مشکل حالات میں ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کی اہمیت کیا ہے، انور مقصود
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
(ویب ڈیسک)معروف مصنف اور دانشور انور مقصود نے حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں قوم سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکل حالات میں ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کی اہمیت کیا ہے، اور آج 25 کروڑ پاکستانی سپاہی بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ہتھیار نہیں، لیکن ان کا قلم ہی ان کا اصل ہتھیار ہے، اور وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ اپنے وطن کے لیے کریں گے۔
انور مقصود نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ شروع کرنا آسان جبکہ ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حالات مزید نہ بگڑیں۔
مری میں ’’پاک فوج زندہ باد ‘‘ ریلی
انہوں نے بھارت کے پانچ طیارے گرنے پر خوشی کے بجائے معصوم پاکستانیوں کی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ حالات بدل چکے ہیں، اور اب کسی بھی ملک کو جنگ کی طرف نہیں جانا چاہیے،سب کو ملک کی ترقی کے لیے متحد ہو کر حکومت اور فوج کی رہنمائی میں آگے بڑھنا ہوگا۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
گاؤں یو چھون کی بیس سالہ تبدیلیاں: “دو پہاڑوں” کے تصور کی چینی دانش مندی اور عالمی اہمیت
گاؤں یو چھون کی بیس سالہ تبدیلیاں: “دو پہاڑوں” کے تصور کی چینی دانش مندی اور عالمی اہمیت WhatsAppFacebookTwitter 0 7 August, 2025 سب نیوز
بیجنگ : 15 اگست 2005 کو جب شی جن پھنگ نے صوبہ ژی جیانگ کے یو چھون گاؤں کا دورہ کیا تو انہوں نے پہلی بار “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کا تصور پیش کیا۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران ، یہ تصور ماحولیاتی تہذیب کے بیج کی طرح چین کی سرزمین پر جڑ پکڑ چکا ہے اور ابھرا ہے ، جس نے معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے مابین ہم آہنگی کا ایک نیا راستہ تخلیق کیا ہے۔
یو چھون میں “پہاڑوں پر کان کنی ” سے لے کر “ماحولیاتی ترقی” میں تبدیلی کا یہ سفر نہ صرف چین کی سبز ترقی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، بلکہ چین کی سبز ترقی کی گہری دانش مندی کو بھی اجاگر کرتا ہے اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر حوالہ فراہم کرتا ہے.یوچھون کی ترقی کے سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ، ہم واضح طور پر “دو پہاڑوں” کے تصور کی عملی منطق دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلی صدی کی اسی اور نوے کی دہائیوں کے دوران ، یوچھون نے چونے کے پتھر کی کان کنی اور سیمنٹ فیکٹریاں قائم کرکے تیزی سے معاشی ترقی حاصل کی ، لیکن ماحول کو نقصان پہنچانے والے اس ترقیاتی ماڈل نے بھاری قیمت ادا کی: پہاڑ بے نقاب ہوگئےاور ان کی ساخت خراب ہو گئی ،
دریا کیچڑ بن گئے اور ہر جانب دھول پھیل گئی۔ 2005 میں “دو پہاڑوں” کے تصور نے ترقیاتی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی۔ کانوں کو بند کرنے، ماحولیات کی بحالی، دیہی سیاحت اور خصوصی زراعت کو فروغ دینے کے بعد، یوچھون نے دس سال سے زیادہ عرصے میں ” گرے ڈیولپمنٹ ” سے ” سبز ترقی ” کی طرف ایک شاندار تبدیلی کی تشکیل کی ہے۔ تبدیلی سے پہلے کے مقابلے میں گاؤں والوں کی فی کس آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور ماحولیاتی خوبصورتی، صنعتی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی سب ایک ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
