2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد سے مقامی صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت ہراساں کیے جانے، نگرانی اور الزامات کا سامنا ہے، جب کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ اسلام ٹائمز۔  مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کے ان خطرناک ترین مقامات میں شامل ہے جہاں صحافت اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد مشکل ترین حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1989ء سے اب تک کم از کم 20 صحافی اپنے پیشہ فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے گئے۔ قتل کئے جانیوالے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، محمد شعبان وکیل، خاتون صحافی آسیہ جیلانی، غلام محمد لون، غلام رسول آزاد، پرویز محمد سلطان، شجاعت بخاری، علی محمد مہاجن، سید غلام نبی، الطاف احمد فکتو، سیدان شفیع، طارق احمد، عبدالمجید بٹ، جاوید احمد میر، پی این ہنڈو، محمد شفیع، پردیپ بھاٹیہ، اشوک سودھی اور رئیس احمد بٹ شامل ہیں۔ 2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پریس کی آزادی میں تیزی سے کمی آئی ہے، مقامی صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت ہراساں کیے جانے، نگرانی اور الزامات کا سامنا ہے، جب کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ تنقیدی رپورٹنگ پر انہیں مقبوضہ علاقے سے چلے جانے پر مجبور کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج، پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کو ہراسانی، اغوا، قاتلانہ حملوں، گرفتاریوں، تھانوں میں طلبی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔

عرفان معراج، سرتاج الطاف بٹ اور عادل سمیت کئی صحافی اب بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی حراست کا سامنا کر رہے ہیں۔ 23 اپریل 2025ء کو جموں میں مقیم سینئر صحافی راکیش شرما کو کٹھوعہ میں ایک احتجاج کے دوران بی جے پی رہنماﺅں نے پہلگام واقعے کے دوران بھارتی فورسز کی عدم موجودگی پر سوال اٹھانے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے خلاف صحافیوں نے جموں اور کٹھوعہ میں بھرپور احتجاج کیا۔ جلاوطن کشمیری ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ 31 سالہ مسرت زہرہ کو بھارتی پولیس کی دھمکیوں کی وجہ سے کشمیر چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے متنازعہ علاقے میں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے پر توجہ مرکوز کی تھی۔ وہ مارچ 2021ء میں ایک جرمن این جی او کی مدد سے مقبوضہ علاقے سے چلی گئیں۔ زہرہ کو ان کی فیس بک پوسٹس کے لیے نشانہ بنایا گیا، جنہیں پولیس نے "بھارت مخالف” قرار دیا تھا اور زہرہ کو کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

جنوری 2022ء میں زہرہ نے کہا تھا کہ پولیس نے سری نگر میں اس کے والدین کو مارا پیٹا تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ”پولیس نے آج شام 5 بجے کے قریب بٹاملو میں میرے والدین کو مارا پیٹا۔ پولیس والوں نے میرے والد کا شناختی کارڈ چھین لیا ہے اور جب میری والدہ نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی مارا پیٹا گیا۔ چیلنجوں اور دھمکیوں کے باوجود زہرہ نے اپنی صحافت میں ثابت قدمی سے کشمیر میں زندگی کے حقائق کو دستاویزی شکل دی۔ ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مقبوضہ علاقے کا سامنا

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا سب سے زیادہ اثر کشمیر پر پڑیگا، عمر عبداللہ

عمر عبداللہ اور مودی کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب جموں و کشمیر میں سکیورٹی چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور بی جے پی حکومت نے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے ہفتہ کو دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد مودی سے یہ ان کی پہلی ملاقات ہے۔ دونوں لیڈروں کے درمیان ملاقات تقریباً 30 منٹ تک جاری رہی۔ حالیہ پہلگام حملہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سکیورٹی صورتحال سمیت کئی امور پر میٹنگ میں تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں لیڈروں کے درمیان حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے مودی سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور اس کے اثرات پر بھی بات چیت کی جس کا سب سے زیادہ اثر جموں و کشمیر پر پڑے گا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد عمر عبداللہ نے سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاست اتنی کم نہیں ہے کہ وہ اس سانحے کے وقت اپنی ہی حکومت سے مکمل ریاست کا درجہ مانگ سکیں۔

عمر عبداللہ اور مودی کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب جموں و کشمیر میں سکیورٹی چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور بی جے پی حکومت نے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے دوران کہا تھا کہ جموں و کشمیر اس وقت منتخب حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن میں اس موقع کو ریاست کا درجہ مانگنے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ میں پہلگام سانحہ کو مرکز سے ریاست کا درجہ مانگنے کے لئے کیسے استعمال کر سکتا ہوں، کیا میری سیاست اتنی سستی ہے، کیا میں ان 26 لوگوں کی زندگیوں کو اتنی کم اہمیت دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی بات کی ہے اور مستقبل میں بھی مرکز سے ریاست کا درجہ مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ میرے لئے شرم کی بات ہو گی، اس وقت کوئی سیاست، کوئی کاروبار، کوئی ریاست نہیں ہے، یہ وقت صرف اس حملے کی شدید مذمت کرنے اور متاثرین کی حمایت کا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی سے ملاقات کرنے والے وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے خود کو لعنت کا حقدار کیوں قرار دیا
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا سب سے زیادہ اثر کشمیر پر پڑیگا، عمر عبداللہ
  • دنیا کو حقائق کی فراہمی میں صحافیوں کی قربانیاں تاریخ کا سنہری باب ہیں: صدر، وزیراعظم
  • بھارت نے حملہ کیا تو 2 ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ خطرناک صورتحال اختیار کرسکتی ہے، رضوان سعید شیخ
  • اوکاڑہ میں پولیس مقابلہ، خطرناک ڈاکو ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک، ساتھی فرار
  • وادی کشمیر میں پولیس کے مزید 21 مقامات پر چھاپے
  • آزاد جموں و کشمیر بھارت کی جانب سے کشیدگی میں ممکنہ اضافے سے نمٹنے کیلئے تیار
  • بھارت کا مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بے نقاب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر کو’’غزہ‘‘بنانے کی تیاری