UrduPoint:
2025-11-10@20:00:37 GMT

افغانستان میں طالبان نے شطرنج پر بھی پابندی لگا دی

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

افغانستان میں طالبان نے شطرنج پر بھی پابندی لگا دی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) شطرنج طالبان کی طرف سے پابندی کا شکار ہونے والے کھیلوں میں سے تازہ ترین کھیل ہے جب کہ خواتین کو بنیادی طور پر کھیلوں میں حصہ لینے سے بالکل روک دیا گیا ہے۔

کابل میں طالبان حکومت کے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ترجمان اطل مشوانی نے اتوار کے روز اس پابندی کی وجہ یہ بتائی کہ شطرنج جوئے کا ذریعہ بن سکتی ہے، جو حکومت کے متعارف کردہ اخلاقی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔

کرتے اور پگڑیاں: افغان طالب علموں کے لیے نیا لازمی یونیفارم

انہوں نے کہا کہ ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ قانون کے تحت یہ کھیل ممنوع ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس کھیل پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے جب تک کہ اس کی اسلامی قوانین کے ساتھ مطابقت کا تعین نہیں کر لیا جاتا۔

(جاری ہے)

اطل مشوانی نے کہا، ''شطرنج کے کھیل کے حوالے سے کچھ مذہبی تحفظات بھی ہیں۔

جب تک ان تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا، افغانستان میں شطرنج کا کھیل معطل رہے گا۔‘‘

سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف

مشوانی کے مطابق افغانستان کی قومی شطرنج فیڈریشن نے تقریباً دو سال سے کوئی سرکاری تقریب یا مقابلہ منعقد نہیں کروائے اور قیادت کی سطح پر بھی کچھ مسائل درپیش تھے۔

طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے

کابل میں ایک کیفے کے مالک، جنہوں نے حالیہ برسوں میں شطرنج کے غیر رسمی مقابلوں کی میزبانی کی، کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کریں گے لیکن اس سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔

طالبان کا افغانستان، بال تک فروخت نہیں کر سکتے

عزیز اللہ گلزادہ نامی اس افغان باشندے نے کہا، ''ان دنوں نوجوانوں کی سرگرمیاں زیادہ نہیں ہیں، بہت سے لوگ روزانہ یہاں آتے ہیں۔‘‘

’’وہ ایک کپ چائے پیتے اور اپنے دوستوں کو شطرنج کے کھیل کا چیلنج دیتے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شطرنج دوسرے مسلم اکثریتی ممالک میں بھی کھیلی جاتی ہے۔

پچھلے سال طالبان حکام نے کھیلوں کے پیشہ وارانہ مقابلوں میں مکسڈ مارشل آرٹس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس میں ''تشدد‘‘ ہے اور یہ ''اسلامی تعلیمات سے متصادم‘‘ ہے۔

افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت 2021 میں اپنے اقتدار میں آنے کے بعد سے بتدریج سخت مذہبی قوانین اور ضوابط نافذ کرتی جا رہی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

