پاکستان نے 10 مئی 2025کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا‘ یہ ریکارڈ اب کیس اسٹڈی بن چکا ہے اور یہ دنیا بھر کی ملٹری اکیڈمیز میں جنرل عاصم منیر اور ائیرچیف مارشل ظہیر بابر سندھو کے نام سے پڑھائی جائے گی‘ پاکستان نے 10مئی کی صبح ایک گھنٹے میں کیا کمال کیا ہمیں یہ جاننے کے لیے 27 ستمبر 1925 میں جانا پڑے گا اور اس سے بھی پہلے ہمیں ناگ پور کے ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار(Keshav Baliram Hedgewar) کو کھوجنا پڑے گا‘ ان دونوں کا10 مئی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
یہ سو سال پرانی داستان ہے‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد اٹلی میں فاشزم کی تحریک شروع ہوئی اور یہ تیزی سے پورے یورپ میں پھیل گئی‘فاشزم کا تصور یورپی اخبارات‘ رسائل اور کتابوں کے ذریعے ہندوستان آیا‘ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے اس مطالعے کے بعد سوچا اگر اٹلی صرف اٹالین ‘ فرانس فرنچ‘ جرمنی جرمن اور انگلینڈ صرف انگلش لوگوں کے لیے ہے تو پھر ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے کیوں نہیں ہے یہاں دوسرے مذاہب کے لوگ کیوں آباد ہیں؟ اس سوچ نے ہیڈگیوار کو ناگ پور میں 27 ستمبر 1925کو راشٹریہ سیوک سنگھ کے نام سے ہندو قوم پرست جماعت کی بنیاد رکھنے پر مجبور کر دیا‘ یہ بعدازاں آر ایس ایس کہلانے لگی۔
اس جماعت کے دو بڑے مقاصد تھے‘ ہندوستان سے دوسری تمام اقوام کو ہر صورت بے دخل کرنااور ملک میں کٹڑ ہندو نظریات نافذ کرنا‘ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ان مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ٹریننگ کے ادارے اور ہندوازم کی تعلیم کے لیے اسکول کھولے‘ اس نے ممبرز کے لیے وردی بھی بنائی اور زعفرانی رنگ کا جھنڈا بھی‘ ٹریننگ کیمپوں میں طالب علموں کو لاٹھی‘تلوار‘ بھالے اور خنجر کی ٹریننگ دی جاتی تھی جب کہ اسکولوں میں سنسکرت زبان میں ہندوازم کی تعلیم کا بندوبست تھا‘ جماعت کا سائز 1927تک ٹھیک ٹھاک ہوگیا‘ یہ لوگ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے جب کہ کانگریس اور مسلم لیگ ملک کو ہندو اور مسلم حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی تھی چناںچہ آر ایس ایس دونوں کے خلاف ہو گئی‘ یہ اختلاف انگریزوں کو سوٹ کرتا تھا چناں چہ برطانوی حکومت نے آر ایس ایس کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا‘ انگریز کی مرضی سے یہ لوگ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوگئے۔
اپنے دفتر بنائے‘ طالب علم داخل کرائے اور اساتذہ کو فیکلٹی میں شامل کرایا‘ بہرحال قصہ مختصر 1947 تک آر ایس ایس پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی‘ شہروں اور قصبوں میں اس کے کارندے نظر آتے تھے‘ ہندوستان تقسیم ہوا تو آر ایس ایس نے ٹھیک ٹھاک مخالفت کی یہاں تک کہ آر ایس ایس کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا‘ جواہر لال نہرو اور قائداعظم بھی ان کی ہٹ لسٹ پر تھے لیکن یہ دونوں بچ گئے۔
آر ایس ایس نے بعدازاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نام سے اپنا سیاسی ونگ بھی بنا لیا‘ یہ شروع میں بھاتیہ جتا سنگھ تھا لیکن یہ بعدازاں دوسری ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی ہو گئی‘ بی جے پی شروع میں بری طرح فیل ہو گئی لیکن یہ لوگ جدوجہد کرتے رہے‘ 1984 میں اس نے جنرل الیکشن میں صرف دو سیٹیں حاصل کیں لیکن کانگریس کی غیرمقبولیت اور گاندھی خاندان کی سیاسی حماقتوں کی وجہ سے بی جے پی کا گراف بڑھتا چلا گیا‘ اٹل بہاری واجپائی‘ ایل کے ایڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے دن رات محنت کی جس کے نتیجے میں 1996 میں بی جے پی لوک سبھا کی اکثریتی جماعت بن گئی اور اس نے 13 دن کی حکومت بھی بنا لی‘یہ 1998میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے ذریعے لمبی مخلوط حکومت بنانے میں کام یاب ہو گئی۔
