Express News:
2025-05-12@15:53:01 GMT

انقلابی سائنس کا کرشمہ: مشینی جگر اور نئی زندگی

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

انسانی صحت کے میدان میں جدید ٹیکنالوجیز کی ترقی نے ایک نئی روشنی اور امید کی راہیں فراہم کی ہیں۔ یہ ترقیات نہ صرف طبی علوم میں ایجادات کا نتیجہ ہیں بلکہ انسانی زندگی کے بنیادوں کو بھی مستحکم کرتی ہیں۔ ان انکشافات میں خاص طور پر مشینی جگر کی ایجاد ایک امید کی کرن بن کر ابھری ہے، جو دنیا بھر میں جگر کی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک انقلابی کردار ادا کر رہی ہے۔

جگر کا بنیادی کردار: جگر انسانی جسم کا ایک اہم عضو ہے، جو متعدد فزیولوجیکل افعال انجام دیتا ہے۔ جگر مختلف افعال میں سیال کی توازن برقرار رکھتا ہے، زہریلے مادوں کا خاتمہ کرتا ہے، توانائی کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اور اہم پروٹینز کی پیداوار کرتا ہے۔ مثلاً: جگر جسم میں پانی اور نمکیات کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ناگزیر ہے۔ جگر میں زہریلے مادوں کو توڑ کر انسانی جسم میں ان کی سطح کو کم کرتا ہے۔

گلوکوز کو گلیکوجن میں محفوظ کرتا ہے، جسے ضرورت پڑنے پر فوری توانائی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی اہم پروٹینز، جیسے کہ البومین اور خون کے جمنے کے عوامل، کی پیداوار کرتا ہے۔

جگر کی بیماریوں کی وجوہات: جگر کی بیماریوں کی شرح میں اضافہ مختلف وجوہات پر منحصر ہے، جن میں ہیپٹائٹس، موٹاپا، اور الکوحل کا استعمال شامل ہیں۔ وائرل ہیپٹائٹس، خاص طور پر ہیپٹائٹس B اور C، جگر کی بیماریوں کی اہم وجوہات ہیں، جو جگر کے خلیات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ غیرصحت مند طرز زندگی، جیسے کہ کھانے پینے کی غلط عادات، جگر کی صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔

مشینی جگر کی تاریخ: مشینی جگر کی ابتدائی کوششیں 20ویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئیں، جب محققین نے ایسے آلات تیار کرنے کی کوشش کی جو انسانی جگر کی قدرتی صلاحیتوں کی نقل کر سکیں۔ 1980ء کی دہائی میں مختلف علمی اداروں نے مستقل بنیادوں پر ایسے مشینی جگر کی تخلیق پر سرمایہ کاری کی، جو مختلف جگر کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کے قابل ہوں۔

مشینی جگر کی اقسام: مشینی جگر بنیادی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: قلیل المدت مشینی جگر ہنگامی حالات میں استعمال ہوتا ہے، جیسے کہ کسی مریض کی جگر کی فوری ناکامی کی صورت میں۔ طویل المدت مشینی جگر پیچیدہ اور جدید ڈیزائن ہے، جو مستقل بنیادوں پر استعمال کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد بیماریوں کے پیچیدہ حالات میں جگر کی قدرتی کارکردگی کی مکمل نقل کرنا ہے۔

مشینی جگر کی تعمیر کے مراحل: مشینی جگر کی تعمیر کے کئی اہم مراحل شامل ہوتے ہیں، جن میں مٹیریل کا انتخاب، اسٹرکچر کا ڈیزائن، اور فنگشنل اینجینئرنگ شامل ہیں۔ یہ مراحل اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مشینی جگر انسانی جسم کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور اس کی کارکردگی کو صحیح طور پر انجام دے سکے۔

مٹیریل کا انتخاب: مشینی جگر کے لیے ایسے مٹیریلز کا انتخاب کیا جاتا ہے جو انسانی جسم میں محفوظ رہ سکیں۔ بایو کمپٹیبل مٹیریلز کا استعمال یہ یقینی بناتا ہے کہ مشینی جگر جسم کے دوسرے اعضاء کے ساتھ ہم آہنگ رہے۔

