استحصال کی کوکھ سے جنم لیتی ہوئی امید
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
یکم مئی کی صبح ہمیشہ ایک تلخ ماضی اور امید بھرے کل کے درمیان جھولتی نظر آتی ہے۔ جب سورج افق پر اُبھرتا ہے تو اُس کی کرنیں فقط ایک نئے دن کا آغاز نہیں کرتیں بلکہ شکاگو کی ان گلیوں میں بھی اُترتی ہیں جہاں 1886 میں مزدوروں کے حق میں نکلی ہوئی پرامن ریلی پرگولیاں برسائی گئی تھیں۔
ان شہداء کے خون سے جو چراغ روشن ہوئے وہ آج بھی دنیا بھر کے مزدوروں کے دلوں میں جل رہے ہیں۔ ان چراغوں کی روشنی میں ہم اپنے سچ کو پہچانتے ہیں، اپنی محرومیوں کو زبان دیتے ہیں اور اپنے خوابوں کو ایک نئی تعبیرکی طرف لے جانے کی تمنا کرتے ہیں۔
شکاگو کے مزدورکوئی اجنبی نہیں تھے وہ ہمارے اپنے تھے۔ وہ انسان تھے جن کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر محنت کے نشان تھے جن کی آنکھوں میں نیند سے زیادہ بھوک ٹھہری ہوئی تھی اور جن کے قدموں میں رکاوٹیں تھیں لیکن حوصلہ ان رکاوٹوں سے کہیں بلند تھا وہ جب سڑکوں پر نکلے تو ان کے پاس کوئی بندوق کوئی توپ کوئی سرمایہ دارانہ مکر نہ تھا۔
ان کے پاس صرف ایک نعرہ تھا آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام، آٹھ گھنٹے ذاتی زندگی کے لیے یہ مطالبہ صرف وقت کی تقسیم کا نہیں تھا یہ انسانی وقار، احترام اور حق کا اعلان تھا۔
مگر تاریخ نے دیکھا کہ ان مطالبات کا جواب گولیوں سے دیا گیا۔ پولیس نے جن مزدوروں پر فائرنگ کی ان کی لاشیں ہمیں آج بھی یہ یاد دلاتی ہیں کہ سرمایہ داری جب خطرے میں ہوتی ہے تو وہ انصاف اور امن کے نعروں کو سب سے پہلے کچلتی ہے۔
شکاگو کے ان شہداء کو صرف اس لیے مارا گیا کہ انھوں نے اپنے حق کی بات کی اور جب کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے تو وہ سماج کے ظالم طبقات کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔
آج جب ہم پاکستان میں یکم مئی مناتے ہیں تو ہمارے دل میں بھی ان شہداء کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ ہمارے ہاں مزدور تحریک کا وہ جلال وہ تنظیم وہ شعور نظر نہیں آتا جو ساٹھ اور سترکی دہائی میں ہوا کرتا تھا۔
وہ وقت یاد آتا ہے جب کراچی کی سڑکوں پر مزدوروں کے قافلے نکلتے تھے جب کارخانوں سے نعرے بلند ہوتے تھے جب ٹریڈ یونینز ایک طاقت ہوا کرتی تھیں جب مزدور تحریک کا نام لینا صرف نعرہ نہیں ایک نظریاتی وابستگی ہوا کرتی تھی۔ وہ وقت گزر گیا، یونینز ٹوٹ گئیں، قیادتیں بکھرگئیں اور خواب جیسے دھند میں لپٹے چلے گئے۔
لیکن میں آج بھی پُر امید ہوں بلکہ پُر یقین ہوں کہ مزدور تحریک ایک بار پھر سر اُٹھائے گی،کیونکہ اس سرزمین کے مزدوروں کی حالت اتنی دگرگوں ہو چکی ہے کہ خاموشی اب ممکن نہیں رہی۔ یہ بھوک یہ مہنگائی یہ معاہدہ شدہ مزدوری کا استحصال یہ ظالمانہ کنٹریکٹ سسٹم یہ جبری برطرفیاں یہ سب کچھ وہ زمینی حقائق ہیں جو نئی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ وہ چنگاریاں ہیں جوکسی بھی لمحے شعلہ بن سکتی ہیں اور جب شعلہ بھڑکے گا تو پھر وہ فقط مزدورکا نہیں، پورے سماج کا مقدر بدلے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کے مزدورکے پاس نہ تو کوئی بڑی ٹریڈ یونین ہے نہ وہ تحفظ ہے جو قانون اسے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی آواز جو ایوانوں میں ان کے دکھوں کا تذکرہ کرے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ ہمیشہ کمزوروں کے ہاتھوں ہی بدلی گئی ہے۔
