مصطفی کامل پاشا، ایک قوم پرست مسلم رہنما
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
قوم پرستی کی بہت ساری جہتیں ہیں ،ہر جہت کی اپنی ایک تعریف ہے تاہم اس کی ایک اہم جہت ایک ایسا مثبت جذبہ ہے جو کسی فرد کے اندر اپنی قوم کی ترقی و خوشحالی اور خودمختاری و شناخت کی روح کو بیدار کرے۔ یہ وہ شخص ہوتاہے جو اپنی مٹتی ہوئی اقدارو روایات کی پاسبانی کے فرائض کی خاطر قربانی پر خود کو آمادہ کرتا ہے۔ وہ اپنی قوم میں آزادی ،خودمختاری پر منڈلانے والے بیرونی مداخلت کے اثرات کو اپنی حمیت کے لئے ایک چیلنج گردانتا ہے ۔
مصر ایک ایسا خطہ ہے جسے ان چیلنجز کا شدید سامنا رہا ہے ۔جن کے خلاف لڑنے والوں میں ایک نام مصطفی کامل پاشاکا ہےجو ایک صحافی ، وکیل اور نامور خطیب تھے ۔ جنہوں نے خلافت عثمانیہ اور مصر کی آزادی کی جدوجہد میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔فرانس سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہاں کی انقلابی تحریکوں نے ان کے اندر ان کے ملک مصرکو برطانوی نو آبادیات بنانے کے خلاف مزاحمت جاگی۔
برطانوی استعمار نے 1882 ء میں مصر کو اپنی کالونی بنایا تھا۔ مصطفی کامل کی عمر تقریباً آٹھ سال تھی ۔ان کے دل میں اسی عمر میں برطانیہ کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی اور اپنی عمر کے پچیسویں سال یعنی 1900ء میں انہوں نے ’’اللوا‘‘(Al-Liwa) کے نام سے ایک اخبار جاری کیا،جس میں انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے برطانوی استعمار کے خلاف محاذ گرم کیا اور مصر کی آزادی و خودمختاری کے لئے مغربی ممالک اور خلافت عثمانیہ کو اپنا ہمنوا بنانےکی جدوجہد کی۔اس کے ساتھ ساتھ نوجوان طبقے میں آزادی کی چنگاری کو ہوا دی۔برطانیہ نے مصطفی کامل پاشا پر جبر و تشدد کے پہاڑ ڈھادیئے ، نوجوان قوم پرست رہنما کو عقوبت خانوں میں ڈالا ، ان کے اخبار پر قدغن لگائی اور ان سے اظہار رائے چھیننے کی تمام تر کوششیں بروئے کارلائی گئیں ۔ انہیں جلسے جلوسوں سے روکا گیا ان کی سیاسی سرگرمیوں کے سامنے وحشت و بربریت کی دیواریں کھڑی کی گئیں اور مصر کے ان لوگوں کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا جنہیں اپنے ذاتی مفادات کے سوا کچھ عزیز نہیں تھا۔
مصر کے نام نہادحکمران جو استعمار کےجھنڈے تلے قوم پر جبری حکمرانی کا ڈھونگ رچائے ہوئے تھے انہوں نے آزادی کی تحریک کو دبانے میں کو ئی کسراٹھا نہ رکھی ۔تاہم جون 1906 ء میں مصر کے ایک گائوں ’’ڈنشاوی‘‘ میں پیش آنے والے ایک حادثے نے مصری قوم کے اندر استعمار کی نفرت کو بھڑکا دیا۔
مصر جو برطانیہ کی نوآبادیاتی کالونی تھا، ڈنشاوی نامی گائوں میں کچھ برطانوی فوجی افسرشکار کے لئے گئے جہاں انہوں نے ان پرندوں کا بے دردی سے شکار کیا جو گائوں کے لوگوں کے لئے خوراک اور روزگار کا بڑا ذریعہ تھے ۔اس شکار کے خلاف مزاحمت کرنے پر برطانوی فوجی افسران نے فائر کھول دیئے جس کے نتیجے میں ایک کسان کی بیوی شدید زخمی ہوگئی(بعد ازاں مرگئی) اس پر گائوں کے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا اسی جھگڑے کے دوران ایک برطانوی افسر جہنم واصل ہوا، جسے برطانوی سامراجی حکومت نے بغاوت کا نام دیتے ہوئے گائوں کے افراد پر مقدمات درج کیے یہاں تک کہ چار افراد کو مصلوب کردیا گیا۔یہی نہیں عوام میں خوف وہراس پیدا کرنے کے لئے عوام کے سامنے سزائیں دی گئیں مگر عوام کا غصہ اب کسی طور،تھمنے والا نہیں تھا ۔قومی تحریک کے اندرنئی روح جاگ اٹھی ۔
