وزیر اعظم پاکستان کی کامیاب سفارتکاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سیکیو ر ٹی کونسل کا دوسرا اجلاس ہوا ہے۔ اجلاس میں پاکستان نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکیو ر ٹی کونسل کے ارکان کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر کشمیر کے مسئلہ اور پہلگام حملے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کی پاکستانی پیشکش کا بھی اعادہ کیا گیا۔
پاکستان کی درخواست پر بلائے گئے، اس خصوصی اجلاس سے بھارت کو بہت پریشانی تھی۔ بھارت نے اس اجلاس کو رکوانے کی بھی کوشش کی۔ لیکن کسی بھی مستقل رکن نے اس اجلاس کو روکنے کی بھارت کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔ یہ اجلاس بھی پاکستان کی سفارتکاری کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
وزیر اعظم پاکستان مسلسل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی بات کر رہے ہیں ۔ان سے رابطے میں ہیں۔ اسی لیے ہمیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی گفتگو بھی پاکستانی موقف کے قریب نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم پاکستان کی کامیاب سفارکاری کی وجہ سے پاکستان کے حق میں نظر آرہا ہے۔ جب سے پہلگام ہوا ہے، پاکستان نے بہت جارحا نہ سفارتکاری کی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے براہ راست اور بالواسطہ پوری دنیا سے بات کی ہے۔
پاکستان کا موقف دنیا کے ہر رکن تک پہنچایا ہے۔ اور آج اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں، بھارت کو عالمی دنیا سے پہلگام سے وہ حمایت نہیں ملی ہے، جیسی اس کو پہلے مل جاتی تھی۔ دنیا آج پہلگام کی غیر جانبدرانہ اور شفاف تحقیقات کے پاکستانی موقف کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔ جو بہر حال پاکستان کی سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی ہے۔ جس کی وجہ سے آج بھارت سفارتی محاذ پر دفاعی پوزیشن میں نظر آرہا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور پہلگام کے واقعہ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کا ڈپلومیٹک ماسٹر اسٹروک شفاف اور غیر جانبدرانہ تحقیقات کا مطالبہ ہی تھا۔ پاکستان کے اس موقف کو عالمی سطح پر بہت پذیر آئی ملی ہے۔
ابتدائی طور پر کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ پاکستان کیوں غیر جانبدارانہ شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ بھارت کا فرض ہے۔ لیکن اس ایک مطالبہ نے بھارت کے سارے بیانیہ کو زمین بوس کر دیا ہے۔ اور بھارت نے جس ملک سے بھی بات کی اس نے پاکستان کے اس موقف کو دھرایا۔ اور بھارت کو کہا کہ وہ پہلے غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کروائے۔ پھر آگے بات ہو گی۔ آپ دیکھیں جب وزیر اعظم شہباز شریف نے برطانیہ سے بات کی تو انھوں نے برطانیہ کو تحقیقات میں شامل ہونے کی پیشکش کر دی۔ یہی بات انھوں نے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ سے ملاقات میں بھی کی۔
اسی وجہ سے ہمیں برطانیہ کے موقف میں بھارت کی وہ حمایت نظر نہیں آئی جو ماضی میں آتی رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے پہلے دن سے پہلگام حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔اس کو سب نے سراہا ہے۔
یہ اقدام بھارت کی الزام تراشیوں اور یکطرفہ بیانیے کے خلاف ایک مضبوط سفارتی حکمتِ عملی ہے۔ شہباز شریف کی فُل اسپیڈ ڈپلومیسی بھارت کے جھوٹے بیانیے کو عالمی سطح پر بے نقاب کر رہی ہے۔اسی طرح بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کے بعد بھی پاکستان کی سفارتکاری کافی اہم رہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر شدید ردعمل دیتے ہوئے عالمی رہنماؤں سے رابطے کیے۔انھیں پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ سندھ طاس کے قانونی نکا ت اور اس کی اہمیت سے عوا می رہنماؤں کو آگاہ کیا گیا۔ یوںبھارت کو سندھ طاس معاہدہ کی معطلی پر کوئی عالمی حمائت نہیں ملی ہے۔ دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ یہ بھی پاکستان کی اہم سفارتی کامیابی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کی امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارک روبیو سے بات چیت بھی بہت اہم رہی۔ وزیر اعظم سے گفتگو کے بعد ہمیں امریکی موقف میں کافی تبدیلی نظر آئی۔ امریکا نے بھارت کے جارحا نہ عزائم کی حمایت نہیں کی۔ جس سے بھارت کو بڑا جھٹکا لگا۔ ورنہ اس سے پہلے ماضی میں ہم نے امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف دیکھا ہے۔
