بھارتی جارحیت کے بعد سائبر حملوں کا خدشہ، ریڈ الرٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک: نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے بھارتی جارحیت کے بعد ملک میں سائبرحملوں کے پیش نظر اہم ایڈوائزری جاری کر دی۔
نیشنل سائبرایمرجنسی رسپانس ٹیم کی جانب سے جاری ایڈوائزری کے مطابق سائبر حملوں کا مقصد پاکستان کے اہم نیٹ ورکس کو متاثرکرنا ہے، دشمن عناصر موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سائبر حملوں میں غلط معلومات پھیلا رہےہیں۔
ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ یہ عناصر فریب پر مبنی پیغامات، فشنگ اسکیمز اور جھوٹی کہانیوں سے عوام کوگمراہ کر رہے ہیں۔
میچ کے دوران بولر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا
نیشنل سائبرایمرجنسی رسپانس ٹیم کی ایڈوائزری میں سوشل میڈیا پرپاکستان پر سائبرحملوں سے متعلق غیر مصدقہ معلومات یا افواہیں ہرگز شیئرنہ کرنےکی تجویز دی گئی ہے، ساتھ ہی صارفین کو مشتبہ لنکس پر کلک نہ کرنے، غیر مصدقہ پیغامات، ای میلز یا سوشل میڈیا لنکس نہ کھولنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم ایڈوائزری کے مطابق دشمن عناصر غیریقینی صورتحال پیدا کرنےکی کوشش کرتے ہیں لہٰذا صرف مستند ذرائع سے معلومات حاصل کریں، صرف سرکاری یا ایمرجنسی ذرائع سے اپ ڈیٹس لیں اور واٹس ایپ یا سوشل میڈیا پر آنے والی افواہوں پر یقین نہ کریں۔
سندرفائرنگ؛ 2 افراد زخمی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: رسپانس ٹیم
پڑھیں:
ڈیجیٹل ڈیپریشن اور سوشل میڈیا پر مقابلے کا رجحان
آج کے جدید دور میں جہاں زندگی کے بیشتر پہلو ڈیجیٹل ہوچکے ہیں، وہاں انسانی ذہن اورکیفیات بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کا وجود بظاہر ہمیں ایک دوسرے سے جوڑنے کا ذریعہ نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ ہمیں آہستہ آہستہ اندر سے توڑ رہا ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہر لمحہ بدلتی تصاویر، کامیاب زندگیوں کی جھلک اور مستقل موجودگی کی طلب، لاشعوری طور پر ایک ایسی نفسیاتی الجھن پیدا کردیتی ہے، جو غیر محسوس ہوتی ہے، لیکن جذباتی طور پر تھکا دیتی ہے۔ اس تھکن کو ڈیجیٹل ڈپریشن کا نام دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل ڈیپریشن میں مبتلا ہو کر فرد سوشل میڈیا پر دیکھے جانے والے مثالی زندگیوں اور اپنے روزمرہ معمولات کے درمیان فرق سے خود کوکمتر، ناکام اور بے معنی محسوس کرنے لگتا ہے۔
ہر پوسٹ، ہر تصویر، ہرکامیابی کا اعلان کسی نہ کسی طور پر مقابلے کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ یہ مقابلہ براہ راست نہیں ہوتا، مگر دل و دماغ میں ایک خاموش، مسلسل چبھن کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ نوجوان نسل بلا سوچے سمجھے مقابلے کی اس دوڑ میں شامل ہو جاتی ہے۔ ایک نفسیاتی تجزیہ نگار کے مطابق:’’ جب موازنہ مستقل ہو، تو روح بے چین ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا نے روزمرہ زندگی کو خوبصورتی کے مقابلے، کامیابی کی دوڑ اور مقبولیت کی جنگ میں بدل دیا ہے۔‘‘ مقابلے کی یہ دوڑ نوجوان نسل کی نفسیات پر حاوی ہو چکی ہے۔ وہ اس دور میں شریک ہو کر کئی کئی گھنٹے اپنے وقت کا ضیایع کرتے رہتے ہیں۔
اکثر نوجوان، خاص طور پر 16 سے 30 سال کے درمیان کی عمر کے افراد، اس نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک عام دن میں جب وہ انسٹا گرام یا فیس بک کی طلسماتی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو درجنوں ایسی تصویریں، پوسٹس اور وڈیوز ان کے سامنے آتی ہیں، جن میں خوشی،کامیابی اور خوبصورتی کو نمائش کی حد تک دکھایا جاتا ہے، جب کہ یہ تصاویر حقیقت کے قریب نہیں ہوتیں، بلکہ فلٹرز، زاویوں اور ایڈیٹنگ کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں، مگر دیکھنے والے کے دل میں یہ خیال ضرور جنم لیتا ہے کہ ’’ میں اس قدر خوش کیوں نہیں ہوں؟‘‘ یا ’’میری زندگی اتنی کامیاب کیوں نہیں ہے؟‘‘ایک مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سارہ لیوس کا کہنا ہے:
''People are no longer comparing themselves to who they were yesterday, but to the idealized versions of others that do not even exist in real life.''