سلیب کا کھیل: بجلی کے بلوں سے پنشن کی کٹوتی تک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں ریاستی پالیسیوں کا سب سے بڑا تضاد ’’سلیب سسٹم‘‘ ہے۔ یہ ایسا جال ہے جس میں عام آدمی اور سرکاری ملازم دونوں پھنستے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے۔ سلیب کے نام پر کبھی بجلی کے بلوں میں عوام سے اضافی پیسے نکلوائے جاتے ہیں اور کبھی ریٹائرڈ ملازمین کی زندگی بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ یوں یہ ایک ایسا دو دھاری ہتھیار ہے جو ہر طرف سے غریب اور ملازم پیشہ طبقے کو زخمی کرتا ہے۔
بجلی کے نظام میں 200 یونٹ کی ایک مصنوعی لکیر کھینچی گئی ہے۔ عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس حد تک رعایتی نرخ ملیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی کسی صارف کا بل 201 یونٹ پر پہنچتا ہے تو رعایت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ پورے یونٹس مہنگے ہو جاتے ہیں اور ایک یونٹ کا فرق ہزاروں روپے کے اضافے میں بدل جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سلیب ’’ریلیف‘‘ کے بجائے ’’سزا‘‘ بن جاتا ہے۔
غریب مزدور جس کا گھر پہلے ہی مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے، ایک یونٹ زیادہ خرچ کرنے کی پاداش میں پانچ چھ ہزار روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسان جس کی فصلیں ڈیزل اور بجلی کے اخراجات سے تباہ ہو چکی ہیں، وہ بھی اس پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ کلرک، استاد اور ریٹائرڈ بزرگ شہری سب کے سب اس سسٹم کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو نہ عوام کی مجبوری کا احساس ہے نہ انصاف کی پرواہ۔ ان کے نزدیک یہ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہے، لیکن حقیقت میں یہ لاکھوں گھروں کا چولہا بجھا دیتا ہے۔
یہ سلیب صرف بجلی کے بلوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس پر بھی اسی کا اطلاق ہوتا ہے۔ جب کوئی ملازم 3 دہائیاں خدمت کے بعد ریٹائر ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑھاپے کی آس اُمید کے ساتھ گریجویٹی اور لیواِن کیشمنٹ کا منتظر ہوتا ہے۔ مگر جب حساب لگایا جاتا ہے تو سلیب کا ہتھیار اس کی جمع پونجی کو کاٹ ڈالتا ہے۔ مختلف سلیب لاگو کر کے اس کی گریجویٹی کم کر دی جاتی ہے اور بعض صورتوں میں لیواِن کیشمنٹ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس نے 30سال تک محنت، مشقت اور قربانی سے اپنے ادارے کی خدمت کی ہو، اس کے بڑھاپے کا سہارا اس طرح چھین لیا جائے تو یہ سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ریٹائرڈ ملازم کے خواب بکھر جاتے ہیں، اس کی آنکھوں میں مایوسی اُتر آتی ہے اور وہ خود کو ریاست کے رحم و کرم پر تنہا پاتا ہے۔
یہاں اصل سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر ایک ہی اصول دو جگہ دو مختلف شکلیں کیوں اختیار کرتا ہے؟ بجلی کے بل میں سلیب عوام پر بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے اور پنشن کے نظام میں یہی سلیب ملازمین کے حقوق نگل لیتا ہے۔ کہیں رعایت ختم کر کے پورا بل مہنگا کر دیا جاتا ہے اور کہیں محنت کی کمائی کو نصف یا ایک تہائی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیاں انصاف کے بجائے مفادات کے تابع ہیں۔