بالخصوص امریکی نائب صدر کے دورہ پر پہلگام کا فالس فلیگ آپریشن دراصل امریکا کی حمائت کے لیے ہی تھا۔ بھارت چاہتا تھا کہ امریکا کی اسے حمایت حاصل ہو جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے حامیوں نے اس موقع پر بھی بھارت کی مدد کی۔ انھوں نے پاکستان اور بالخصوص آرمی چیف کے خلاف پراپیگنڈا کیا۔ لیکن پھر بھی امریکا کے ساتھ پاکستان کی سفا رتکاری کامیاب رہی ہے۔
وزیراعظم نے پاکستان میں تعینات غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کیں، جن میں ترکی، سعودی عرب، برطانیہ، یو اے ای، کویت اور چین شامل ہیں۔یہ ملاقاتیں بھی بہت اہم رہی ہیں۔ ان ممالک کے سفیروں کو بروقت پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ان ممالک نے جب رد عمل دیا تو اس میں پاکستانی موقف کی تائید شامل تھی۔ترکی نے بھی پاکستان کی حمایت کی ہے۔ بھارت کو ترکی کی پاکستان کی حمایت کی بہت تکلیف نظر آئی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بھی بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ایران خطہ کا اہم ملک ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی بھی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں بھی پاکستانی موقف سے انھیں آگا ہ کیا گیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بھارت بھی جانا ہے۔ لیکن بھارت جانے سے پہلے ان کا دورہ پاکستان کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگ تو جنگی محاذ پر ہی لڑی جانی ہے۔ جس کے لیے ہماری افواج تیار ہیں۔ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج نے اپنی جنگی تیاریوں سے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم جنگ کے لیے تیا رہیں۔ بھارت کے فضائی حملوں کو ناکام بھی بنایا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی سفارتی محاذ کی کامیابیوں نے ہماری افواج کا حوصلہ بھی بڑھایا ہے۔
سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھارت کو ایک دفاعی پوزیشن میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ بھارت کے روایتی دوستوں نے بھی اس موقع پر پاکستان کا وہ ساتھ نہیں دیا جیسا وہ ماضی میں دیتے رہے ہیں۔ روس نے بھی غیر جانبدار بات کی ہے۔ روس نے بھارتی جارحیت کی حمایت نہیں۔ چین تو غیر معمولی طورپر پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔ جیسے چین نے پاکستان کی حمایت کی ہے، ایسے تو کسی بھی ملک نے بھارت کی حمایت نہیں کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزیر اعظم پاکستان اعظم شہباز شریف بھی پاکستان کی پاکستانی موقف اقوام متحدہ نے پاکستان پاکستان نے حمایت نہیں بھارت کے کی حمایت بھارت کو بھارت کی نے بھارت کیا گیا کے ساتھ رہا ہے رہی ہے بات کی
پڑھیں:
پاک بھارت کشیدگی میں کمی کیلئے کوششیں تیز، ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کل پاکستان پہنچیں گے
عباس عراقچی پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد بھارت کے دورے پر نئی دہلی جائیں گے—فائل فوٹوایران نے بھی پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں، ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کل اسلام آباد پہنچیں گے اور پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ اسماعیل بقائی کے مطابق وزیرِ خارجہ عباس عراقچی پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد بھارت کے دورے پر نئی دہلی جائیں گے، دونوں ملکوں کے دورے کا مقصد پہلگام واقعے کے بعد ہونے والی کشیدگی میں کمی لانا ہے۔
پاکستان نے خطے کی تازہ صورتِ حال پر اقومِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ کر لیا۔
ایرانی وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کیلئے ثالثی کی پیشکش کی تھی، جبکہ 26 نومبر کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ کا یہ دورۂ پاکستان اور ایران کے برادرانہ تعلقات کا عکاس ہے، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات ہو گی۔
انہوں نے بتایا ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ عراقچی صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم شہباز شریف اورنائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار سے ملاقات کریں گے۔
شہباز شریف نے پہلگام واقعے کو بغیر ثبوت پاکستان سے منسوب کرنےکو مسترد کرتے ہوئے واقعے کی شفاف، معتبر اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کو دہرایا۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے پاکستان اور ایران کے تعلقات مشترکہ تاریخ، ثقافت اور مذہب پر مبنی ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ کا دورہ پاک ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ہو گا۔