او آئی سی کا بھارت میں اسلاموفوبیا اور کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے خلاف شدید ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے تحت کام کرنے والے مستقل آزاد انسانی حقوق کمیشن (IPHRC) نے بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسلاموفوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں پر حملوں میں خطرناک اضافے پر شدید تشویش اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن نے حالیہ پہلگام واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
او آئی سی نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان نفرت انگیز حملوں کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کرائے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
کمیشن نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی سزا، سیاسی قید، اور بنیادی آزادیوں پر پابندیاں لگا کر ظلم کر رہا ہے۔
او آئی سی نے ایک بار پھر 5 اگست 2019 کو بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کر دیا اور مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کے مشن کی رسائی کا مطالبہ کیا۔
انسانی حقوق کمیشن نے سیاسی قیدیوں کی رہائی، بنیادی حقوق کی بحالی، اور عالمی فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی اپیل بھی کی ہے۔
او آئی سی نے اپنا دیرینہ مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں آزادانہ و منصفانہ رائے شماری کرائی جائے تاکہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا جا سکے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: او آئی سی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نوجوان صحافیوں کو شدید بحران کا سامنا ہے جو حکومتی دبائو کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا شکار ہیں اور اس سے علاقے کی ایک وقت کی متحرک پریس بالکل خاموش ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو بہت سے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں قابل عمل اور آزاد روزگار کے پلیٹ فارمز کا فقدان شامل ہے، نگرانی کا ماحول، صحافیوں پر کالے قوانین کو لاگو کرنا اور پریس کی آزادی میں کمی ایک معمول بن چکا ہے۔ بحران اتنا سنگین ہے کہ نئے طلباء اس پیشے سے وابستہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبہ جات میں اندراج کی شرح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، صرف 25 سے 30 طلباء سالانہ اپنی ڈگریاں مکمل کر پاتے ہیں۔ وہ انتہائی محدود پیشہ ورانہ مواقع، شدید دبائو کے باعث شعبے کے گرتے ہوئے وقار اور فائدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی تعلیمی لاگت کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دے رہی ہیں۔