پالیسی ساز ادارے، وزارتِ خزانہ اور بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹیز سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ نظام کتنا غیرمنصفانہ ہے۔ لیکن ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیونکہ ان کے لیے تو کبھی سلیب کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافہ کیا جاتا ہے، اراکین اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھائی جاتی ہیں، مگر عام ملازم اور عوام پر سلیب کی تلوار چلائی جاتی ہے۔
میڈیا بھی اس مسئلے کو نظرانداز کرتا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دن رات سیاسی دنگل دکھائے جاتے ہیں، مگر کوئی اینکر یہ سوال نہیں اُٹھاتا کہ ایک یونٹ کے فرق پر پورے بل کی رعایت کیوں ختم کر دی جاتی ہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ریٹائرڈ ملازمین کی لیواِن کیشمنٹ کیوں کاٹ دی جاتی ہے؟ عوام کو جان بوجھ کر ان حقیقی مسائل سے غافل رکھا جا رہا ہے تاکہ ان کا دھیان صرف وقتی شور شرابے میں الجھا رہے۔
یہ نظام اکثریت کے گلے پر ہاتھ رکھ کر اقلیت کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت یا تو عام عوام ہیں یا نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین۔ لیکن پالیسی سازی میں ان کا ذکر صرف بوجھ کے طور پر ہوتا ہے، حق دار کے طور پر نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کے بل عوام کے لیے عذاب بن گئے ہیں اور پنشن کی کٹوتیاں ملازمین کے بڑھاپے کو بے سہارا کر دیتی ہیں۔
چند عملی مثالیں اس تضاد کو ننگا کر دیتی ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر کا بل اگر 201 یونٹ ہو جائے تو اسے پچھلے مہینے کے مقابلے میں 5 ہزار سے زائد ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم جس کی گریجوٹی پنشن 10لاکھ روپے بنتی تھی، سلیب کے نفاذ کے بعد اسے صرف 6 لاکھ دیے گئے۔ یہ مثالیں محض کہانیاں نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہیں جو روزانہ ہزاروں خاندانوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کا ریاست پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ لوگ ٹیکس دینے سے کترانے لگتے ہیں، بجلی کے بل چکانے کے بجائے کنڈے ڈالنے لگتے ہیں، اور سسٹم سے بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ یہ ریاست کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ جب شہریوں کا اعتماد اُٹھ جائے تو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
مزید برآں جب تنخواہیں اور پنشنز کم ہوتی ہیں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھتا ہے تو لوگ کرپشن کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین رشوت لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ گھر کا خرچ پورا کر سکیں۔ یوں سلیب سسٹم صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ کرپشن کا براہِ راست محرک بھی بن جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ان تضادات کو ختم کیا جائے۔ بجلی کے بلوں میں ایک منصفانہ نظام رائج کیا جانا چاہیے۔ اگر 200 یونٹ تک رعایت دی جاتی ہے تو 201 یونٹ پر پورا بل مہنگا کرنے کے بجائے صرف وہی ایک یونٹ مہنگا ہونا چاہیے۔ اس سے عوام پر بلاجواز بوجھ نہیں پڑے گا اور انصاف کا تقاضا بھی پورا ہوگا۔
اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن گریجویٹی اور لیوان کیشمنٹ پر سلیب کا جبر ختم ہونا چاہیے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انہوں نے اپنی محنت کے ذریعے کمایا ہے۔ اس حق پر کسی قسم کی کٹوتی یا تضاد کسی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

پارلیمنٹ کو فوری طور پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ بجلی کے سلیب اور پنشن کے سلیب کا خاتمہ کر کے ایک شفاف، منصفانہ اور یکساں نظام رائج کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ناانصافیاں مستقبل میں بغاوت اور سماجی انتشار کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ وہاں بجلی کے نرخ یکساں اور شفاف ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو بڑھاپے میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر یہی طرزِ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہوگا بلکہ معیشت کو بھی استحکام ملے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام اور سرکاری ملازمین اتنے اندھے بہرے بنا دیے گئے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش رہیں گے؟ یا وہ متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر باشعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔
سلیب کا یہ کھیل عوام اور ملازمین دونوں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس تضاد کو توڑ دیا جائے۔ بجلی کے بلوں سے لے کر پنشن کی کٹوتی تک، ہر جگہ انصاف قائم کیا جائے۔ کیونکہ جب اکثریت کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں تو ریاستیں اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔

رانا محمد اقرار گلزار

متعلقہ مضامین

  • مائیک ہیسن نے بابراعظم کو اعتماد کا ووٹ دے دیا
  • برازیل میں عالمی موسمیاتی کانفرنس جاری، افغانستان کو دعوت نہیں دینے پر طالبان ناراض
  • سلیب کا کھیل: بجلی کے بلوں سے پنشن کی کٹوتی تک
  • پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
  • پاک افغان مذاکرات کا روایتی نتیجہ
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم  
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم
  • پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے، طالبان کی ڈھٹائی پر ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے: وزیر دفاع
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک، مزید بات چیت کا پروگرام نہیں، خواجہ آصف: اصولی موقف پر قائم، عطا تارڑ