پاک بھارت کشیدگی: آزاد کشمیر میں ممکنہ جنگی حالات سے نمٹنے کی تیاریاں جاری
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
پاک بھارت کشیدگی کے پیش نظر آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سمیت کنٹرول لائن کے علاقوں میں محکمہ شہری دفاع نے اسکولوں میں بچوں کو شہری دفاع کی تربیت دینی شروع کر دی۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: ہندوستان نے بغیر اطلاع دریائے جہلم میں پانی چھوڑ دیا، مظفرآباد میں ایمرجنسی نافذ
شہری دفاع کےزیر اہتمام اسکولوں میں جنگی حالات میں فرسٹ ایڈ اور سول ڈیفنس کی تربیت دی جارہی ہے۔ تفصیل جانیے محمد دین مغل کی اس رپورٹ میں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت کشیدگی محکمہ شہری دفاع مظفرآباد مظفرآباد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت کشیدگی محکمہ شہری دفاع مظفرا باد پاک بھارت کشیدگی شہری دفاع
پڑھیں:
صہیونیوں کا ایران کے ممکنہ حملے کے خوف سے بحری راستے سے قبرص فرار جاری
اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق ان فرار ہونے والوں کا پس منظر مختلف ہے کچھ وہ ہیں جو اسرائیل میں پھنس گئے تھے، کچھ بیرون ملک اپنے خاندان سے جا ملنے کے خواہاں ہیں، جبکہ کئی افراد نے مستقل طور پر اسرائیل چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک قابض شخص نے بتایا کہ وہ پرتگال میں اپنی ساتھی کے کہنے پر وہاں مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتا ہے۔ قبرص کا یہ بحری سفر یاخٹ کی نوعیت اور رفتار کے مطابق 8 سے 25 گھنٹے پر محیط ہوتا ہے۔ حکومتی وارننگ کے باوجود ان مقامات کی جانب فرار کو روکنے کی کوشش دراصل غیرمنظم انخلا کی روک تھام اور نتن یاہو حکومت کی طرف سے استحکام کے تاثر کو قائم رکھنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
عبرانی اخبار ہارٹز نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی باشندوں کی ایک نئی کشیدگی سامنے آئی ہے، جس کے تحت سینکڑوں افراد اسرائیل چھوڑ کر قبرص کی جانب رخ کر رہے ہیں۔ یہ افراد پرائیویٹ کشتیوں کے ذریعے اسرائیلی بندرگاہوں جیسے ہرٹزیلیا، حیفا اور عسقلان سے خفیہ انداز میں روانہ ہو رہے ہیں۔ یہ سفر نہ صرف مکمل رازداری میں کیا جا رہا ہے بلکہ اس پر ہزاروں شیکل خرچ ہو رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق سوشل میڈیا پر بند گروپوں کے ذریعے ان بحری سفرات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان گروپوں میں شامل ہونے والے قابضین اپنی شناخت کو خفیہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سفر کسی آرام یا تفریح کی غرض سے نہیں بلکہ مجبوری اور شدید خوف کی کیفیت میں کیا جا رہا ہے۔ بعض افراد نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ ایرانی میزائلوں کے خطرے سے جان بچانے کے لیے فرار ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی بندرگاہوں پر چھوٹے بیگ تھامے افراد کی آمد دیکھی جا رہی ہے، جو ان کشتیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو قبرص کے شہر لارناکا کی جانب روانہ ہوتی ہیں۔ وہاں سے وہ دنیا کے دیگر حصوں کا رخ کرتے ہیں۔ اخبار نے ہرٹزیلیا کی بندرگاہ کا منظر ایک چھوٹے ہوائی اڈے کی روانگی کا منظر” قرار دیا، جہاں ایک وقت میں 100 سے زائد افراد کی روانگی دیکھی گئی۔ قابض حکام اس رحجان کے دائرہ کار کا اندازہ لگانے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان فرار ہونے والوں کا پس منظر مختلف ہے کچھ وہ ہیں جو اسرائیل میں پھنس گئے تھے، کچھ بیرون ملک اپنے خاندان سے جا ملنے کے خواہاں ہیں، جبکہ کئی افراد نے مستقل طور پر اسرائیل چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک قابض شخص نے بتایا کہ وہ پرتگال میں اپنی ساتھی کے کہنے پر وہاں مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتا ہے۔ قبرص کا یہ بحری سفر یاخٹ کی نوعیت اور رفتار کے مطابق 8 سے 25 گھنٹے پر محیط ہوتا ہے۔
اس کی لاگت 2500 سے 6000 شیکل تک ہوتی ہے۔ اگرچہ اس سفر کے بدلے خطیر رقم کی پیشکش کی جاتی ہے، تاہم کئی کشتیوں کے کپتان ان غیرقانونی اور غیرلائسنس یافتہ سفروں میں شامل ہونے سے انکار کر چکے ہیں، کیونکہ یہ سفر بغیر کسی قانونی تحفظ کے ہوتا ہے اور اس میں خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اس دوران قابض اسرائیلی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت اسرائیلی شہریوں کو ان نجی فضائی پروازوں کے ذریعے سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
یہ ماضی میں بیرون ملک پھنسے افراد کی واپسی کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ یہ فیصلہ ایرانی افواج کی جانب سے قابض کو فلسطینی سرزمین سے نکل جانے کی سخت وارننگ کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ "یہی ان کی جان بچانے کا واحد راستہ ہے۔ اگرچہ اس حکم نامے اور بڑے پیمانے پر ممکنہ فرار کے درمیان کوئی باضابطہ تعلق ظاہر نہیں کیا گیا، مگر اس فیصلے کا وقت ایسے علاقائی تناؤ کے بیچ آیا ہے جب ایران کی جانب سے ایک بڑے حملے کا خدشہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی قابض اسرائیلی معاشرے میں عدم تحفظ اور ہلاکتوں میں بے پناہ اضافے کے سبب شدید بےچینی دیکھی جا رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالات میں ایتھنز اور لارناکا اسرائیلی باشندوں کے لیے ہمیشہ محفوظ پناہ گاہیں سمجھی گئی ہیں۔ تاہم حکومتی وارننگ کے باوجود ان مقامات کی جانب فرار کو روکنے کی کوشش دراصل غیرمنظم انخلا کی روک تھام اور نتن یاہو حکومت کی طرف سے استحکام کے تاثر کو قائم رکھنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔
عبرانی میڈیا کے اندازوں کے مطابق اس وقت 1 سے 2 لاکھ اسرائیلی شہری بیرون ملک موجود ہیں اور انہیں انخلا کی پروازوں کی ضرورت ہے۔ تاہم، گزشتہ دو دنوں میں شدید گولہ باری کے باعث ان پروازوں کے جمعرات سے قبل شروع ہونے کا امکان نہیں۔ ادھر قابض اسرائیلی افواج نے امریکی پشت پناہی سے جمعے کی صبح ایران پر بڑا حملہ کیا، جس میں جوہری تنصیبات، میزائل اڈوں، فوجی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اب تک 224 افراد شہید اور 1277 زخمی ہو چکے ہیں۔