 اسٹرکچر کا ڈیزائن: اسٹرکچر کا ڈیزائن انسانی جگر کی شکل و صورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا جاتا ہے، تاکہ یہ جسم میں قدرتی طور پر ہضم اور مائع مواد کو پروسیس کر سکے۔

فنکشنل انجنیئرنگ: اس مرحلے میں مشینی جگر کے مختلف افعال، جیسے زہریلے مادوں کی صفائی، پروٹین کی پیداوار، اور توانائی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو جانچا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے نانو ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انجنیئرنگ کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مشینی جگر حقیقی جگر کی طرح کام کرنے کے قابل ہو۔

کام یابی کی مثالیں

مشینی جگر کی پیوندکاری کی کئی کام یاب مثالیں موجود ہیں۔

 لیور ڈائلسس: یہ ٹیکنالوجی کئی مریضوں کے لیے جگر کی بیماریوں سے چھٹکارے کا ذریعہ بنی ہے۔

 جگر کی پیوندکاری: مشینی جگر کی پیوندکاری کے ذریعے بہت سے مریضوں نے اپنی زندگیوں میں نمایاں بہتری دیکھی ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں مشینی جگر کی پیوندکاری: حال ہی میں سوئٹزرلینڈ میں مشینی جگر کی پیوندکاری کا واقعہ نہ صرف ایک بڑی طبی سائنس کی کام یابی کی علامت ہے، بلکہ اس نے اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کو بھی واضح کیا ہے۔ ایک 62 سالہ مریض کو مشینی جگر کی پیوندکاری کی گئی، جب روایتی علاج میں ناکامی ہوئی تو ڈاکٹروں نے مشینی جگر کے استعمال کا فیصلہ کیا۔

پروفویژن کا عمل: پروفیوژن کے عمل میں جگر کے قدرتی افعال کی نقل کی گئی اور خون کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ جدید پروفیوژن سسٹمز تیار کیا گیا، جن میں مریض کے خون کو پروسیس کرکے مخصوص کیمیکلز میں تبدیل کیا گیا۔ جگر کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے نئی خون کی نالیوں کی تخلیق کی گئی۔

کام یابی اور چیلنجز: پیوندکاری کے بعد، مریض کی حالت میں کافی بہتری آئی، لیکن جدید ٹیکنالوجی نے کچھ چیلنجز بھی پیش کیے اور ریگولیٹری چیلنجز اور طبی مشق کی تربیت کی ضرورت محسوس کی گئی۔

 

فوائد اور چیلنجز: مشینی جگر کی پیوندکاری میں کئی فوائد شامل ہیں: پیشرفت پذیر صحت: یہ مریضوں کی صحت کو بہتر بناتا ہے اور ان کی زندگی کی کیفیت میں اضافہ کرتا ہے۔

 زندگی کا معیار: مشینی جگر مریضوں کی روزمرہ کی سرگرمیوں میں بہتری لاتا ہے۔

مستقبل کی ممکنات: مشینی جگر کی ایجاد نے نئی راہیں کھولی ہیں۔ بایو انجنیئرنگ، جینیاتی انجینئرنگ، اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے اس کی کارکردگی میں مزید بہتری کی امید ہے۔

علمی و تحقیقی پہلو: اگرچہ مشینی جگر کی کام یابیاں جاری ہیں، تاہم اس کی مؤثر کارکردگی کو متاثر کرنے والے کئی تیکنیکی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ان میں بایو کمپٹیبیلٹی، نظام کی پیچیدگی، اور انرجی کی ضرورت شامل ہیں۔

موجودہ تحقیقی کوششیں: مشینی جگر کی تحقیق میں حالیہ برسوں میں کئی اہم پہلو سامنے آئے ہیں، جیسے بایو پرنٹنگ، نانو ٹیکنالوجی، اور اے آئی کا استعمال۔ ان ٹیکنالوجیوں نے اس کی کارکردگی میں بہتری لانے کے امکانات کو پیدا کیا ہے اور دنیا بھر کے محققین نے ان کو اپنی تحقیقات کا حصہ بنایا ہے۔

کلینکل ٹرائلز: مختلف ممالک میں کلینکل ٹرائلز جاری ہیں، جن میں مشینی جگر کی نئی ٹیکنالوجیز کی جانچ کی جا رہی ہے۔ یہ ٹرائلز اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے اہم ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کس طرح انسانی جسم میں کام کرتی ہے۔

عالمی تعاون: مختلف بین الاقوامی تحقیقی گروپوں نے مل کر مشینی جگر کے شعبے میں کام کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس تکنیکی ترقی کو بڑھایا جا سکے۔ مشترکہ کوششوں سے مختلف ممالک میں نئے تجربات اور تحقیقی منصوبے شروع ہوئے ہیں۔

سائنسی بنیادیں اور بایو انجنیئرنگ میں مشینی جگر کا کردار: مشینی جگر کی تیاری ایک جامع سائنسی عمل ہے، جس میں حیاتیاتی انجینئرنگ، مکینیکل ڈیزائن، کمپیوٹر پروگرامنگ، اور ادویاتی کیمیا شامل ہیں۔ انسانی جگر کی پیچیدہ ساخت کو سمجھنا اور اسے ایک مشینی صورت میں ڈھالنا جدید بایومیڈیکل انجینئرنگ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

بایو پرنٹنگ، جس کے ذریعے خلیات اور بایو میٹریلز کی مدد سے 3D جگر کے ماڈلز تیار کیے جاتے ہیں، ایک انقلابی اقدام ہے۔ سائنسدان اسٹیم سیلز کا استعمال کرکے ایسے خلیات تیار کر رہے ہیں جو جگر کے افعال کی نقل کر سکتے ہیں۔ ان پر تحقیق جاری ہے تاکہ یہ خلیات مشینی جگر کی کارکردگی کو مزید بہتر بنا سکیں۔

عالمی ادارہ صحت اور دیگر تنظیموں کی کوششیں

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور National Institute of Biomedical Imaging and Bioengineering (NIBIB) جیسے ادارے مشینی اعضا پر تحقیق و ترقی کو فروغ دے رہے ہیں۔ WHO کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 20 لاکھ افراد جگر کی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ ایسے میں مشینی جگر ایک اہم متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یورپی یونین، امریکا، جاپان اور چین میں تحقیقی ادارے فنڈنگ فراہم کر رہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کو عام مریضوں کے لیے قابلِ رسائی بنایا جا سکے۔

مریضوں کے نفسیاتی و سماجی پہلو: جگر کی بیماری کا شکار افراد نہ صرف جسمانی تکلیف سے گزرتے ہیں بلکہ ذہنی و سماجی دباؤ کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ مشینی جگر کی پیوندکاری نہ صرف جسمانی صحت میں بہتری لاتی ہے بلکہ مریض کی امید اور خود اعتمادی کو بھی بحال کرتی ہے۔

ایک مریض نے بتایا: ’’جب ڈاکٹروں نے کہا کہ مشینی جگر میری زندگی بچا سکتا ہے، تو مجھے لگا جیسے دوبارہ جینے کا موقع مل گیا ہو۔‘‘

پاکستان میں مشینی جگر: موجودہ صورت حال اور امکانات

پاکستان میں جگر کی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد ہیپاٹائٹس B اور C کا شکار ہو کر جگر فیل ہونے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ملک میں جگر کی پیوندکاری کی سہولتیں محدود ہیں، اور مریضوں کو اکثر بیرونِ ملک جانا پڑتا ہے۔ تاہم مشینی جگر کی ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر متعارف کرانے کے لیے نجی و سرکاری ادارے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ شعبہ بایومیڈیکل انجینئرنگ، این ای ڈی یونیورسٹی کراچی جیسے ادارے مقامی سطح پر ایسے تحقیقی منصوبوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔

جگر کے امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رضوان فاروقی کہتے ہیں: ’’مشینی جگر کی کام یابی نے ہمارے طب کے اصولوں کو ایک نئے دور میں داخل کردیا ہے۔ اب مسئلہ صرف تحقیق کا نہیں، بلکہ اس ٹیکنالوجی کو سستا اور دست یاب بنانا ہے۔‘‘