اٹل بہاری واجپائی اس حکومت کے وزیراعظم تھے‘ یہ لوگ اقتدار میں آ گئے لیکن ان کی سوچ متعصب ہندوانہ تھی‘ ان کے ایک دانشور ویناک دمندر سواکار نے ہندوتوا کے نام سے آر ایس ایس کو ایک اصطلاح بھی دے دی تھی‘ ہندوتوا کا مطلب تھا ہندوماتا پر صرف ہندورہ سکتے ہیں‘ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس نے مسجدوں‘ چرچز‘ جین مندروں اور بودھ ٹمپلز پر حملے شروع کر دیے‘ نریندرمودی 2001 سے 2014تک گجرات کا چیف منسٹر رہا‘ اس کے زمانے میں مارچ 2002میں گجرات میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے اورجون 2002تک 1000 کے قریب مسلمان قتل کر دیے گئے۔
ہزاروں عورتیں ریپ ہوئیں‘ آر ایس ایس کے غنڈوں نے چھوٹے معصوم بچے بھی نہ چھوڑے‘ نریندر مودی کی زندگی کا بڑا حصہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں گزرا تھا لیکن بہرحال اس نے مسلمانوں کے خلاف تعصب کے باوجود گجرات میں 13 سال بہت اچھا پرفارم کیا‘ گجرات کی معیشت نے پورے بھارت میں ریکارڈ قائم کر دیا‘ یہ اس پرفارمنس کی بنیاد پر 2014 میں وزیراعظم بن گیا اور یہاں سے نئی کہانی شروع ہو گئی۔
نریندر مودی 2014 سے 2019تک وزیراعظم رہا‘ یہ دوسری مرتبہ 2019 میں وزیراعظم بنا اور مخلوط حکومت کے ذریعے2024 میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گیا‘ اس کے ادوار میں پورے ہندوستان میں آگ لگی رہی‘ یہ ایک طرف معیشت میں کمال کرتا رہا اور دوسری طرف یہ اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہا‘ بھارت میں اس کے زمانے میں سیکڑوں مسجدیں‘ چرچ اور ٹمپلز توڑ دیے گئے‘ ہزاروں لوگ نسل کش فسادات میں مارے گئے‘ آر ایس ایس اکھنڈ بھارت کی دعوے دار ہے‘ یہ مسلمانوں کو قتل کر کے بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں کو دوبارہ بھارت میں شامل کرنا چاہتی ہے‘ مودی ہمیشہ اس نفرت کا الیکشنز میں فائدہ اٹھاتا رہا‘ دوسری طرف آر ایس ایس دنیا کی سب سے بڑی رائیٹ ونگ کی تنظیم بن گئی‘ اس کے ممبرز کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ گئی۔
بی جے پی کی14ریاستوں میں حکومتیں بھی ہیں‘ آر ایس ایس نے2014کے الیکشن سے قبل فیصلہ کیا تھا یہ 75 سال سے اوپر کے سیاست دانوں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دے گی‘ ایل کے ایڈوانی اور ڈاکٹر منوہر جوشی اس فیصلے کی وجہ سے سیاسی دوڑ سے باہر ہوئے تھے اور نریندر مودی کو آگے بڑھنے کا موقع مل گیا‘ بہرحال قصہ مختصر بھارت میں پاکستان دشمنی اور اسلامی دہشت گردی ’’ہاٹ پراڈکٹ‘‘ ہے‘ مودی نے ہمیشہ اس کا فائدہ اٹھایا‘ 2014کے الیکشنز سے قبل 27 اکتوبر 2013 کو پٹنہ میں مودی کی ریلی میں بم دھماکے ہوئے‘ مودی نے یہ پاکستان کے کھاتے میں ڈالے اور الیکشن تک پاکستان کو بدلے کی دھمکیاں دیتا رہا اور ووٹوں میں اضافہ کرتا رہا‘ 14 فروری 2019 کو پلوامہ کا واقعہ پیش آ گیا۔
