مقررین نے کہا کہ فلسطین جیسے عظیم انسانی و اسلامی مسئلے پر مؤثر اور بامقصد آواز بلند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں مکاتبِ فکر باہمی اعتماد، خلوصِ نیت اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ بیداری اُمتِ مصطفیٰؐ پاکستان کے تحت آی ایچ برنی کانفرنس ہال کراچی پریس کلب میں "غزہ میں کیا ہو رہا ہے، اور ہمیں کیا ہو گیا ہے؟" کے عنوان سے کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت مرکزی مسئول تحریک بیداری مولانا محمد تقی نے کی۔ کانفرنس میں رہنما جماعت اسلامی مسلم پرویز، سربراہ امت واحدہ پاکستان علامہ امین شہیدی، مرکزی رہنما شیعہ علماء کونسل علامہ ناظر عباس تقوی، رہنما جمعیت علمائے اسلام مولانا محمود الحسینی، جنرل سیکریٹری فلسطین فاؤنڈیشن ڈاکٹر صابر ابو مریم، سماجی رہنما حسین رضوی، علامہ اصغر درس، مفتی مرتضیٰ رحمانی، بیرسٹر آصف ابڑو، مولانا زین رضا، مسئول مجمعہ المدارس مولانا باقر شجاعی، مولانا جعفر سبحانی، مولانا محسن قمی، رہنما پاکستان عوامی تحریک راؤ کامران سمیت ملک کی نمایاں مذہبی و فکری شخصیات نے شریک اور خطاب کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد تقی نے کہا کہ وہ نظریہ جو مزاحمت، آزادی اور عزتِ نفس کا علمبردار تھا، آج عالمی خاموشی کی گہری لہر میں دفن کیا جا رہا ہے، امت مسلمہ کا ضمیر، جو کبھی مزاحمت اور جرأت کا نشان تھا، آج مصلحتوں اور بے حسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن قدموں کو اٹھنا تھا، وہ بے حرکت ہیں اور جن زبانوں کو پکارنا تھا، وہ مصلحتوں کے قفل میں بند ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے میں قرآن کریم کا سوال گونج رہا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان مظلوم مردوں، عورتوں اور بچوں کیلئے نہیں لڑتے، جو فریاد کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کوئی مددگار بھیج دے۔

مولانا محمد تقی نے کہا کہ فلسطین جیسے عظیم انسانی و اسلامی مسئلے پر مؤثر اور بامقصد آواز بلند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں مکاتبِ فکر باہمی اعتماد، خلوصِ نیت اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، ان کے مابین فکری ہم آہنگی اور عملی اشتراک ایسا غیر متزلزل اتحاد تشکیل دے گا، جو نہ صرف امت کو اندرونی خلفشار اور فرقہ وارانہ تقسیم سے نجات دلائے گا، بلکہ دنیا کو یہ واضح پیغام دے گا کہ امتِ مسلمہ فرقوں، قوموں اور جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر ہو کر مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ یکجان و یک آواز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے حماس اور حزب اللہ کی مثالیں مشعلِ راہ ہیں، جنہوں نے شیعہ سنی اختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ مزاحمتی صف بندی قائم کی، ایک دوسرے کیلئے جانیں قربان کیں، اور وفاداری، قربانی اور اخلاص کی تاریخ رقم کی۔

مقررین نے کہا کہ 19 مہینے سے جاری اسرائیلی مظالم پر امت کی خاموشی ملتِ اسلامیہ کے شایانِ شان نہیں، اب وقت آ چکا ہے کہ غزہ کو مرکزِ وحدت بنا کر ایک ایسا جامع، بامعنی اور غالب بیانیہ تشکیل دیا جائے، جو میڈیا پر چھائے وقتی، سطحی اور غیر اہم بیانیوں کو پسِ پشت ڈال دے۔ مقررین نے کہا کہ ملک کے دس بڑے شہروں میں مشترکہ، منظم اور متحدہ عوامی اجتماعات منعقد کیے جائیں، تاکہ قوم فکری طور پر بیدار، عملی طور پر متحرک اور وحدت کے سانچے میں ڈھل کر ایک مؤثر قوت کے طور پر اُبھرے، یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان میں ایک ہم آہنگ، مضبوط اور بیدار اسلامی تحریک کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان کو ایران اور غزہ کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آبادکاکہنا ہےکہ  جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے بعد پاکستان کو کھل کر ایران اور فلسطین کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ جو حملے لبنان، شام، عراق اور ایران پر ہوچکے ہیں، ان کے بعد اب اگلا ہدف پاکستان ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق مولانا فضل الرحمن  نے کہا کہ اسرائیل کے ظلم و بربریت پر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، صرف گزشتہ دو دنوں میں ڈیڑھ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جانیں جا چکی ہیں، مگر اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے ادارے محض نمائشی کردار ادا کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسرائیل جب کسی ملک پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ہاتھ نہیں روکتا، لیکن جب ایران یا پاکستان اپنے دفاع میں کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ان کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر ایران اسرائیل کو جواب دیتا ہے تو اس پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور اگر پاکستان بھارت کو جواب دیتا ہے تو اس پر سفارتی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت رکھنے والا واحد مسلم ملک ہے اور اسے مسلم دنیا کی قیادت کرنی چاہیے، مگر بدقسمتی سے ہم خود دفاعی پوزیشن میں ہیں، اگر مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو دشمن ممالک ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک کو کمزور کر دیں گے اور پاکستان کی ایٹمی قوت ان کے نشانے پر ہے۔

انہوں نے کم عمری کی شادی کے خلاف پیش کیے گئے بل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ بل اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے قوانین کے ذریعے نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنایا جا رہا ہے، جو اسلامی معاشرے کے لیے خطرناک رجحان ہے۔

انہوں نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ پاکستانی حکومت کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ ہے، حکومت صرف اسے پڑھ کر سناتی ہے، اس ملک کو حقیقی انقلاب کی ضرورت ہے، عوام کو بیدار کرنے اور خود اپنے مسائل حل کرنے کے لیے تیار کرنے کا وقت آچکا ہے، کیونکہ روایتی سیاست اب قوم کو کچھ نہیں دے سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام قومی کانفرنس دینی جرائد و میڈیا آج ہوگی
  • ریاض: مجلس پاکستان کے زیر اہتمام عید ملن پارٹی کا انعقاد
  • مجلس علماء امامیہ پاکستان کے زیر اہتمام گجرات میں "عظمتِ غدیر و عاشورا کانفرنس"
  • گلگت، یکجہتی ایران ریلی
  • امریکی مداخلت سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے‘لیاقت بلوچ
  • ایم ڈبلیو ایم کراچی کے تحت تحفظ عزادار و عزاداری کانفرنس
  • حکومت مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے پیش نظر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس بلائے
  • منعم ظفر و دیگرکی مولانا عتیق الرحمن سے اہلیہ کے انتقال پر تعزیت
  • پاکستان کو ایران اور غزہ کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمن
  • کامسٹیک کے زیر اہتمام بنگلہ دیش کے وائس چانسلرز کے اعزاز میں خصوصی فورم کا انعقاد