تحقیق، سرمایہ کاری اور پالیسی سازی کی ضرورت

حکومتوں اور عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ مشینی جگر پر تحقیق کے لیے فنڈز مختص کریں، طبی جامعات میں بایومیڈیکل انجینئرنگ کے شعبے کو فروغ دیں، بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنائیں، سستی اور مقامی سطح پر دستیاب مشینی جگر کی تیاری کو ممکن بنائیں،

انسانیت کے لیے امید کی نئی کرن

جگر کی شدید ناکامی کے شکار مریضوں کے لیے جگر ڈائیلاسس سسٹمز، جیسے کہ Molecular Absorbent Recirculating System ، ایک عارضی سہارا فراہم کرتے ہیں۔ یہ سسٹمز جگر کے اہم افعال، جیسے زہریلے مادوں کا اخراج اور جسمانی سیال کا توازن برقرار رکھنا، انجام دیتے ہیں۔

کئی ایسے مریض جنہیں شدید جگر فیل ہونے کا سامنا تھا، ان سسٹمز کے ذریعے کامیابی سے علاج حاصل کر چکے ہیں۔ ان آلات نے خون سے زہریلے مواد کو نکال کر مریض کی حالت کو وقتی طور پر بہتر بنایا، جس سے یا تو ان کا قدرتی جگر بحال ہو سکا یا وہ پیوندکاری کے قابل ہوسکے۔ اس ضمن میں ایک خاص واقعے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سوئٹزرلینڈ کے 62 سالہ مریض کو مصنوعی جگر لگایا گیا، جب روایتی علاج ناکام ہو چکے تھے۔

طریقۂ کار کی تفصیل

اس علاج میں جدید perfusion سسٹمز استعمال کیے گئے، جنہوں نے جگر کے افعال کو نقل کرتے ہوئے مریض کے خون کے بہاؤ اور کیمیائی توازن کو سنبھالا۔ ڈاکٹروں نے مصنوعی طور پر نئی خون کی نالیاں بھی بنائیں اور جگر کی کارکردگی کو بحال کیا، جس سے مریض کی حالت مستحکم ہوگئی۔

کئی ممالک میں مصنوعی جگر کے آلات پر کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں جن میں ان کے اثرات، حفاظت، اور طویل المدتی افادیت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

متعدد دستاویزی واقعات میں مریضوں کی صحت میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ کئی مریضوں کی زندگی کے معیار میں بہتری آئی اور بعض اوقات وہ جگر کی پیوندکاری کے کامیاب امیدوار بھی بن سکے۔

 ایک مریض نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مصنوعی جگر کی تنصیب نے اس کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا۔ علاج سے قبل وہ مایوسی، جسمانی کم زوری اور زندگی کے امکانات سے محروم تھا۔ علاج کے بعد اسے نہ صرف جسمانی افاقہ ہوا بلکہ اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت بھی بہتر ہو گئی، اور زندگی میں نئی امید پیدا ہوئی۔

مصنوعی جگر کی کامیابی اُن مریضوں میں بھی دیکھی گئی ہے جہاں یہ ایک bridge therapy کے طور پر کام آیا یعنی روایتی جگر پیوندکاری سے پہلے مریض کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال ہوا۔ اس طریقے سے نہ صرف مریض کو وقتی سہارا ملا بلکہ وہ پیوندکاری کے لیے بھی اہل بن سکا، جس سے عطیہ دہندگان کی قلت کے مسئلے کو بھی کسی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کام یاب کہانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مصنوعی جگر کی ٹیکنالوجی نہ صرف جگر کی بیماریوں کے علاج میں اہم کردار ادا کر رہی ہے بلکہ ایسے مریضوں کے لیے نئی امید بھی پیدا کر رہی ہے جو روایتی علاج سے محروم تھے۔ یہ ٹیکنالوجی طبی سائنس میں ایک بڑی پیش رفت ہے جو مستقبل میں مزید ترقی کے امکانات رکھتی ہے۔

