اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 مئی 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو تانبے کی کمی کا سامنا ہے جس سے ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی رک سکتی ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے مربوط تجارتی و صنعتی حکمت عملی سے کام لینا ہو گا۔

عالمگیر تجارتی صورتحال پر اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی جانب سے رواں ہفتے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی معیشت تیزی سے ڈیجیٹل صورت اختیار کر رہی ہے اور ان حالات میں تانبے کو سٹریٹیجک اہمیت کے نئے خام مال کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

Tweet URL

تانبے کی رسد کے مقابلے میں اس کی طلب بڑھتی جا رہی ہے جس میں 2040 تک 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

حسب ضرورت تانبا دستیاب نہ ہونے کی صورت میں میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور سولر پینل سے لے کر مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے اور سمارٹ گرڈ تک کئی طرح کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی راہ پر رکاوٹیں پیش آئیں گی۔قیمتی دھات

'انکٹاڈ' میں بین الاقوامی تجارت و اشیا کے شعبے کی ڈائریکٹر لَز ماریا ڈی لا مورا نے کہا ہے کہ تانبا محض کوئی شے یا جنس نہیں ہے۔

یہ گھروں، کاروں، ڈیٹا مراکز اور قابل تجدید توانائی کے نظام سمیت بہت سی جگہوں پر استعمال ہوتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی ایصالیت اور پائیداری کے باعث اس کا بجلی پیدا کرنے کے نظام اور ماحول دوست توانائی کی ٹیکنالوجی میں اہم کردار ہے۔

تاہم، ادارے نے بتایا ہے کہ تانبے کی نئی کانیں کھودنے کا عمل سست رو اور مہنگا ہوتا ہے جس میں کئی طرح کے ماحولیاتی خدشات بھی ہوتے ہیں۔

کسی جگہ تانبے کی دریافت اور وہاں سے یہ دھات نکالنے میں 25 سال تک عرصہ لگ سکتا ہے۔

تانبے کی 2030 تک متوقع طلب کو پورا کرنے کے لیے اس شعبے میں 250 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنا ہو گی اور کان کنی کے کم از کم 80 نئے منصوبے درکار ہوں گے۔

غیرمساوی فوائد

دنیا میں تانبے کے نصف سے زیادہ معلوم ذرائع پانچ ممالک میں پائے جاتے ہیں جن میں چلی، آسٹریلیا، پیرو، جمہوریہ کانگو اور روس شامل ہیں۔

تاہم، خام تانبے کو قابل استعمال بنانے کا بیشتر کام دیگر ممالک میں ہوتا ہے جن میں چین سرفہرست ہے جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے خام تانبے کا 60 فیصد درآمد کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا میں صاف تانبے کی 45 فیصد پیداوار بھی چین میں ہی ہوتی ہے۔

اس عدم توازن کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں تانبے کے ذخائر سے پوری طرح معاشی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تانبے کی کان کنی اور اسے دوسرے ممالک کو فروخت کرنا ہی کافی نہیں۔ اس قیمتی دھات سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے لیے ان ممالک کو تانبے کی صفائی، اس کی پراسیسنگ اور اس کی صنعت پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ اس مقصد کے لیے صںعتی پارک قائم کرنے، ٹیکس میں چھوٹ دینے اور ایسی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن کی بدولت تانبے کو خاص طور پر اہم ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی اشیا کی تیاری کے لیے کام میں لایا جا سکے۔

ٹیرف اور تجارتی رکاوٹیں

'انکٹاڈ' نے ٹیرف میں اضافے کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صاف تانبے سے تیار کی جانے والی تاروں، ٹیوب اور پائپوں جیسی اشیا کی درآمد پر محصولات دو فیصد سے بڑھ کر آٹھ فیصد تک پہنچ سکتے ہیں۔

تجارتی رکاوٹوں کے باعث تانبا پیدا کرنے والے ممالک میں جدید اور اہم صںعتوں پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ محض خام مال کے برآمد کنندگان بن کر رہ جاتے ہیں۔

'انکٹاڈ' اس مسئلے سے نمٹنےکے لیے حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ تانبے کی تجارت کے حوالے سے اجازت نامے جاری کرنے کے عمل اور ضوابط کو آسان کریں، کان کنی کے حوالے سے تجارتی رکاوٹوں کو کم کریں اور ترقی پذیر معیشتوں کو صنعتی ترقی میں مدد دینے کے لیے علاقائی ویلیو چین کو ترقی دیں۔

سکریپ کی اہمیت

چونکہ تانبے کی کان کنی کے نئے مںصوبوں کو مکمل ہونے اور ان سے پیداوار کے حصول میں طویل وقت درکار ہوتا ہے اسی لیے تانبے کی ری سائیکلنگ اس کی کمی پر قابو پانے کے اہم طریقے کے طور پر سامنے آئی ہے۔

2023 میں استعمال شدہ اشیا سے 4.