اس میں 44بھارتی فوجی مارے گئے‘ اپریل 2019میں الیکشن تھا‘ نریندر مودی وہ الیکشن جیت کر دوسری بار وزیراعظم بننا چاہتا تھا چناں چہ اس نے پاکستان پر حملے کا اعلان کر دیا‘ آر ایس ایس اس کی پشت پر تھی‘ انڈین ائیرفورس نے 25 اور 26 فروری کی درمیانی رات بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کی‘ اس میں محض ایک کوا مارا گیا لیکن نریندر مودی نے اعلان کر دیا‘ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپ پر حملہ کر کے 400 دہشت گرد مار دیے ہیں‘ پاکستان نے اگلے دن نہ صرف بھارت کے پانچ ائیر بیسز پر حملہ کر دیا بلکہ وہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر میزائل بھی داغ دیے اور واپسی پر بھارت کے دو طیارے بھی گرا دیے۔
ایک طیارہ بھارت میں گرا جب کہ دوسرا پاکستانی آزاد کشمیرمیں ‘ اس کا پائلٹ ابھے نندن گرفتار کر لیا گیا‘ خطہ اس کے بعد جنگ کے دہانے تک پہنچ گیا لیکن امریکا اور برطانیہ نے مل کر ملبہ سمیٹ لیا‘ نریندر مودی مار کھانے کے باوجود الیکشن میں جیت گیا‘ 2024میں نریندر مودی نے تیسرا الیکشن لڑا‘ یہ الیکشن مقبوضہ کشمیر کے آرٹیکل 370 اور بنگلور کے مارچ 2024 کے بم دھماکوں پر لڑا گیا‘ پوری الیکشن کمپیئن کے دوران نریندر مودی پاکستان پر طنز کرتا رہا‘ کبھی عوام اور فوج کے درمیان اختلافات پر فقرے کستا ‘ کبھی کے پی اور بلوچستان کے حالات کو نشانہ بناتا اور کبھی عوام کو یہ بتا کر ہنساتا رہا ’’میں نے پاکستان کے ہاتھ میں بھیک کا کٹورا پکڑا دیا‘‘ قصہ مزید مختصر بھارت کی بدنصیبی نریندر مودی توقعات سے انتہائی کم سیٹیں لینے کے باوجود اتحادی حکومت بنانے میں کام یاب ہو گیا اور یہ 9جون24 20 کو تیسری مرتبہ بھی وزیراعظم بن گیا۔
ہم اب آتے ہیں 22 اپریل 2025 کے واقعے کی طرف‘ آر ایس ایس 27 ستمبر 2025 کو ناگ پور میں اپنی سو سالہ تقریبات منانا چاہتی ہے‘ نریندر مودی اس تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے‘ یہ اس فنکشن میں کوئی ایسی ٹرافی‘ کوئی ایسا تحفہ لے جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے آر ایس ایس 75 سال کے بعد ریٹائرمنٹ کا قانون واپس لے لے اور یہ 2029میں چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکیں‘ مودی کی عمر اس وقت 74سال ہے‘ موجودہ قاعدے کے مطابق یہ وزارت عظمیٰ کا ان کی زندگی کا آخری دور ہے‘ یہ اگلے سال بی جے پی اور آر ایس ایس کے تمام عہدوں سے ریٹائر ہو جائیں گے لیکن نریندر مودی یہ نہیں چاہتے۔
یہ چین کے صدر شی چن پھنگ کی طرح تاحیات وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ظاہر ہے کوئی بڑا کارنامہ چاہیے اور پاکستان کو شکست دینے کے علاوہ بھارت کے نزدیک کوئی دوسرا کارنامہ کیا ہو سکتا ہے؟ چناں چہ نریندر مودی نے یہ کارنامہ سرانجام دینے کی منصوبہ بندی کی‘ دوسرا آر ایس ایس بھی پاکستان کو شکست دے کر اپنے سو سالہ جشن پر مہاتما گاندھی اور قائداعظم کی سوچ کو غلط ثابت کرنا چاہتی تھی۔
آپ خود سوچیں اگر آر ایس ایس کے سو سال بعد بھی بھارت کے اندر 22کروڑ مسلمان ہوں گے اور سرحدوں کی سائیڈز پر بنگلہ دیش اور پاکستان دو مسلمان ملک ہوں گے تو پھر آر ایس ایس کی کیا جسٹی فکیشن رہ جاتی ہے‘ پھردنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن کے وجود کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے چناں چہ نریندر مودی پہلگام کے 22 اپریل کے واقعے کو بنیاد بنا کر وہ غلطی کر بیٹھا جو 10مئی کے بعد دنیا بھر کی ملٹری اکیڈمیز میں کیس اسٹڈی کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آر ایس ایس کے آر ایس ایس نے بھارت میں کے نام سے بھارت کے بی جے پی چناں چہ سو سال اور یہ یہ لوگ کے لیے اور اس ہو گئی کے بعد کر دیا
پڑھیں:
ملت بیضا کی شیرازہ بندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-03-6
سید اقبال ہاشمی