مشینی جگر کی ایجاد انسانی تاریخ کے ان لمحات میں سے ایک ہے جہاں سائنس اور انسانیت نے مل کر ایک زندگی بچانے والا معجزہ تخلیق کیا۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف جگر کے مریضوں کی زندگیوں کو بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ اس نے طب کے دائرے کو ایک نئی وسعت عطا کی ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی کو صرف طبی سائنس کا نہیں، بلکہ انسانیت کا اثاثہ سمجھا جانا چاہیے۔ جیسے جیسے یہ میدان ترقی کرتا ہے، مستقبل میں ہم ایسی مزید ایجادات کے منتظر ہیں جو بیماریوں کے خلاف جنگ کو مزید مؤثر بنائیں گی۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے ساتھ کئی چیلنجز بھی جڑے ہیں، تاہم آنے والے برسوں میں اس میں مزید بہتری متوقع ہے۔ بایو انجنیئرنگ، جینیاتی تحقیق، اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے امتزاج سے مشینی جگر کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی اور اس کا استعمال عام مریضوں کے لیے قابلِ رسائی بنایا جا سکے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جگر کی بیماریوں کی جگر کی کارکردگی مریضوں کے لیے یہ ٹیکنالوجی زہریلے مادوں ٹیکنالوجی کو مشینی جگر کے کہ مشینی جگر کارکردگی کو بیماریوں کے کا استعمال میں جگر کی مریضوں کی میں بہتری مزید بہتر کی زندگی شامل ہیں کام یابی کے ذریعے جگر کے ا کرنے کے مریض کو مریض کی جیسے کہ بلکہ اس جاتا ہے کرتا ہے کیا گیا اس بات کی گئی کو بھی کام کر کیا جا رہی ہے اور اس جا سکے کی کام

پڑھیں:

تانبے کی کمی ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں رکاوٹ

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو تانبے کی کمی کا سامنا ہے جس سے ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی رک سکتی ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے مربوط تجارتی و صنعتی حکمت عملی سے کام لینا ہو گا۔

عالمگیر تجارتی صورتحال پر اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی جانب سے رواں ہفتے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی معیشت تیزی سے ڈیجیٹل صورت اختیار کر رہی ہے اور ان حالات میں تانبے کو سٹریٹیجک اہمیت کے نئے خام مال کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

تانبے کی رسد کے مقابلے میں اس کی طلب بڑھتی جا رہی ہے، جس میں 2040 تک 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ حسب ضرورت تانبا دستیاب نہ ہونے کی صورت میں میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور سولر پینل سے لے کر مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے اور سمارٹ گرڈ تک کئی طرح کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی راہ پر رکاوٹیں پیش آئیں گی۔

قیمتی دھات

’انکٹاڈ‘ میں بین الاقوامی تجارت و اشیا کے شعبے کی ڈائریکٹر لَز ماریا ڈی لا مورا نے کہا ہے کہ تانبا محض کوئی شے یا جنس نہیں ہے۔ یہ گھروں، کاروں، ڈیٹا مراکز اور قابل تجدید توانائی کے نظام سمیت بہت سی جگہوں پر استعمال ہوتا ہے۔

اعلیٰ درجے کی ایصالیت اور پائیداری کے باعث اس کا بجلی پیدا کرنے کے نظام اور ماحول دوست توانائی کی ٹیکنالوجی میں اہم کردار ہے۔

تاہم ادارے نے بتایا ہے کہ تانبے کی نئی کانیں کھودنے کا عمل سست رو اور مہنگا ہوتا ہے جس میں کئی طرح کے ماحولیاتی خدشات بھی ہوتے ہیں۔ کسی جگہ تانبے کی دریافت اور وہاں سے یہ دھات نکالنے میں 25 سال تک عرصہ لگ سکتا ہے۔

تانبے کی 2030 تک متوقع طلب کو پورا کرنے کے لیے اس شعبے میں 250 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنا ہو گی اور کان کنی کے کم از کم 80 نئے منصوبے درکار ہوں گے۔

غیرمساوی فوائد

دنیا میں تانبے کے نصف سے زیادہ معلوم ذرائع 5 ممالک میں پائے جاتے ہیں جن میں چلی، آسٹریلیا، پیرو، جمہوریہ کانگو اور روس شامل ہیں۔ تاہم خام تانبے کو قابل استعمال بنانے کا بیشتر کام دیگر ممالک میں ہوتا ہے جن میں چین سرفہرست ہے جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے خام تانبے کا 60 فیصد درآمد کرتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ دنیا میں صاف تانبے کی 45 فیصد پیداوار بھی چین میں ہی ہوتی ہے۔اس عدم توازن کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں تانبے کے ذخائر سے پوری طرح معاشی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تانبے کی کان کنی اور اسے دوسرے ممالک کو فروخت کرنا ہی کافی نہیں۔ اس قیمتی دھات سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے لیے ان ممالک کو تانبے کی صفائی، اس کی پراسیسنگ اور اس کی صنعت پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

