بھارت کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانا انتہائی افسوس ناک ہے، عطا اللہ تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے بھارتی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے عام شہریون کو نشانہ بنایا اور جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں دہشت گردوں کے کیمپ نہیں تھے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے عالمی نشریاتی اداروں اسکائی نیوز، ٹی آر ٹی ورلڈ اور بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے پانچ مقامات پر حملہ کیا، پاکستان بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے حملوں میں خواتین اور بچے جاں بحق ہوئے، نقصان کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے، پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے، ہمیں خدشہ تھا کہ بھارت حملہ کرے گا۔
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان نے جارحیت میں پہل کبھی نہیں کی لیکن ہمیں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، بھارت نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا، جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں دہشت گردوں کے کیمپ نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی اور مقامی صحافیوں کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ان علاقوں کا دورہ کرایا جن کے بارے میں بھارت کا الزام تھا کہ وہاں دہشت گردوں کے کیمپ ہیں۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ بھارت کے پاس پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، پہلگام کا علاقہ لائن آف کنٹرول سے 200 کلو میٹر دور ہے، پہلگام واقعہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی ناکامی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانا انتہائی افسوس ناک ہے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے، پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، ہم اپنے مغربی علاقوں اور سرحدوں پر دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں۔
عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 90 ہزار جانیں قربان کی ہیں، جعفر ایکسپریس واقعہ رونما ہوا تو بھارت نے اس کی مذمت تک نہیں کی، بھارت خود دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا میں سکھوں کا قتل عام کیا، ہمارے پاس بھارت کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں، کلبھوشن یادیو بھارت کا نیول آفیسر ہے جو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا، وہ پاکستان کے پاس بھارت کے خلاف ایک ٹھوس ثبوت ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان عالمی امن کا ضامن ہے، ہم دہشت گردوں اور دنیا کے درمیان ایک دیوار ہیں، پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے خلاف جانوں کی قربانیاں دے رہا ہے، پاکستان اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے، پاکستان کو کسی سے کمتر نہ سمجھا جائے۔
وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ آج بھی بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی گئی، قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، ہم بھارتی جارحیت کا جواب دے رہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے سفارتی محاذ پر کئی ممالک کے سفرا سے ملاقات کی اور عالمی رہنماؤں سے رابطے کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے کی شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کی پیش کش کی، پاکستان نے کبھی جارحیت میں پہل نہیں کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کو نشانہ بنایا کا کہنا تھا کہ عطا اللہ تارڑ دہشت گردوں کے کہا کہ بھارت اللہ تارڑ نے نے کہا کہ بھارت نے بھارت کے کے خلاف
پڑھیں:
چین: تمام تر حکومتی سہولیات کے باوجود چینی مزید بچے پیدا کرنے کو تیار نہیں، کیوں؟
چین کی معیشت اس وقت مختلف پیچیدہ چیلنجز سے دوچار ہے، جن میں سب سے سنگین آبادی میں کمی کا بحران ہے۔ 2025 میں تیسری مرتبہ مسلسل آبادی میں کمی ریکارڈ کی گئی، جس نے حکومت کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے آبادی کے اس گرتے رجحان کو ’قومی سلامتی کا مسئلہ‘ قرار دیا ہے۔
تازہ اعداد و شمار تشویشناکجنوری 2025 میں جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال کے دوران چین کی آبادی میں 13 لاکھ 90 ہزار افراد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ چین میں شادیوں کی شرح بھی تاریخی حد تک کم ہو چکی ہے، اور ریٹائرمنٹ کی عمر بتدریج بڑھائی جا رہی ہے تاکہ کام کرنے والی آبادی کو برقرار رکھا جا سکے۔
پالیسیوں کا بوجھ، عوام کی بے بسیچین کی سابق ایک بچے کی پالیسی (1979–2015) کا خمیازہ آج کی نسل کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ پالیسی اگرچہ اس وقت ضروری سمجھی گئی، مگر اس کے اثرات اب سامنے آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے چین کی آبادی میں 6 دہائیوں بعد پہلی بار کمی
2016 میں 2 بچوں کی اجازت دی گئی، اور 2021 میں 3 بچوں کی پالیسی کا اعلان ہوا، مگر نتائج مایوس کن رہے۔
کیوں نہیں بڑھ رہے بچے؟چینی عوام بچوں کی پیدائش سے گریزاں نظر آ رہے ہیں، جس کی چند بڑی وجوہات یہ ہیں:
تعلیم اور صحت کے اخراجات میں اضافہ۔
رہن سہن کے شعبے میں مہنگائی، خاص طور پر شہری علاقوں میں۔
کیریئر پر دباؤ اور کام کے طویل اوقات۔
رہائش کا بحران اور جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ۔
بچوں کی دیکھ بھال کے ناکافی انتظامات۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، 60 فیصد نوجوان خواتین کا کہنا ہے کہ بچوں کا خرچ برداشت سے باہر ہے جب کہ 45 فیصد مردوں نے کیریئر کی غیر یقینی صورتحالکو بنیادی وجہ قرار دیا۔
حکومتی اقداماتچینی حکومت نے آبادی بڑھانے کے لیے کئی مراعاتی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں، جیسے:
ٹیکس میں چھوٹ،
سرکاری ملازمین کے لیے زچگی/پدری چھٹی میں اضافہ،
نرسریوں اور ڈے کیئر مراکز کی تعمیر،
بچوں کی تعلیم پر سبسڈی،
شادی اور پیدائش کے لیے مالی مراعات۔
تاہم، ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک معاشی دباؤ اور سماجی ساخت میں بڑی تبدیلیاں نہیں آتیں، اس قسم کی اسکیمیں زیادہ دیر تک مؤثر ثابت نہیں ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں چین: بچہ پیدا کریں اور حکومت سے 1،500 ڈالر لے لیں، بیک ڈیٹ کی بھی سہولت
اقتصادی خدشاتچین کی آبادی کا بڑھاپے کی طرف تیزی سے بڑھنا، اس کے مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق، اگر چین میں ورک فورس کی کمی کا یہی رجحان رہا، تو 2035 تک سالانہ اقتصادی ترقی کی شرح 3 فیصد سے بھی نیچے آ سکتی ہے۔
معروف چینی ماہر اقتصادیات یانگ فنگ کہتے ہیں:
’چین کے پاس وقت کم ہے، اگر حکومت نے اب بھی مؤثر خاندانی معاونت فراہم نہ کی، تو آبادی کا یہ مسئلہ ایک مستقل بحران بن جائے گا۔‘
کیا چین بوڑھا ہونے سے پہلے امیر ہو پائے گا؟یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پالیسی ساز اور ماہر معاشیات کے ذہن میں ہے۔ اگر آبادی کی شرح پیدائش کو نہ روکا گیا، تو ممکن ہے چین اپنی صنعتی ترقی اور عالمی برتری کو برقرار نہ رکھ سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چین کی آبادی میں کمی