شکاگو کے مزدور بھی طاقتور نہ تھے لیکن ان کی قربانی نے دنیا کو بدل دیا، اگر وہاں سے تبدیلی آسکتی ہے تو یہاں سے کیوں نہیں؟ پاکستان کے مزدور اگر آج اپنے حالات سے بیزار ہیں اگر ان کے بچے بھوکے ہیں اگر ان کے خواب روندے جا چکے ہیں تو پھر وہ کیوں خاموش رہیں گے؟ یہ سوال خود ایک تحریک کا آغاز ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ جب مزدور جاگتے ہیں تو تاج لرزتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ جب ٹیکسٹائل ملوں کے محنت کش یکجا ہوئے تھے تو ان کے قدموں کی گونج نے حکمرانوں کو کانپنے پر مجبورکردیا تھا۔ آج شاید وہ گونج مدھم ہے لیکن مدھم گونجیں اکثر طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔
آج کے دن ہمیں صرف ماضی کو یاد نہیں کرنا بلکہ یہ عہد بھی کرنا ہے کہ ہم اپنے محنت کش بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہم ان کسانوں کے ساتھ بھی ہوں گے جو زمین پر اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں مگر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں کتاب نہیں فاقہ ہے۔
ہم ان گھریلو ملازماؤں کے ساتھ بھی ہوں گے جن کے لیے کوئی یونین نہیں، کوئی قانون نہیں، صرف استحصال ہے۔ ہم ان صنعتی کارکنوں کے ساتھ بھی ہوں گے جو فیکٹری کے دھوئیں میں اپنا سانس کھو بیٹھتے ہیں مگر ان کی تنخواہیں اتنی نہیں کہ مہینے کا خرچہ پورا کر سکیں۔
یہ یکم مئی صرف ایک دن نہیں ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہمیں اپنی زندگی بدلنی ہے تو ہمیں خاموش نہیں رہنا۔ ہمیں سوال اٹھانا ہے ہمیں صف بند ہونا ہے اور ہمیں اپنے حق کے لیے لڑنا ہے۔ یہ راستہ آسان نہیں اس میں آنسو بھی ہیں جبر بھی ہے اور شاید گولیاں بھی۔ لیکن یہی وہ راستہ ہے جو شکاگو کے مزدوروں نے چنا تھا اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ان سے جوڑتا ہے ان کا وارث بناتا ہے۔
آج جب دنیا مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل ترقی اور خودکار مشینوں کی بات کرتی ہے تو ہم یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان تمام ترقیوں کے پیچھے مزدور کا خون شامل ہے۔ مشین چلے یا ایپ بنے سڑک تعمیر ہو یا پل ہر ترقی کی بنیاد مزدور کا پسینہ ہے اور جب تک دنیا میں استحصال موجود ہے جب تک کچھ ہاتھ خالی ہیں اور کچھ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں تب تک مزدور تحریک زندہ رہے گی اور زندہ رہنی چاہیے۔
میرے دل میں یہ یقین اب بھی روشن ہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک ایک دن پھر اسی شان سے اُٹھے گی جس شان سے وہ ماضی میں اٹھی تھی،کیونکہ حالات خود چیخ چیخ کر مزدور کو جگا رہے ہیں۔ یہ چیخیں وہ خاموشیاں توڑ دیں گی جو برسوں سے طاری ہیں اور پھر وہ دن دور نہیں جب مزدور اپنے حق کا پرچم تھامے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھے گا ایسی دنیا جہاں استحصال نہیں مساوات ہو جہاں صرف خواب نہ ہوں بلکہ تعبیر بھی ہو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مزدور تحریک کے مزدور ہیں اور کے ساتھ اپنے حق بھی ہو یہ بھی ہے اور نہیں ا کے لیے
پڑھیں:
ہمیں معاف رکھیں !!