5 ملین ٹن تانبا حاصل کیا گیا جو کہ دنیا بھر میں صاف شدہ تانبے کے ذخائر کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ امریکہ، جرمنی اور جاپان تانبے کا سکریپ درآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بن گئے ہیں جبکہ چین، کینیڈا اور جمہوریہ کوریا اس کے سب سے بڑے درآمد کنندگان ہیں۔

'انکٹاڈ' نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تانبے کا سکریپ ایک سٹریٹیجک اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔

تانبے کی ری سائیکلنگ اور اس کی پراسیسنگ کی صلاحیت اس کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے، تانبے کی چیزوں کی تجارت اور مزید دائروی اور پائیدار اور مستحکم معیشت کی تیاری میں مددگار ہو سکتی ہے۔

'انکٹاڈ' نے کہا ہے کہ تانبا عالمگیر تجارتی نظام کی اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی طلب سے نمٹنے کی صلاحیت کا امتحان لے گا۔ تانبے کا دور آگیا ہے لیکن مربوط تجارتی و صنعتی حکمت عملی کی عدم موجودگی میں اس کی رسد پر دباؤ رہے گا جس کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ممالک میں کہا ہے کہ تانبے کی تانبے کا ہوتا ہے کان کنی کے باعث کے لیے

پڑھیں:

پاکستان، ڈیجیٹل انقلاب کی راہ پر گامزن؛ سافٹ پاور سے اسمارٹ پاور کا سفر

پاکستان نے ڈیجیٹل معیشت کی دنیا میں ایک تاریخی سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ’’اسٹریٹجک بِٹ کوائن ریزرو‘‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو نہ صرف ملک کی مالی خودمختاری کی علامت ہے بلکہ عالمی معیشت میں پاکستان کی ایک نئی پہچان کے طور پر ابھرنے کا پیش خیمہ بھی ہے۔

وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے ماہر بلال بن ثاقب نے عالمی سطح پر پاکستان کی ڈیجیٹل شناخت کو نئے خطوط پر استوار کیا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان اب صرف صارف نہیں، بلکہ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا فعال معمار بننے جارہا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں 40 ملین سے زائد کرپٹو صارفین کے درمیان پاکستان کی موجودگی اب پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہوگئی ہے۔ ’’ڈیجیٹل ایسیٹس اتھارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان بھی اسی سمت میں ایک بڑی پیش رفت ہے، جو مستقبل قریب میں عالمی سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولنے کا باعث بنے گا۔

اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ترسیلات زر کا عمل مزید آسان اور کم لاگت بنانے کے لیے ’’اسٹیبل کوائنز‘‘ کا استعمال متعارف کرایا جا رہا ہے، جو ملک کی معاشی روانی میں نئی جان ڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

ملک کے نوجوانوں کے لیے ویب 3.0 اور مصنوعی ذہانت (AI) سے متعلق تربیتی پروگرامز شروع کیے جا چکے ہیں، جو جدید مہارتوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی افرادی قوت کو عالمی مارکیٹ کے قابل ترین کھلاڑیوں میں تبدیل کریں گے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عالمی بلاک چین کمپنیوں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی دعوت پر مثبت ردعمل دیا ہے، جو کہ سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔

یہ تمام اقدامات پاکستان کی ڈیجیٹل خودمختاری کو فروغ دے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کا عالمی ڈیجیٹل تشخص ازسر نو تشکیل پا رہا ہے۔ اب پاکستان صرف ایک اُبھرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت نہیں بلکہ کرپٹو دنیا میں عالمی رہنما بننے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔

حکومتِ پاکستان کی بھرپور کاوشوں نے ملک کو ڈیجیٹل ترقی سے معاشی استحکام کی راہ پر ڈال دیا ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والا دور پاکستان کے لیے ٹیکنالوجی، خودمختاری اور اقتصادی خوشحالی کا ضامن ثابت ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • چین کا گرین ترقیاتی ماڈل پاکستان کے لیے ایک قابل تقلید حوالہ ہے، رومینہ خورشید عالم
  • ترقیاتی مالیات پر سیویل کانفرنس کثیرالفریقی نظام کے لیے امید افزا
  • پاکستان، ڈیجیٹل انقلاب کی راہ پر گامزن؛ سافٹ پاور سے اسمارٹ پاور کا سفر
  • گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس انیشی ایٹو: ڈیجیٹل تہذیب میں قدیم مشرقی حکمت کی روشن خیالی
  • ماحول دوست ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے پالیسی اقدامات تیار ہیں، معاون خصوصی
  • پاکستان کا 9ہمسایہ ممالک سے تجارتی خسارہ 11ارب 17کروڑ ڈالر سے تجاوز کرگیا
  • پاکستان کا 9 ہمسایہ ممالک سے تجارتی خسارہ 11 ارب 17 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرگیا
  • بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی صورتحال گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، چینی وزیر اعظم
  • پاکستان اور یو اے ای کے درمیان سرکاری و سفارتی پاسپورٹ پر ویزے کی شرط ختم
  • اولڈ کوئنز روڈ پر ماحول دوست درخت لگا رہے ہیں‘ میئر کراچی