عام سمجھدار بھارتی کو کسی عام پاکستانی سے نفرت نہیں ہوتی، انڈین سرمایہ کار
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
بھارتی سرمایہ کار بسنت مہیشواری نے کہا ہے کہ ایک عام سمجھدار بھارتی کو کسی عام پاکستانی سے نفرت نہیں ہوتی۔
بھارت کے نامور سرمایہ کار بسنت مہیشواری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا ’میری ٹائم لائن پر بہت سے پاکستانی لکھ رہے ہیں، لیکن میں اُنہیں پڑھ نہیں سکتا کیونکہ ان کے اکاؤنٹس یہاں بند کردیے گئے ہیں۔‘
There are many Pakistanis writing on my timeline but I can’t read them as their accounts are withheld here.
The average Indian with common sense doesn’t hate the average Pakistani. He hates terrorism & he hates innocent killings.
I am sure the average Pakistani thinks likewise.
— Basant Maheshwari (@BMTheEquityDesk) May 9, 2025
بھارتی سرمایہ کار نے لکھا کہ ایک عام سمجھدار بھارتی کو کسی عام پاکستانی سے نفرت نہیں ہوتی، وہ دہشتگردی اور بے گناہوں کے قتل سے نفرت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ایک عام پاکستانی کی سوچ بھی کچھ ایسی ہی ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بھارت پاکستان سرمایہ کار نفرتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان سرمایہ کار عام پاکستانی سرمایہ کار
پڑھیں:
مینوسفیئر کے ذریعے خواتین کے خلاف بڑھتی نفرت پر یو این ویمن کو تشویش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جون 2025ء) خواتین و لڑکیوں کے خلاف تعصب اور نفرت پر مبنی 'مینوسفیئر' کے نام سے بڑھتا ہوا آن لائن کمیونٹی نیٹ ورک صنفی مساوات کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے جو اب لوگوں کے طرزعمل، رویوں اور سرکاری پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہونے لگا ہے۔
خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' نے کہا ہے کہ دنیا میں 5.5 ارب لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان میں تقریباً تمام ہی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس نے لوگوں کے باہمی رابطوں میں مرکزی اہمیت اختیار کر لی ہے۔
تاہم سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم خواتین کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلانے کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ 'مونوسفیئر' کبھی انٹرنیٹ کے فورمز تک ہی محدود تھا لیکن اب یہ سکولوں، کام کی جگہوں اور بعض اوقات قریبی نجی تعلقات تک بھی پہنچ گیا ہے۔(جاری ہے)
یو این ویمن میں خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے سے متعلق شعبے کی سربراہ کیلییوپی مائنگیرو کا کہنا ہے کہ نوعمر مردوں اور لڑکوں میں اپنی خواتین ساتھیوں سے ملاقات، تندرستی اور بطور باپ طرزعمل اور ذمہ داریوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بااثر شخصیات (انفلوئنسر) کی پیروی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
خود کو مزید محفوظ بنانے کے لیے جوابات کی تلاش میں یہ لوگ ان آن لائن گروہوں سے 'طاقت' پاتے ہیں جو ایسے نقصان دہ رویوں کو فروغ دے رہے ہیں جس سے مردانگی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور خواتین کے خلاف تعصب کو تقویت ملتی ہے۔کیلییوپی مائنگیرو نے یو این نیوز کو بتایا کہ ایسی آن لائن جگہوں پر نوعمر مردوں اور لڑکوں کے عدم تحفظ اور توثیق کی خواہش و ضرورت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ایسے پیغامات پھیلائے جاتے ہیں جو معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کی حیثیت کے حوالے سے نہایت نامعقول ہوتے ہیں۔
ان میں خواتین کے خلاف تعصب اور نفرت کا اظہار ہوتا ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو غلط اور برا قرار دیا جاتا ہے۔مردوں کی صحت کے حوالے سے نمایاں تنظیم اور یو این ویمن کی شراکت دار 'موومبر فاؤنڈیشن' کے مطابق، دو تہائی نوعمر مرد انٹرنیٹ پر ایسی شخصیات سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جو مردانگی کی بات کرتی ہیں۔ اگرچہ کچھ آن لائن مواد سے مردوں اور لڑکوں کو حقیقی مدد بھی ملتی ہے لیکن بیشتر میں انتہاپسندانہ زبان اور جنس پرستانہ نظریات کو فروغ ملتا ہے اور اس تصور کو تقویت دی جاتی ہے کہ مرد نسائیت اور جدید سماجی تبدیلی کے متاثرین ہیں۔
خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مونوسفیئر میں شامل گروہ نسائیت کے استرداد اور خواتین کو سازشی یا خطرناک قرار دینے میں متحد ہیں۔
سوشل میڈیا کے الگورتھم بھی اشتعال انگیز اور تقسیم کا باعث بننے والے بیانیوں اور مواد کو تقویت دے رہے ہیں۔
جمہوریت کے لیے خطرہکیلییوپی مائنگیرو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر شناخت کو خفیہ رکھنے کی سہولت کے باعث جنس پرستی اور اظہار نفرت کو پھیلانا آسان ہو گیا ہے۔
بدسلوکی سے متاثرین کو ذہنی و جسمانی نقصان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے عمومی طور پر جمہوریت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں خواتین اور لڑکیاں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر خود کو لاحق خطرات کو لے کر پریشانی محسوس کرتی ہیں اور بہت سی خواتین صحافی اور سیاست دان ایسی جگہوں پر نہیں آتیں۔
انہوں ںے کہا ہے کہ یہ چیزیں پریشانی کو جنم دیتی ہیں اور مرد یا لڑکے بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔
ان حالات میں ایسی محفوظ آن لائن جگہیں بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر ایک کو نقصان دہ مواد سے محفوظ رہتے ہوئے رہنمائی مل سکے۔ثقافتی و سیاسی اثراتمونوسفیئر کے نقصان دہ بیانیے خفیہ آن لائن جگہوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ان کے اثرات وسیع تر ثقافت و سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے ذریعے صنفی بنیاد پر تشدد کو غیراہم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے خلاف تفریقی دقیانوسی تصورات کو تقویت ملتی ہے۔
بعض اوقات یہ تصورات دیگر طرح کے نظریات بشمول بنیاد پرستی، نسل پرستی اور غیرملکیوں سے نفرت کے ساتھ بھی متقاطع ہوتے ہیں۔ خواتین کے خلاف آن لائن دنیا میں نفرت اور تعصب بہت جلد آف لائن دنیا میں بھی پھیل جاتا ہے۔
کیلییوپی مائنگیرو کہتی ہیں کہ لوگوں پر فائرنگ کے بہت سے واقعات میں بیشتر ملزم ایسے ہی آن لائن پلیٹ فارم سے وابستہ تھے جو نفرت کو ہوا دیتے اور سبھی کی زندگیوں کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔
یہ گروہ یک آواز نہیں ہوتے لیکن سبھی نسائیت کو خطرناک چیز، خواتین کو سازشی اور مردوں کو سماجی تبدیلی کے متاثرین قرار دیتے ہیں۔ ان کے تصورات نوعمر مردوں اور لڑکوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور ایسے الگورتھم انہیں عام کر رہے ہیں جو سنسنی خیز اور شدت پسندانہ مواد کو پھیلاتے ہیں۔ مونوسفیئر کے بیانیے اب انٹرنیٹ کے کونوں کھدروں تک محدود نہیں رہے بلکہ لوگوں کی سوچ، ان کی رائے دہندگی اور دوسروں کے ساتھ طرزعمل پر بھی اثرانداز ہونے لگے ہیں۔
بیجنگ اعلامیے اور پلیٹ فارم فار ایکشن کو 30 سال مکمل ہونے پر یو این ویمن نے ٰخبردار کیا ہے کہ خواتین کے خلاف آن لائن تعصب اور نفرت سے صنفی مساوات کے لیے اب تک ہونے والی پیش رفت کو براہ راست خطرہ لاحق ہے۔
ادارہ اسی خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کے خلاف زہرآلود ڈیجیٹل ماحول سے نمٹنے کی کوششوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس حوالے سے کثیرجہتی طریقہ کار درج ذیل اقدامات کا احاطہ کرتے ہیں:
آن لائن اظہار نفرت کے پھیلاؤ اور اثرات پر تحقیق اور مواد کی تیاری۔ڈیجیٹل تحفظ اور ضابطہ کاری کے لیے پالیسی سازی۔آن لائن بدسلوکی کے متاثرین کی مدد۔نفرت انگیز مردانگی سے نمٹںے کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات۔ڈیجیٹل استحکام اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں پر مبنی پروگراموں کی تیاری۔میڈیا سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مزید فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ۔تعلیم کے ذریعے روک تھامکیلییوپی مائنگیرو نے کہا ہے کہ بالآخر تعلیم ہی خواتین سے نفرت کے تصور کی بنیاد کو ختم کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔
بچوں اور نوعمر افراد سے صنفی مساوات، صحت مند تعلقات اور ڈیجیٹل طرزعمل کے بارے میں بات کرنا بہت ضروری ہے اور اس طرح نقصان دہ رویوں کو جڑ پکڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد محض لڑکیوں کو تحفظ دینا نہیں بلکہ اس کا تعلق ایسی دنیا کی تعمیر سے ہے جہاں تمام لڑکے اور لڑکیاں نقصان دہ صنفی توقعات کے دباؤ سے آزاد ہو کر یکساں طور سے آگے بڑھ سکیں۔