مصطفی کامل پاشا نے اس حادثے کے تناظر میں قوم کی نفرت،کو ہوا دی ،لوگوں میں آزادی کے شعور کو جگایا،یوں مزاحمت کی آگ چاروں اور پھیل گئی۔ایک راسخ العقیدہ نابغ روزگار نوجوان مصطفی کامل پاشا جو 1874 ء میں پیدا ہوا اسے قدرت کی طرف سے لمبی زندگی عطا نہ ہوئی اور وہ 1908 ء میں صرف 34 سال کی عمر میں دار فانی سے رخصت ہو گیا،مگر ان کی جلائی ہوئی آزادی کی شمع نئی آب و تاب سے روشن رہی ۔ آزادی کی تحریکوں میں اور شدت پیدا ہوئی کامل پاشا کے افکار ونظریات نے مصری قوم کے اندر ایک ایسا جذبہ پیدا کیا کہ وہ برطانوی استعمار کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی اور آخر کار 1952 ء میں برطانوی استعمار کو مصر چھوڑنا پڑا ۔”
’’تخلیہ مصر‘‘ کی تحریک جو اس موقف پر برپاہوئی تھی کہ برطانوی افواج مصر کو مکمل طور پر آزاد کریں ’’وفد پارٹی‘‘ اور دیگر قوم پرست پارٹیوں نے بھی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کردیا۔مصر کے صدر جمال عبدالناصر،نے بھی برطانوی افواج کے مکمل نکالے جانے پر زور دیا، 1954 ء میں مصر مکمل طور پر آزاد ہوا اور 1956 ء میں نہر سویز بھی مصر کے قبضے میں آگئی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: برطانوی استعمار مصطفی کامل پاشا آزادی کی کے اندر مصر کے
پڑھیں:
بھارت میں 67 علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم
بھارت اپنی نام نہاد جمہوریت کے دعوے کے باوجود درحقیقت ایک ایسے نظام کا شکار ہے جو ٹوٹ پھوٹ، استحصال اور ظلم و جبر پر قائم ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس وقت 67 آزادی اور علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں جو بھارتی حکومت کی ناانصافی، اقلیتوں کے استحصال اور جبری قبضے کے خلاف عوامی ردعمل کی نمائندہ ہیں۔
ناگالینڈ، منی پور، آسام اور دیگر ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں شدت اختیار کر چکی ہیں، جنہیں مودی حکومت طاقت کے استعمال اور غیر قانونی پابندیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ خاص طور پر نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (این ایس سی این)، جو ناگا عوام کی بھارتی فوجی جبر، مذہبی استحصال اور ثقافتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی نمائندہ تنظیم ہے، پر بھارتی وزارت داخلہ نے مزید پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔
یہ پابندی ناگا عوام کی آواز دبانے اور آزادی کے مطالبے کو کچلنے کی مودی حکومت کی مذموم کوشش ہے۔ حکومت اپنی جبر کی پالیسی کو جائز ٹھہرانے کے لیے عوامی آواز کو دہشتگردی سے جوڑنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
مودی حکومت اپنے مذموم عزائم کی تکمیل اور اقتدار پر قابض رہنے کے لیے اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر رہی ہے، جو بھارت کے نام نہاد جمہوری نقاب کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔
نام نہاد جمہوریت کے پردے میں ظلم و بربریت ،بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب
بھارت نام نہاد جمہوریت کا دعویدار مگر درحقیقت پورا نظام ٹوٹ پھوٹ اور استحصال کا شکار
بھارت میں اس وقت 67 آزادی اور علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم
ناگالینڈ، منی پور، آسام اور دیگر ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں… pic.twitter.com/zgv7DAMs0L