فسادی ٹولے نے سکیورٹی بریفنگ کا بائیکاٹ کر کے ملک دشمنی کا ثبوت دیا: عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والوں نے سکیورٹی بریفنگ میٹنگ کا بائیکاٹ کر کے ملک دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ ملک دشمن ٹولے سے اس کے علاوہ توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے نام نہاد ٹائیگر ابھی بھی ملک اور اداروں کے خلاف جنگ برپا کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا یہی وہ جماعت ہے جو اپنی حکومت میں کسی سکیورٹی بریفنگ میں شرکت نہیں کرتی تھی اور پھر میڈیا پر آ کر شکوے کرتی تھی کیا کروں، جنگ کرلوں؟۔" عظمیٰ بخاری نے مزید کہا، "ان سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ان کے ٹائیگرز آج بھی ریاستی اداروں اور ملک کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا تحریک انصاف کا ہر وقت ملک سے بائیکاٹ ہی ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ یہ لوگ کبھی پاکستانی بن کر نہیں سوچ سکتے۔ ہر فورم اور ہر سطح پر گھٹیا حرکتیں ان کا معمول بن چکی ہیں۔ یہ رویہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ وزیر اطلاعات نے زور دیا قومی سلامتی جیسے اہم معاملات پر سیاست سے بالاتر ہو کر یکجہتی اور سنجیدگی کی ضرورت ہے، لیکن افسوس تحریک انصاف کا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