اس مقصد کے لیے صںعتی پارک قائم کرنے، ٹیکس میں چھوٹ دینے اور ایسی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن کی بدولت تانبے کو خاص طور پر اہم ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی اشیا کی تیاری کے لیے کام میں لایا جا سکے۔

ٹیرف اور تجارتی رکاوٹیں

’انکٹاڈ‘ نے ٹیرف میں اضافے کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صاف تانبے سے تیار کی جانے والی تاروں، ٹیوب اور پائپوں جیسی اشیا کی درآمد پر محصولات دو فیصد سے بڑھ کر آٹھ فیصد تک پہنچ سکتے ہیں۔

تجارتی رکاوٹوں کے باعث تانبا پیدا کرنے والے ممالک میں جدید اور اہم صںعتوں پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ محض خام مال کے برآمد کنندگان بن کر رہ جاتے ہیں۔

’انکٹاڈ‘ اس مسئلے سے نمٹنےکے لیے حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ تانبے کی تجارت کے حوالے سے اجازت نامے جاری کرنے کے عمل اور ضوابط کو آسان کریں، کان کنی کے حوالے سے تجارتی رکاوٹوں کو کم کریں اور ترقی پذیر معیشتوں کو صنعتی ترقی میں مدد دینے کے لیے علاقائی ویلیو چین کو ترقی دیں۔

اسکریپ کی اہمیت

چونکہ تانبے کی کان کنی کے نئے مںصوبوں کو مکمل ہونے اور ان سے پیداوار کے حصول میں طویل وقت درکار ہوتا ہے اسی لیے تانبے کی ری سائیکلنگ اس کی کمی پر قابو پانے کے اہم طریقے کے طور پر سامنے آئی ہے۔

 2023 میں استعمال شدہ اشیا سے 4.5 ملین ٹن تانبا حاصل کیا گیا جو کہ دنیا بھر میں صاف شدہ تانبے کے ذخائر کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ امریکا، جرمنی اور جاپان تانبے کا اسکریپ درآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بن گئے ہیں جبکہ چین، کینیڈا اور جمہوریہ کوریا اس کے سب سے بڑے درآمد کنندگان ہیں۔

’انکٹاڈ‘ نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تانبے کا اسکریپ ایک اسٹریٹیجک اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تانبے کی ری سائیکلنگ اور اس کی پراسیسنگ کی صلاحیت اس کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے، تانبے کی چیزوں کی تجارت اور مزید دائروی اور پائیدار اور مستحکم معیشت کی تیاری میں مددگار ہو سکتی ہے۔

’انکٹاڈ‘ نے کہا ہے کہ تانبا عالمگیر تجارتی نظام کی اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی طلب سے نمٹنے کی صلاحیت کا امتحان لے گا۔ تانبے کا دور آگیا ہے لیکن مربوط تجارتی و صنعتی حکمت عملی کی عدم موجودگی میں اس کی رسد پر دباؤ رہے گا جس کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • سائنسدانوں کا عام دھات کو سونے میں تبدیل کرنے کا خواب پورا ہو گیا
  • وزیراعلیٰ مریم نواز کی زیر صدارت صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کا اعلان
  • ساری قوم ایک اور نیک ہو کر وطن کے دفاع میں کھڑی ہے: شیخ رشید
  • امّی کہنا نہیں مانتیں
  • تانبے کی کمی ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں رکاؤٹ
  • تانبے کی کمی ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • بھارت کو ہر محاذ پرشکست دی، ہر جگہ پاکستان کی تعریف
  • پاک بھارت فضائی لڑائی چینی اور مغربی ٹیکنالوجی کی جنگ بن گئی
  • پاکستان نے بھارتی تکبر کے پرخچے اڑا دیے ،برطانوی اخبار بھی معترف