یو چھون کی کہانی دنیا کو بتاتی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ ترقی کے لئے “بوجھ” نہیں ہے، بلکہ پائیدار ترقی کے لئے ایک “سرمایہ” ہے. اس ترقیاتی ماڈل پر پورے چین میں عمل کیا جا رہا ہے: سیہانبا کو صحرا سے جنگلات میں تبدیل کرنا، دریائے لی جیانگ کی “بے ترتیب ترقی” سے “خوبصورتی ” کا دوبارہ جنم لینا، اور چھنگ ہائی میں تین دریاؤں کے منبع کو “حد سے زیادہ چرانے” سے “ماحولیاتی انتظام” میں تبدیل کرنا وغیرہ ، ایک کے بعد ایک واضح اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ “دو پہاڑوں” کا تصور نہ صرف ایک گاؤں کی تقدیر کو تبدیل کر سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، بلکہ چین کے ترقیاتی نمونے کو بھی نئی شکل دیتا ہے، معاشی اور معاشرتی ترقی کی جامع سبز تبدیلی کو فروغ دیتا ہے، اور ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے میں چین کے ٹھوس اقدامات کا ماخذ بن سکتا ہے.اس سال ” سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں”کے تصور کی 20 ویں سالگرہ ہے۔
گزشتہ ہفتے بیجنگ میں اس تصور کی عالمی اہمیت کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم میں بہت سے ممالک کے نمائندوں نے نشاندہی کی کہ ” دو پہاڑوں ” کا تصور چینی بھی ہے اور عالمی بھی، اور یہ تصور عالمی حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل کے حل اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے چینی دانش مندی اور چینی حل فراہم کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں چین کے “دو پہاڑوں” کے تصور کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعریف کرتے ہیں، ان کا مانناہے کہ چین کا تجربہ عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر مثال فراہم کرتا ہے.”دو پہاڑوں” کے تصور کے ذریعہ پیش کردہ ماحولیاتی ترجیح اور سبز ترقی کا راستہ مغربی صنعتی ماڈل سے برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ماحول کی قیمت پر “پہلے آلودگی اور پھر علاج” سے مختلف ہے، اور یہ تجریدی ماحولیاتی نظریے سے بھی مختلف ہے جو ترقی سے الگ ہے، بلکہ معاشی اور معاشرتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان اتحاد اور توازن فراہم کرتا ہے. جیسا کہ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجیکل سولائزیشن کے ایگزیکٹو نائب صدر اینڈریو شوارٹز نے کہا: “چین ماحولیاتی تہذیب کی طرف عالمی تبدیلی کو فروغ دینے کی راہ پر ایک رہنما بن رہا ہے۔
چین نے ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے تمام شعبوں میں “دو پہاڑوں ” کے تصور کو ضم کیا ہے ، جو ترقیاتی ماڈل کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد متبادل حل فراہم کرتا ہے۔ ایسی قیادت بروقت، دور اندیش اور متاثر کن ہے۔ “دریائے یانگسی کی اقتصادی پٹی سے لے کر دریائے زرد کے طاس کے ماحولیاتی تحفظ اور اعلی معیار کی ترقی تک، ” کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل ” کے عزم سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز تک ، “دو پہاڑوں” کا تصور چین میں ایک مقامی عمل سے عالمی گورننس کی پبلک پروڈکٹ بن گیا ہے۔
بڑھتے ہوئے شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرتے ہوئے، انسانیت کو زیرو سم گیمز کی جغرافیائی سیاست کے بجائے “دو پہاڑوں” کے تصور جیسی دانش مند حکمت کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے اور ترقی کی سمت کی رہنمائی کر سکتی ہے. جب زیادہ سے زیادہ ممالک “صاف پانیوں اور سبز پہاڑوں” سے “سنہری پہاڑوں اور چاندی کے پہاڑوں” میں تبدیلی کا اپنا راستہ اپنائیں گے ، تو ایسے میں انسانیت واقعی ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے جہاں لوگ اور فطرت ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کی پاکستان کے تانبے میں دلچسپی، آفر آگئی امریکا کی پاکستان کے تانبے میں دلچسپی، آفر آگئی پاکستان پہلی بار متحدہ عرب امارات کو گوشت برآمد کرے گا، تاریخی معاہدہ طے پاگیا پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ہنڈرڈ انڈیکس بلند ترین سطح پر پہنچ گیا چین کی آزاد تجارتی بندرگاہ میں پاکستانی کاروباری شخصیت کے لئے بھرپور مواقع پاکستان کو خطے میں سب سے کم امریکی ٹیرف سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے ،عاطف اکرام شیخ زراعت شماری 2024: جدید ٹیکنالوجی اور شفافیت کے ساتھ 14 سال بعد تاریخی واپسیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم