ بھٹی، مصنف و کالم نگار سکندر ریاض چوہان، رائے فصیح اللہ جرال ایڈووکیٹ، پروفیسر عبدالوکیل ملک، ناصر عباس کھوکھر ایڈووکیٹ، ممتاز بزنس مین چوہدری ابوبکر وڑائچ، ممتاز بزنس مین واجد حسین، میاں صابر حسین، سابق فنانس سیکرٹری گجرات بار ایسوسی ایشن مس مریم غضنفر ایڈووکیٹ، زمان بٹ (فرانس)، جاسمین چیمہ (ترکی)، ہما جبین، افضل بٹ (پاکستان واپڈا لیبر یونین)، ضیاء بٹ (پاکستان واپڈا لیبر یونین)،مظہر اقبال تارڑ، چوہدری افتخار احمد تارڑ، ڈاکٹر ظفر اقبال جاذب، سید زین شاہ (سید آرکیٹیکٹ)، سید کمیل شاہ (نیکسٹ جین کنسلٹنٹ)، امیدوار برائے ایم پی اے حلقہ پی پی 30 جلالپور جٹاں چوہدری عظمت اللہ وڑائچ آف شادیوال خورد، اعظم انصاری، شبیر حسین، سید شمس حیدر، سید مسلم شاہ، عبدالغفار چوہدری، خرم پرنس، سید فصیح الحسن شاہ، تجمل منیر، شہزاد احمد، سید شاہزیب، مطیع الرحمن، عدنان بٹ سوک کلاں، رافع اعظم، معاذ اعظم، مرزا علی بیگ، اشرف مسیح سیکرٹری، عدنان امتیاز شاہین، مقرب ضرار چٹھہ، محمد سرور، مظہر حسین، مس ماہ جبین، محمد اسرائیل ایڈووکیٹ، عائشہ نور، اختر حسین پنن وال، فیاض احمد، طارق محمود، فیاض احمد علوانہ، اسلم مانگٹ، ڈاکٹر میاں شوکت آف بانسریاں، راجہ اللہ دتہ، مِس اِرم، اصغر جوئیہ، بلال ایڈووکیٹ، راجہ نزاکت، سمیت پنجاب بھر سے مختلف لیبر یونینز کے عہدیداروں نے شرکت کی اور پیر زادہ امتیاز سید، سائرہ امتیاز سید کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر شرکاء کے لیے ظہرانہ کا اہتمام بھی کیا گیا۔

ویب ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • نیشنل لیبر فیڈریشن کے تحت حلف برداری کی تقاریب
  • APFUTUکے تحت پنجاب لیبر کانفرنس کا انعقاد
  • بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
  • حکومتِ سندھ کی جانب سے ای چالان اور مزدور
  • غربت میں کمی اور حقیقی غربت
  • امید ہے بابر اعظم آنے والی سیریز میں رنز کریں گے: ہیڈ کوچ قومی ٹیم
  • بابراعظم آؤٹ آف فارم نہیں، امید ہے آنے والی سیریز میں رنز کریں گے: ہیڈ کوچ قومی ٹیم
  • ہمیں اقبالؒ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور امن کے لیے کوشاں رہنا ہوگا: وزیر داخلہ محسن نقوی  
  • ہوائے نفس اور اس کے خطرات
  • ایم کیو ایم کی ترمیم پر بات نہیں ہوئی: نوید قمر