اقتصادی تعاون سے عالمی اعتماد کی بحالی
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان 60 سالہ شراکت داری ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف سیاسی اور ثقافتی سطح پر مضبوط ہیں بلکہ اقتصادی میدان میں بھی دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا ہے۔ اس تسلسل میں 14 اور 15 مئی 2025 ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والا یورپی یونین ،پاکستان اعلیٰ سطحی کاروباری فورم (EU-PKBF) ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ اس فورم کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرناسرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔یہ فورم یورپی یونین، اس کے رکن ممالک اور حکومت پاکستان کے تعاون سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد اعلیٰ سطحی مکالمے کو فروغ دینا، شراکت داریوں کو مستحکم بنانا اور دونوں خطوں میں کاروباری مواقع کو اجاگر کرنا ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اس تقریب کا افتتاح کریں گے۔پاکستان کی جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت یورپی مارکیٹ تک ترجیحی رسائی اور عالمی توسیع کے لئے ایک اسٹریٹجک مرکز کے طور پر کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ تقریب اعلیٰ سطحی نیٹ ورکنگ، سرمایہ کاری کے مظاہروں اور سیاسی رہنماؤں، نجی شعبے کے نمائندوں اور یورپی مالیاتی اداروں کے ساتھ براہِ راست تبادلہ خیال کے لئے ایک منفرد موقع فراہم کرے گی۔جی ایس پی پلس سے ہٹ کر، اس فورم میں EU Global Gateway اسٹریٹجی اور یورپی فنڈ برائے پائیدار ترقی پلس (EFSD+) کو سرمایہ کاروں کے لئے اہم وسائل کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ یہ دونوں اقدامات یورپی یونین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے اہم ہیں اور پاکستان کے لئے بھی ایک سنہری موقع فراہم کرتے ہیں۔اس فورم کے دوران EU-پاکستان بزنس نیٹ ورک کا باقاعدہ آغاز بھی کیا جائے گا جو یورپی کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک ہوگا جو پاکستان میں سرگرم ہیں۔ یہ نیٹ ورک موجودہ اور ممکنہ یورپی کمپنیوں کے درمیان تبادلے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا اور EU-پاکستان کاروباری تعاون کو مزید مضبوط بنائے گا۔
پاکستان جو دنیا کا چوتھا سب سے بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے، ٹیکسٹائل برآمدات بالخصوص مصنوعی ٹیکسٹائل اور ریڈی میڈ گارمنٹس میں بے پناہ مواقع رکھتا ہے۔ یورپی یونین کاربن کریڈٹس کی بڑی منڈی ہے، اس لئے ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں باہمی تعاون کی بڑی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں فریقین کے درمیان فارماسیوٹیکل انڈسٹری (بالخصوص ویکسین سازی)، ڈیری فارمنگ، زرعی کاشتکاری، اور چمڑے کی صنعت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کو بھی دریافت کیا جا سکتا ہے۔یورپی یونین-پاکستان اعلیٰ سطحی کاروباری فورم دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ایک اہم قدم ہے۔ اس فورم کے ذریعے نہ صرف تجارتی تعلقات کو فروغ ملے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور سیاسی تعلقات میں بھی مزید بہتری آئے گی۔ پاکستان کے لئے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرے اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے۔یورپی مالیاتی ادارے جن میں یورپی انویسٹمنٹ بینک، یورپی ترقیاتی فنڈ اور دیگر اہم ادارے شامل ہیں، اس فورم میں فعال شرکت کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی موجودگی اس امر کا ثبوت ہے کہ یورپی یونین پاکستان کو ایک ایسا شراکت دار سمجھتا ہے جو نہ صرف علاقائی تجارت میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ عالمی معاشی نظام میں بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ فورم میں ہونے والی سرمایہ کاری سے پاکستان میں نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی، مہارت کی تربیت اور برآمدات میں بھی نمایاں بہتری متوقع ہے۔