(ترجمہ: ’’ لوگ اب خود کو اپنے کل سے نہیں بلکہ دوسروں کی ایسی مثالی تصاویر سے موازنہ کر رہے ہیں جو حقیقی زندگی میں وجود ہی نہیں رکھتیں۔‘‘)
یہ صورتحال نہ صرف جذباتی تھکن کا باعث بنتی ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی اس کیفیت کے اثرات دکھائی دیتے ہیں، جو اکثر نیند کی کمی، سستی، بے چینی اور جسمانی درد جیسی علامات کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب فرد مستقل طور پر فون یا کمپیوٹر کی اسکرین سے جُڑا رہتا ہے اور اس کا ذہن ہر وقت موازنہ، حسرت اور بیزاری کے کرب سے گزرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق، مسلسل اسکرین پر رہنے سے دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں، جو خوشی اور تسکین کو پیدا کرتے ہیں اور یوں ڈپریشن کی علامتیں بتدریج گہری ہوتی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر مقابلے کا کلچر ایک خاموش زہرکی مانند ہے۔ انسان خود کو مسلسل ایک دوڑ میں بھاگتے محسوس کرتا ہے جہاں ہر کوئی بہتر نظر آنا چاہتا ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ بہتر کس کے مقابلے میں؟ اور کس کے لیے؟ ہم نہ صرف دوسروں کی تصویروں کو دیکھ کر خود کو کمتر سمجھتے ہیں، بلکہ اپنی زندگی کو بھی انھی پیمانوں سے جانچنے لگتے ہیں جنھیں سوشل میڈیا نے وضع کیا ہے۔ جیسے مہنگی چھٹیاں، لگژری اشیاء، رومانوی تعلقات کی خوش کن جھلکیاں یا جسمانی خوبصورتی کا غیر حقیقی معیار نظر آتا ہے۔
دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کا استعمال مکمل طور پر منفی نہیں ہے۔ یہ معلومات فراہم کرنے کا موثر ذریعہ بھی ہے، تخلیق کا پلیٹ فارم بھی اور رابطوں کا وسیلہ بھی۔ لیکن جب اس کا استعمال اعتدال سے باہر ہو جائے، تب یہ نقصان دہ ہو جاتا ہے۔ جو نوجوان ہر وقت دوسروں کی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں جس کی منزل ہی نہیں۔
اس کیفیت سے نکلنے کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنا سیکھیں، نہ کہ دوسروں کی فلٹر شدہ دنیا سے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ نظر آتا ہے، وہ مکمل سچ نہیں ہوتا۔ ہر شخص کی زندگی میں دکھ، ناکامی اور کمزور لمحے ہوتے ہیں، مگر وہ دکھ پوسٹ نہیں کیے جاتے۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسروں کی کامیابیوں سے متاثر ہونے کے بجائے، ان سے سیکھا جائے، لیکن اپنا راستہ خود چُنا جائے۔
اندھی تقلید بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے۔اس سے جتنا دور رہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ایک اور پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ خاندان، اسکول اور سماجی اداروں کا کردار ہے۔ نوجوانوں کو ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں ان کی خودی، تخلیق اور جذبات کی قدر ہو۔ جہاں انھیں یہ سکھایا جائے کہ خوشی اندر سے آتی ہے اورکامیابی کا مطلب صرف شہرت یا پیسہ نہیں ہوتا۔ ذہنی صحت کی تعلیم، خود آگاہی اور ڈیجیٹل اعتدال پر مبنی تربیت اس دور کی اشد ضرورت ہے۔سوشل میڈیا کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ہمیں جذباتی پختگی، خود اعتمادی اور حقیقت پسندی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ اپنے دل کی سُنیں، اپنی محنت پر یقین رکھیں اور اسکرین پر دکھنے والی دنیا کو محض ایک جھلک سمجھیں، مکمل حقیقت نہیں۔
ڈیجیٹل ڈیپریشن اور سوشل میڈیا پر مقابلے کا بڑھتا رجحان دراصل انسان کے فطری جذبات سے ٹکرا رہا ہے۔ ہمیں اس ٹکراؤ کو پہچاننا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ صرف تب ہی ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کر سکیں گے جہاں اسکرین کے پیچھے بھی ایک مطمئن، خوش اور حقیقی انسان موجود ہو، جو مقابلے کی دوڑ سے آزاد ہو کر اپنی ذات میں واپس لوٹ چکا ہو۔