20 ہزار روپے کا بھارتی جنگی منصوبہ!
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
جون 2005 میں بھارت کے معروف صحافی کرن تھاپر نے جب پاکستانی سیاست دان، مصنف اور سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان کا انٹرویو لیا تو کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ ایک جملہ آنے والے برسوں میں ایک سنسنی خیز بحث کو جنم دے گا۔ انٹرویو کے دوران گوہر ایوب نے ایک ایسا دعویٰ کیا جس نے بھارتی عسکری حلقوں میں ہلچل مچا دی۔
گوہر ایوب نے کہا تھا کہ ’اگر ٹوپی سیم مانیکشا کے سر پر فِٹ آتی ہے، تو اسے پہن لینی چاہیے۔‘ یہ جملہ بظاہر سادہ تھا، مگر اس کے پیچھے ایک طوفان چھپا تھا۔
گوہر ایوب نے کہا تھا کہ 1950 کی دہائی میں بھارتی فوج کے بریگیڈیئر جو اس وقت ’ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز‘ آفس میں تعینات تھے، نے بھارت کے 1965 کی جنگ کا منصوبہ محض 20 ہزار روپے کے عوض پاکستان کو فروخت کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: وہ لمحات جب بھارت کو پاکستان کے خلاف سبکی کا سامنا کرنا پڑا
جب کرن تھاپر نے ان سے اس افسر کا نام پوچھا تو گوہر ایوب نے انکار کیا لیکن ان کی فراہم کردہ چار نشانیاں بالواسطہ طور پر بھارت کے سب سے ممتاز فوجی افسر، فیلڈ مارشل سیم مانیکشا پر منتج ہوتی تھیں۔
گوہر ایوب نے دعویٰ کیا کہ یہ معلومات انہیں ان کے والد فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی ڈائری میں دی تھیں۔ گوہر کے بقول، مذکورہ افسر انڈین ملٹری اکیڈمی کے پہلے بیج میں شامل تھا، 12 فرنٹیئر فورس میں کمیشن ہوا، 1942 میں برما مہم کے دوران زخمی ہوا، ملٹری کراس حاصل کیا اور بعد ازاں فوج کے سب سے بلند رینک تک پہنچا۔
جب کرن تھاپر نے ان سے کہا کہ یہ تمام نشانیاں فیلڈ مارشل سیم مانیکشا پر پوری اترتی ہیں، تو گوہر ایوب خان نے کہاتھا کہ:
“If the cap fits Manekshaw, he must wear it”
مزید پڑھیں: عینی آپا تھیں تو پاکستانی
گوہر ایوب خان نے اپنی کتابGlimpses into the Corridors of Power اور اس سے قبل متعدد انٹرویوز میں یہ دعویٰ کیا کہ 1965 کی جنگ سے قبل ایک بھارتی بریگیڈیئر نے صرف 20 ہزار روپے کے عوض پاکستان کو بھارتی جنگی منصوبے فروخت کیے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان تمام نشانیوں کا اطلاق صرف ایک ہی فوجی شخصیت ’فیلڈ مارشل سیم مانیکشا‘ پر ہوتا ہے۔
یہ دعویٰ صرف محض افسانوی کردار پر نہیں بلکہ بھارت کے سب سے زیادہ معزز اور قابل احترام سمجھنے جانے والے فوجی افسر پر تھا، جسے 1971 کی جنگ میں پاکستان پر فتح کا معمار مانا جاتا ہے۔ جب کرن تھاپر نے پوچھا کہ کیا وہ نام لینا چاہیں گے، تو گوہر ایوب نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا ’آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
گوہر ایوب کا یہ انکشاف جیسے ہی منظر عام پر آیا، بھارت میں زبردست ہلچل مچ گئی۔ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل شنکر رائے چودھری نے اسے ’لغو اور بدنیتی پر مبنی‘ قرار دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل جیکب نے مانیکشا کو بے حد قابل، محب وطن اور دیانت دار شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیم مانیکشا ایسا نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھیں: ایک تھا جلیانوالہ باغ
بھارتی وزیر دفاع پرناب مکھرجی ( مکھرجی 22 مئی 2004 سے 26 اکتوبر 2006 تک بھارت کے وزیر دفاع رہے) نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی، تاہم سرکاری طور پر ہزیمت سے بچنے کے لیے معاملہ وقت کی گرد میں دبا دیا گیا۔
بھارتی میڈیا نے کھسیانی بلی کی طرح یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر پاکستان کے پاس واقعی جنگی منصوبہ تھا تو پھر 1965 کی جنگ میں فیصلہ کن فتح کیوں نہ ملی؟ اس کے جواب میں صرف ایک مثال چونڈہ اور کِھیم کرن محاذ کی دی گئی، جہاں پاکستان کی مزاحمت میں بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن جانا، ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔
سیم مانیکشا نے 1934 میں برٹش انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور دوسری جنگ عظیم، 1947، 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لیا۔ 1971 کی جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو اس کامیابی پر انہیں 1973 میں بھارت کا پہلا فیلڈ مارشل مقرر کیا گیا۔
مزید پڑھیں: فوزیہ، منٹو اور قندیل
3 اپریل 1914 کو امرتسر میں پیدا ہونے والے سیم مانیکشا 27 جون 2008 کو 94 سال کی عمر میں تمل ناڈو میں نمونیا کے باعث انتقال کر گئے تھے۔ گوہر ایوب خان کے انٹرویو کے تین برس تک وہ زندہ رہے لیکن بے لگام بھارتی میڈیا کو ان سے 20 ہزار روپے کے عوض بیچے گئے بھارتی جنگی منصوبے کا پوچھنے کی جرات ہوئی اور نہ ہی مانیکشا کو اپنی زندگی میں تردید کی ہمت ہوئی۔
بھارتی خاموشی کے باوجود آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہےکہ 1965 کی جنگ کا منصوبہ 20 ہزار روپے میں بیچا گیا؟ یا بقول بھارتی میڈیا یہ صرف گوہر ایوب کی کتاب کی تشہیر تھی؟ ان سوالات کا جواب شاید تاریخ کبھی نہ دے سکے کہ فی الحال تاریخ خاموش ہے اور خاموشی کبھی کبھار بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 1965 کی جنگ 20 ہزار روپے ایوب خان پاک بھارت جنگ چونڈہ سیم مانیکشا گوہر ایوب خان گوہر ایوب خان بھارتی میڈیا گوہر ایوب نے کرن تھاپر نے سیم مانیکشا مزید پڑھیں فیلڈ مارشل ہزار روپے میں بھارت بھارت کے کہا تھا کی جنگ نے کہا
پڑھیں:
بے نظیر ہیو من ریسورس، ڈھائی کروڑ روپے کے ٹھیکوں پر افسران کی کمائی
کرائے کی عمارت پر مرمت اور فرنیچر کی خریداری کیلیے بندربانٹ ہوئی
کمیشن کے ذریعے کمائی سی ایم آئی ٹی اور اینٹی کرپشن کو شکایات موصول
شہید بینظیر بھٹو ہیومن ریسورس ریسرچ بورڈ کے افسران کا کارنامہ، کرائے کی عمارت پر مرمت اور فرنیچر کی خریداری میں ڈھائی کروڑ روپے خرچ کر دیئے، ٹھیکے افسران کے قریبی رشتے داروں کو دینے کا انکشاف، چائے کا سیٹ 4 لاکھ 77 ہزار روپے میں خرید لیا، اینٹی کرپشن اور سی ایم آئی ٹی کو شکایات موصول۔ جرات کی رپورٹ کے مطابق شہید بینظیر بھٹو ہیومن ریسورس اینڈ ریسرچ بورڈ کا دفتر ایک نیم سرکاری ادارے کی عمارت میں قائم ہے، بورڈ ادارے کو کرائے کی مد میں ماہانہ ایک کروڑ 50 لاکھ روپے ادا کرتا ہے۔ بورڈ کی انتظامیہ نے عمارت کی مرمت پر ایک کروڑ 56 لاکھ روپے خرچ کئے ہیں، فرنیچر کی خریداری پر 53 لاکھ 96 ہزار روپے خرچ کرنے کا دعوی کیا گیا ہے، اسپلٹ اے سی کی خریداری پر 20 لاکھ 39 ہزار روپے خرچ کئے گئے ہیں، مشینری کی خریداری پر ایک لاکھ 80 ہزار روپے خرچ ہو گئے، ایم آئی ایس سیکشن کے لئے ایک لیپ ٹاپ کی خریداری پر 4 لاکھ 24 ہزار خرچ کئے گئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ چائے کے سیٹ کی خریداری پر 4 لاکھ 77 ہزار روپے خرچ کرنے کا دعوی کیا گیا ہے، مجموعی طور پر 2 کروڑ 41 لاکھ 68 ہزار روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ میسرز آرش ایسوسی ایٹس کو 53 لاکھ 28 ہزار، میسرز ایف ایم کنسلٹنٹ کو 18 لاکھ، حفصہ ٹریڈرز کو 86 لاکھ 44 ہزار، مبارک انٹر پرائیز کو 30 لاکھ، میسرز پراپرٹی سالویشن کو 11 لاکھ اور میسرز شعیب ٹریڈرز کو 41 لاکھ روپے ٹھیکے جاری کئے گئے، ذرائع کے مطابق عمارت کی مرمت پر صرف 50 لاکھ خرچ کر کے باقی رقم ہڑپ کر لی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حفصہ ٹریڈرز کے مالک علی رضا شیخ ہیں جو کہ بورڈ کے اسسٹنٹ رضوان شیخ کے قریبی رشتیدار ہیں اور بورڈ کے اعلی حکام کو مبینہ طور پر بھاری کمیشن دے کر ٹھیکے وصول کرتے ہیں، بورڈ میں تقریبن ڈھائی کروڑ کے کام کو تقسیم کر کے سپرا قوائد کی خلاف ورزی کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ایک کمپنی کو اوپن ٹینڈر کے ذریعے ٹھیکہ جاری نہ ہو سکے، ملی بھگت میں رضوان شیخ، فیض اللہ سومرو سمیت دیگر افسران ملوث ہیں۔ شھید بینظیر بھٹو ہیومن ریسورس ریسرچ بورڈ میں مرمت اور سامان کی خریداری میں مبینہ طور پر کرپشن کی شکایات چیئرمین اینٹی کرپشن ذوالفقار علی شاہ اور سی ایم آئی ٹی کی سربراہ کو کی گئی ہیں۔