گوادر پورٹ سے بلوچستان کو حصہ نہ دینے کا معاملہ وفاق کیساتھ اٹھائینگے، سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
سرفراز بگٹی نے گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی جانب سے صوبائی حکومت کو بندرگاہ کی آمدنی سے حصہ نہ دینے سے متعلق انکشاف پر فوری نوٹس لے لیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی جانب سے صوبائی حکومت کو بندرگاہ کی آمدنی سے حصہ نہ دینے سے متعلق انکشاف پر فوری نوٹس لے لیا ہے۔ یہ معاملہ بلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں سامنے آیا، جہاں پیش کیے گئے ایک خط میں بتایا گیا کہ گوادر پورٹ، جو بین الاقوامی سطح پر اقتصادی اہمیت کی حامل ہے، سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کوئی حصہ صوبہ بلوچستان کو نہیں دیا جا رہا۔ خط کے مطابق بندرگاہ کا انتظام چین کی کمپنی چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی (COPHC)” کے پاس ہے، اور بندرگاہ کے دو آپریٹر ادارے اپنی آمدنی کا 9 فیصد، جبکہ ایک ادارہ 15 فیصد گوادر پورٹ اتھارٹی کو دیتا ہے، لیکن یہ رقم بلوچستان حکومت کو منتقل نہیں کی جاتی۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس اہم مسئلے کو وفاقی حکومت کے ساتھ بھرپور انداز میں اٹھائیں گے تاکہ بلوچستان کو اس کا حق دلایا جا سکے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی گوادر پورٹ
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑنا شروع
—فائل فوٹوایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔
بلوچستان میں گوادر سے تفتان تک ایسے کئی علاقے ہیں جہاں بجلی اور پیٹرول سے لے کر خوردنی اشیاء ایران سے آتی ہیں، جنگی صورتِ حال کے باعث سرحدیں بند ہیں جس سے ان چیزوں کی قلت اور مہنگائی شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل بارڈر تفتان اور گوادر سے کچھ دور گبدرمدان راہداری سے ملتی ہے جو اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے باعث بند ہوگئی ہے، اس بندش سے بلوچستان کے مختلف اضلاع متاثر ہونے لگے ہیں۔
تفتان بارڈر کراچی سے ہزار کلومیٹر جبکہ گبدرمدان کا فاصلہ 700 کلو میٹر ہے، بارڈر کے قریبی علاقے خصوصاً گوادر، پنجگور، مند وغیرہ میں روزمرہ ضرورت کا سامان جس میں پیٹرول، کھانے کا تیل، گھی، مسالے اور کنفیکشنری آئٹم بھی ایران ہی سے آتے ہیں۔
ایرانی پیٹرول سے ناصرف ٹرانسپورٹر اور عام شہری فائدہ اُٹھاتے ہیں بلکہ یہی پیٹرول ماہی گیر اپنی کشتیوں اور بوٹس میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں تقریباً 22 سے 24 لاکھ افراد کا گزر بسر ایرانی ڈیزل یا پیٹرول پر ہوتا ہے جس کی ترسیل مند سے حب چوکی تک کی جاتی ہے جبکہ گوادر شہر سمیت مختلف بارڈر کے علاقوں کی بجلی بھی ایران کے ذریعے آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ایران نہیں اسرائیلی حکومت نے خونریزی کا آغاز کیا، عباس عراقچی ایران اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کا خدشہ، کیا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا؟تفتان بارڈر کی بندش سے ملحقہ علاقوں میں اکثر پیٹرول پمپ بند ہیں اور جو کھلے ہوئے ہیں ان پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں، گوادر میں ایرانی پیٹرول 160 روپے سے 270 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکا ہے۔
بین الاقوامی ادارے انٹرنیشل انسٹیٹوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈی کی رپورٹ کے مطابق پورے پاکستان کا 35 فیصد ڈیزل ایران سے آتا ہے۔
جنگ جاری رہی تو خدشہ ہے کہ بلوچستان میں توانائی کے ساتھ بنیادی سہولتوں کا بھی بحران پیدا ہو جائے گا اور اس کا اثر کراچی پر بھی پڑ سکتا ہے۔