بھارت کا بڑا نقصان، کئی بڑے ہوائی اڈے بند، فلائٹ آپریشنز معطل
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
بھارتی افواج کی جانب سے رات کی تاریکی میں آزاد کشمیر اور پنجاب کے مختلف علاقوں پر بلااشتعال حملوں کے بعد پاک فوج نے بھرپور اور فیصلہ کن جواب دیا، جس کے بعد بھارت کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔
بھارتی حملوں میں کوٹلی، مظفرآباد، باغ، مریدکے اور احمد پور شرقیہ کے شہری علاقے نشانہ بنے، جس میں 2 مساجد شہید، ایک بچی سمیت 26 پاکستانی شہید اور 36 زخمی ہوئے۔
پاک فوج نے جوابی کارروائی میں بھارتی فضائیہ کے 6 طیارے (تین رافیل، ایک سکوئی، ایک مگ 29، ایک ڈرون) مار گرائے اور بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو بھی تباہ کر دیا۔
جوابی کارروائی کے بعد بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سفید جھنڈا لہرا کر پسپائی اختیار کی۔ صورتحال کشیدہ ہونے کے بعد بھارت کے کئی بڑے ہوائی اڈوں پر فلائٹ آپریشن معطل کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ ائیرپورٹس میں دھرم شالہ، لیہہ، جموں، سری نگر، امرتسر، چندی گڑھ، راجکوٹ، بھج، جام نگر اور بیکانیر شامل ہیں۔ بھارتی ایئرلائنز نے سوشل میڈیا پر پروازوں کی منسوخی کا اعلان کیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے بعد
پڑھیں:
امریکی ریاست ’ہوائی‘ میں جہاز سے لاکھوں مچھر کیوں چھوڑے جا رہے ہیں؟
ہوائی(نیوز ڈیسک)ہوائی کے جنگلات میں حالیہ دنوں میں ڈرون کے ذریعے ہزاروں مچھر گرائے جا رہے ہیں۔ لیکن مچھر چھوڑنا یہاں تباہی نہیں بلکہ تحفظ کی علامت ہے اور یہ فطرت کو بچانے کی ایک جدید کوشش ہے۔
یہ کوئی خطرناک یا خوفناک تجربہ نہیں بلکہ ایک اہم سائنسی مہم ہے جس کا مقصد وہاں کی خوبصورت نایاب پرندوں کی نسل کو بچانا ہے۔
ہوائی کی جنت نظیر وادیوں میں رنگ برنگے گیت گانے والے پرندے ہنی کریپرز (Honeycreepers) تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ان کی نسل کو سب سے بڑا خطرہ ایویئن ملیریا (avian malaria) سے ہے، جو ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔
بنیادی طور پر یہ مچھر دراصل ہوائی کے قدرتی ماحول کا حصہ نہیں بلکہ 1826 میں ایک جہاز کے ذریعے یہاں آ پہنچے تھے اور پھر گرم اور مرطوب موسم میں تیزی سے پھیل گئے اور بڑھنے لگے۔
سائنسدانوں نے ایک انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔ لیبارٹری میں تیار کیے گئے ایسے نر مچھر جو نہ کاٹ سکتے ہیں اور نہ ہی افزائش نسل میں کامیاب ہوتے ہیں، انہیں ڈرونز کے ذریعے ان علاقوں میں چھوڑا جا رہا ہے جہاں ہنی کریپرز رہتے ہیں۔
یہ نر مچھر خاص بیکٹیریا سے متاثر ہوتے ہیں جو مچھر کی تولیدی صلاحیت میں خلل ڈال دیتا ہے۔ جب یہ مچھر قدرتی مادہ مچھروں کے ساتھ جفت گیری کرتے ہیں، تو ان کے انڈے بارآور نہیں ہو پاتے۔
اس طرح وقت کے ساتھ کاٹنے والے مچھروں کی تعداد کم ہو جاتی ہے، اور پرندوں کو ملیریا سے بچایا جا سکتا ہے۔
یہ مہم ”برڈز، ناٹ موسکیٹوز“ (Birds, Not Mosquitoes) نامی تنظیم چلا رہی ہے، جو ہوائی کے نایاب پرندوں کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے آغاز سے اب تک (نومبر 2023 سے)، ماؤئی اور کاؤآئی کے جنگلات میں 4 کروڑ سے زائد نر مچھر چھوڑے جا چکے ہیں۔
کرس فارمر، جو امریکن برڈ کنزرویسی سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہےکہ، “یہ ایک نظر نہ آنے والی رکاوٹ کی طرح کام کرتا ہے، جو مچھروں کو ان جنگلات تک پہنچنے سے روکتی ہے جہاں یہ نایاب پرندے رہتے ہیں۔
اگر ہم نے ان مچھروں کی آبادی میں خاطر خواہ کمی نہ کی، تو باقی بچے ہوئے 17 میں سے بھی کئی اقسام ہمیشہ کے لیے ناپید ہو جائیں گی۔“
فی الحال، سائنسدان اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ طریقہ کب اور کیسے مکمل اثر دکھائے گا۔ مگر امید ہے کہ اگر مچھروں کی آبادی مسلسل کم ہوتی گئی تو ہوائی کے یہ نایاب پرندے ایک بار پھر چہچہانے لگیں گے۔
یہ سائنسی حکمتِ عملی ماحول دوست، قدرتی اور بغیر کسی دوا یا زہریلے مواد کے کام کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ طریقہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی استعمال ہو، جہاں مچھر بیماریوں کی بڑی وجہ ہیں۔
مزیدپڑھیں:ائیر شو کے دورے پر فرانسیسی وزیر اعظم رافیل طیارے میں پھنس گئے