ابھی بھارت پر حملے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ، حنیف عباسی
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے کہا ہے کہ ہم نے بھارت پر حملہ نہیں کیا اگر کرتے تو لگ پتہ جاتا، ابھی ہم یہ حق محفوظ رکھتے ہیں۔ایکسپریس نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے زیر اہتمام راولپنڈی میں شاندار یوم تشکر ریلی نکالی گئی۔ جس میں وزیر ریلوے حنیف عباسی بھی شریک ہوئے۔وزیر ریلوے حنیف عباسی نے اس موقع پر کہا کہ پاک فوج نے سندور کو تندور بنا دیا اور ان کی چوکیاں ایئربیس اڑا کر رکھ دیئے۔ ہم نے ابھی حملہ نہیں کیا لیکن حق محفوظ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم آج پاک فوج، آرمی چیف اپنے شاہینوں اور وزیراعظم سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔مری روڈ کے راستے میں جگہ جگہ مختلف تنظیموں، ایپسما اور تاجر یونیز نے استقبالیہ کیمپ لگائے اور ریلی کے شرکاء پر گل پاشی کی۔وفاقی وزیر حنیف عباسی کا میڈیا سے گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ آج راولپنڈی کے لوگوں نے پاک فوج اور شاہینوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے، یہ فرض تھا احسان نہیں، نور خان بیس پر اٹیک ہوا لوگ فوراً وہاں بھی پہنچ گئے لیکن ہندوستان والے تو ایسے حالات میں اپنے گھروں کے اندر چھپ جاتے ہیں اور ہمارے لوگ حملے والی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پورا پاکستان ایک ہو کر نکلا ہوا ہے، گھروں کی چھتوں سے استقبال فوج کیلئے تھا، دوبارہ دشمن نے جرأت کی تو دندان شکن جواب دیں گے۔میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر دانیال چوہدری کا کہنا تھا کہ عوام نے فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر حق ادا کردیا جبکہ راولپنڈی نے ثبوت دیا فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ بھی ہندوستان نے کوئی اوچھی حرکت کرنے کی کوشش کی تو بھرپور جواب دیں گے۔
لاکھوں معصوم لوگوں کی جان بچانے پر پاکستان اور بھارت کی قیادت کو شاباش، ٹرمپ کا دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کا اعلان
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: حنیف عباسی کہا کہ
پڑھیں:
بچوں کی جسمانی تربیت کو محفوظ کیسے بنائیں
بچوں کی نشوونما کے لیے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں۔ یہ مضبوط ہڈیوں اور پٹھوں کی تعمیر میں مدد کرتی ہیں،قلبی صحت کو بہتر بناتی ہیں۔جسمانی سرگرمی بچوں میں خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے یہ تناؤ اور اضطراب کے لیے ایک قدرتی راستہ ہے اس کے علاوہ جذباتی بہبود کو فروغ دیتی ہے۔
ایک ہی عمر کے بچوں کی مہارتیں اور ذہنی پختگی مختلف ہو سکتی ہیں۔ عام طور پر، وہ بچے اور نو عمر لڑکے لڑکیاں جو کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوں، وہ کسی نہ کسی قسم کی ورزش شروع کر سکتے ہیں۔ چھوٹے بچے وزن کے بغیر جسمانی وزن پر مبنی ورزشیں، جیسے کہ چھلانگیں لگانا، شروع کر سکتے ہیں۔
بچوں کے لیے جسمانی سرگرمیوں کی تربیت محفوظ ہے یا نہیں؟
بچوں کا طاقت بڑھانے کا پروگرام بڑوں کی ورزش کا چھوٹا ورژن نہیں ہونا چاہیے۔ بچوں کو درست طریقہ سیکھنا چاہیے، ان کی نگرانی کی جانی چاہیے، ان کے لیے مناسب سائز کے آلات ہونے چاہئیں، اور انہیں یہ سکھانا چاہیے کہ آلات کو محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے۔
اسکولوں، جم اور ویٹ رومز میں کام کرنے والے ٹرینرز تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور انھیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کس فورس کو کیسے استعمال کرنا ہے، مگر کوشش کریں کہ ایسا ماہر ملے جس کے پاس بچوں اور نو عمر افراد کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ اور باقاعدہ سرٹیفیکیشن ہو۔
اگر درست طریقے سے بچوں کو ورزش یعنی طاقت کی تربیت دی جائے تو وہ محفوظ ہوسکتی ہے اور بڑھتی ہڈیوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ اپنے بچے کو طاقت کی تربیت شروع کروانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ اگر بچے کو کچھ خاص طبی مسائل ہوں جیسے کہ قابو سے باہر ہائی بلڈ پریشر، مرگی،دل کی بیماریاں یا دیگر مسائل تو ڈاکٹر کی اجازت ضروری ہے۔
تربیت کے دوران حفاظت کے نکات:
بچوں کو قریبی نگرانی میں اور درست تکنیک کے ساتھ ورزش کروائی جائے۔
ویٹ یا کیٹل بیل اٹھانے سے پہلے بغیر وزن کے مشقیں کر کے تکنیک سیکھنی چاہیے۔
جب بچہ کسی مشق کو صحیح طریقے کے ساتھ آرام سے 8–12 بار کر سکے، تو وزن اٹھانے کے اوزار آہستہ آہستہ شامل کیے جا سکتے ہیں۔
بچوں کو بڑوں کے لیے بنے آلات ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔
زیادہ تر چوٹیں اس وقت ہوتی ہیں جب بچہ مذاق یا کھیل تماشے میں لگا ہو یا اس کی نگرانی نہ ہو۔ سب سے عام چوٹ پٹھوں کے کھچاؤ کی ہوتی ہے۔
طاقت بڑھانے کے لیے بچوں اور نو عمر افراد کو ہلکے وزن یا کم مزاحمت سے شروع کرنا چاہیے اور ایک یا دو سیٹ میں 8–12 بار ورزش کرنی چاہیے، نہ کہ بھاری وزن تھوڑے وقفوں کے ساتھ اٹھانا۔وزن بچے کی عمر، قد، تکنیک، تجربے اور جسمانی طاقت پر منحصر ہونا چاہیے۔اگر کوئی بچہ کسی وزن کو صحیح طریقے سے آٹھ بار نہیں اٹھا سکتا، تو وہ وزن اس کے لیے بہت زیادہ ہے۔
ایسے پروگرام منتخب کریں جہاں انسٹرکٹر بچوں پر مکمل توجہ دے سکے۔ چھوٹے بچوں کو زیادہ توجہ درکار ہوگی جبکہ تجربہ کار نوجوان کھلاڑی نسبتاً خود مختار ہو سکتے ہیں۔