پاکستان کی جانب سے اس فورم میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو بھی شامل کیا جا رہا ہے، جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ قدم خاص طور پر قابلِ ستائش ہے کیونکہ چھوٹے کاروبار اکثر بین الاقوامی مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ EU-PKBF کے ذریعے انہیں بھی سرمایہ کاروں، پالیسی سازوں اور عالمی منڈی سے براہِ راست جڑنے کا موقع ملے گا۔پاکستان کے لئے ایک اور اہم موقع یہ ہے کہ وہ اپنی ماحولیاتی پالیسیوں اور گرین اکنامی کے تناظر میں یورپی یونین سے تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ یورپ ماحولیاتی استحکام اور کاربن نیوٹرل پالیسیوں میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے، اور پاکستان جیسے ملک کے لئے یہ سیکھنے اور ان سے سرمایہ حاصل کرنے کا سنہری موقع ہے۔ خاص طور پر جب پاکستان نے حالیہ سالوں میں شجرکاری، متبادل توانائی، اور ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں میں عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔یہ فورم دونوں حکومتوں کے لئے بھی ایک موقع ہے کہ وہ تجارتی رکاوٹوں، غیر ضروری ٹیکسوں، اور ضوابط پر کھلے دل سے بات کریں اور ایسی پالیسیوں پر اتفاق رائے پیدا کریں جو تجارت کو آسان، شفاف اور موثر بنائیں۔ خاص طور پر ڈیجیٹل تجارت، ای-کامرس اور برانڈڈ برآمدات جیسے موضوعات پر بھی غور کیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان اپنی مصنوعات کو یورپ کے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے۔علاوہ ازیں، تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے درمیان شراکت داریوں کا قیام بھی اس فورم کا ایک غیر رسمی مگر نہایت اہم پہلو ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستانی جامعات یورپی تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر صنعتی تحقیق، سٹارٹ اپس، اور انٹرپرینیورشپ پر کام کریں، تو نہ صرف مقامی صنعت کو فائدہ ہو گا بلکہ نئی نسل کے لئے عالمی سطح پر مواقع بھی پیدا ہوں گے۔یورپی یونین اور پاکستان کے درمیان یہ اعلیٰ سطحی فورم درحقیقت دوستی، اعتماد اور مشترکہ ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر اس موقع سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا گیا تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی برآمدات، معیشت، اور عالمی وقار میں غیرمعمولی اضافہ ممکن ہے۔ یہ فورم پاکستان کے لئے محض سرمایہ کاری کی تلاش کا ذریعہ نہیں بلکہ خود کو ایک سنجیدہ، پائیدار، اور پرعزم تجارتی شراکت دار کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک موقع ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کو مزید مستحکم پاکستان کے لئے یورپی یونین سرمایہ کاری کے لئے ایک اور عالمی تعلقات کو کے درمیان فورم میں برا مدات موقع ہے کے ساتھ کو فروغ اس فورم میں بھی سکتا ہے کا ایک
پڑھیں:
ایئرانڈیا تکنیکی خرابیوں اور انتظامی غفلت سے بحران کا شکار، پروازیں منسوخ، اعتماد ختم
عالمی سطح پر وسعت کے دعوے کرنے والی ایئر انڈیا اپنے اندرونی نظام کو درست کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں بھارتی فضائی کمپنی شدید بحران کا شکار ہے اور انتظامی غفلت کی وجہ سے اس پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہوگئے ہیں۔
ایئرانڈیا میں تکنیکی اور آپریشنل مسائل کے باعث فلائٹ منسوخی اور حادثات میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔
اے این آئی کے مطابق مرمت اور آپریشنل وجوہات کی بنا پر ایئر انڈیا کی کئی بین الاقوامی اور داخلی پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ پروازوں میں دبئی سے چنئی، دہلی سے میلبورن اور دبئی سے حیدرآباد کی پرواز منسوخ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پونے، احمد آباد، حیدرآباد اور چنئی سے دہلی اور ممبئی کی پروازیں بھی منسوخ ہیں۔ گزشتہ روز ایئر انڈیا کی جانب سے 3 بین الاقوامی پروازیں تکنیکی خرابیوں کے باعث منسوخ کی گئی تھیں۔
فلائٹس کی منسوخی کے حوالے سے کچھ دیر پہلے ہی اطلاع دینے پر مسافروں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پروازوں کی بارہا منسوخی اور طیاروں کی فنی خرابیاں ایئر انڈیا کی ناقص منصوبہ بندی اور غیر ذمہ دار انتظامی رویے کو بے نقاب کرتی ہیں۔
دیگر ایئر لائنز نے حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد فضائی روٹ میں تبدیلی کی صورتحال کو بہتر طریقے سے سنبھالا جب کہ ایئر انڈیا کی انتظامی خامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ ایئر انڈیا کی پرواز بوئنگ 787 کے حالیہ حادثے کے بعد طیاروں کےہنگامی معائنے کا مطلب تھا کہ انتظامی نظام پہلے سے ہی ناقص تھا جو کہ ایئر انڈیا کی ناکامی ہے ۔
اگر جہازوں کی تیاری میں سب کچھ ٹھیک تھا تو 7 طیارے کیوں گراؤنڈ کیے گئے؟۔ ایئر انڈیا کا انتظامی بحران سے نمٹنے میں سست رد عمل اور ناقص حکمت عملی نے ادارے پر عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا۔