’’نو سال قبل میں اس وقت بیوہ ہوئی تھی جب میرے پاس چار بچے تھے، میری اپنی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی، میرے شوہر دفتر جاتے ہوئے کسی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہو گئے اور مجھ پرگویا آسمان آن گرا۔ میرے بچوں کی عمریں بالترتیب دس، آٹھ ، چھ اور چار برس کی تھیں، دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ کوئی جمع پونجی تھی نہ کوئی بچت اور نہ ہی سرچھپانے کو اپنی کوئی چھت۔
میرے میکے اور سسرال میں بھی مشکلات کے انبار تھے، کسی کی طرف سے بھی مدد کی توقع عبث تھی۔ رشتہ دار بھی چار دن ہمدردی دکھا کر غائب ہو گئے۔کوئی کہتا کہ بیت المال سے زکوۃ فنڈ سے اپنے لیے ماہانہ وظیفہ لگوا لیں ۔ میری عدت تمام ہوئی، میرے زیورات اس دوران گھر چلانے،کرایہ دینے اور بچوں کی اسکول کی فیس دینے میں اٹھ گئے۔ میرے بچے ایک عام سے نجی اسکول میں پڑھتے تھے مگر وہاں بھی فیس میرے حساب سے اور میرے حالات سے زیادہ تھی۔
کچھ متمول لوگوں سے اور کچھ اور جاننے والوں سے درخواست کی کہ وہ اپنی اس سال کی زکوۃ میں سے میری مدد کردیں۔ تھوڑی رقم جمع ہوئی تو میں نے انتہائی چھوٹے پیمانے پر کھانا پکانے کا کام شروع کیا۔ سینہ بہ سینہ میں نے پبلسٹی کی۔ محلے میں اور جاننے والوں میں جب کسی کے ہاں کوئی تقریب ہوتی تو میں ان کے گھر جا کر ان کی پارٹی کا کھانا پکا دیتی، معمول میں، میں نے چھوٹے پیمانے پر اسکولوں کی کنٹین پر اوردفاتر میںلنچ باکس سپلائی کرنا شروع کیے۔ میں راتوں کو تنہا رو رو کر اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتی تھی کہ اللہ تعالی میرے لیے آسانیاں کرے۔
چند سال کا عرصہ گزرنے پر بچے کسی نہ کسی طرح کام میں میری مدد کرنے لگے، اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی اتنا بھی حاصل نہیں ہوتا تھا کہ گھر میں رزق کی فراوانی ہوتی۔ ہر ماہ باقاعدگی سے گھر کا کرایہ دیا جا سکتا یا بچوں کی ساری ضروریات پوری کی جاسکتیں۔
کچھ متمول جاننے والے اس کے بعد بھی اپنی زکوۃ سے میری مدد کر دیا کرتے تھے۔ کام ذرا بڑھ گیا تو رقوم کی وصولی کے لیے میں نے بینک میں اکاؤنٹ کھلوا لیا، اسی میں لوگوں کی ادائیگیاں بھی آتیں اور جو لوگ اب تک زکوۃ دیتے ہیں، وہ بھی مجھے اسی اکاؤنٹ میں بھجواتے ہیں۔
بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا کون سا آسان کام ہے، آپ کو اپنا ذریعہ آمدنی بتانا پڑتا ہے، میںنے بھی کچھ تو لکھنا تھا تو لکھ دیا کہ کیٹرنگ کا کاروبار ہے۔ کاروبار کیسا ہے… آمدن کتنی ہے اور کیسے سر ڈھانپو تو پاؤں اور پاؤں ڈھانپو تو سر کھلتا ہے ۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا جب تک کہ مجھے ایک خط نہیں آیا کہ آپ اپنے کاروبار کی تمام تحریری تفصیلات اور اپنے ٹیکس کے گوشوارے جمع کروائیں۔ مجھے کیا علم کہ یہ ٹیکس کے گوشوارے کیا بلا ہے اور میرے کاروبار کی کیا تفصیلات ہیں جو میں تحریری طور پر پیش کروں ۔ کوئی فون کر کے کہہ دیتا ہے، ایک مرغی کی کڑاہی اور چنوں والے چاول بنا دیں، میں بنا کر اپنا خرچہ نکال کر اس پر اپنا ذرا سا منافع لگاتی ہوں، اتنا ہی کہ جتنا کوئی عورت اس کڑاکے کی گرمی میں کام کے بدلے مطالبہ کر سکتی ہے۔
رائیڈر بلا کر میں کھانا پیک کر کے بھجواتی ہوں، رائیڈر کو بھی پیسے ادا کرتی ہوں اور میرا عوضانہ میرے اکاؤنٹ میں آجاتا ہے۔ جو آتا ہے، اسی روز خرچ ہو جاتا ہے۔ سودا سلف بھی لانا ہوتا ہے اور بچوں کے اخراجات کے ساتھ کرایہ، پانی، گیس اور بجلی کے بل بھے ادا کرتی ہوں ۔ اس کے بعد کیا اکاؤنٹ اور کاروبار کی تفصیلات اور کیا ٹیکس کا گوشوارہ؟؟
’’ ہمیں بتائیں کہ جن حالات میں، میںاور میرے بچے بے آسرا ہوئے تھے، ان حالات میں کون تھا جس نے ہماری بے مانگے مدد کی ہو۔ حکومت نے میرے لیے کیا کیا جو اب میں انھیں ٹیکس دوں؟ کیا کما لیا میں نے، کیا شراکت داری کی کسی حکومت یا کسی حکومتی ادارے نے کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی۔ عام کھانا پکانا ہی واحد ہنر تھا جو کہ میرے ہاتھ میں تھا۔
حکومت کو چاہیے کہ ہم جو چھوٹے چھوٹے اپنی مدد آپ کے تحت کاروبار چلا رہے ہیں جن کے منافع سے ہم بیرون ممالک جائیدادیں خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا معیار زندگی غربت کی سطح سے اوپر آنے والا ہے… کم از کم ہمیںمعاف رکھیں ۔‘‘ یہ کہانی کسی ایک غریب عورت کی نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر اس عام آدمی کی ہے جو کہ محنت اور مشقت کر کے بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ، بلکہ زندگی اسے گزار رہی ہے۔