قطر پر بلاجواز اور اشتعال انگیز اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامی او آئی سی اجلاس کی رسمی قرار داد سے مسلم امہ کو شدید مایوسی ہوئی تھی۔ عام مسلمان تو یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ قطر میں ہونے والے اجلاس کے بعد ناٹو طرز کا اتحاد وجود میں آئے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا حالانکہ پاکستان نے اس اجلاس میں دلیرانہ موقف اختیار کیا تھا اور مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی تجویز بھی پیش کی تھی۔
مسلمانوں کی چنگیز خان کے ہاتھوں ہونے والی ذلت آمیز شکست سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ہزیمت کی ایک تاریخ ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ دشمن بدل جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی قسمت میں لکھی ہوئی الف لیلوی رسوائی نہیں بدلتی ہے۔ ایسے میں حالیہ دنوں میں پاکستان نے جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان کو جو کرارا جواب دیا ہے اس نے دوست دشمن سب کو نہ صرف یکساں طور پر ششدر کردیا ہے بلکہ پاکستان کا معترف بھی کر دیا ہے اور ہندوستان تو ابھی تک سکتے کے عالم میں انگشت بدنداں بیٹھا ہے کہ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ دنیا فاتح کے ساتھ چلتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں جہاں ہندوستان تنہائی کا شکار ہو گیا ہے وہیں پاکستان جسے ماضی قریب میں کوئی ملک منہ لگانا پسند نہیں کرتا تھا اس کی ساری دنیا میں آو بھگت شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل ایک طرف کبھی چائنا تو کبھی روس کے سربراہان مملکت سے مل رہے ہیں تو دوسری جانب عرب ممالک سرخ قالین بچھا کر توپوں کی سلامی اور ہوائی جہازوں کا حصار بنا کر ان کا استقبال کر رہے ہیں۔
بے خودی بے سبب نہیں ہے غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
یہ سب ملاقاتیں اس بات کے غماز تھے کہ مسلمانوں کے حق میں کچھ نہ کچھ بہتر ہونے والا ہے۔ اور پھر بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے اچانک فوجی دفاعی تعاون کے معاہدے کا اعلان کر دیا اور وہ بھی اس طمطراق کے ساتھ کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا یعنی کہ بمصداق یک جان دو قالب۔ یہ معاہدہ تو مسلمانوں کے درمیان دین نے پہلے ہی طے کر دیا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو جسم میں کہیں تکلیف ہو تو دوسرا بھی اسے اسی طرح محسوس کرے۔ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے عوام میں بالخصوص اور مسلم امہ میں بالعموم خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندوستان میں البتہ صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کو درخور اعتناء سمجھتا ہی نہیں ہے اس لیے اسے ایسے کسی اتحاد کی کوئی پروا ہے بھی نہیں جسے وہ بلی کے خلاف چوہوں کی کانفرنس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھی وقت آگیا ہے کہ نہ صرف ابراہیمی معاہدہ جو کہ روح شریعت کے خلاف ہے مغرب کے منہ پر مار دے بلکہ اسرائیل کا حقہ پانی بند والا بائیکاٹ کرے۔ 1928 تک خلافت رہی اور آخری دنوں تک خلیفہ کی ایک دھمکی سے یورپ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔
دنیا تو ملٹی پولر ہوتی جا رہی ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ وہ خود ہزار سال سے بائی پولر مسلم ورلڈ میں جی رہے ہیں۔ ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد پاکستان نے ایران سے بھی پرخلوص مسلم بھائی چارے کا اظہار کیا تھا لیکن مشترکہ ملٹری معاہدہ پر بات چیت نشستند و گفتند و برخاستند سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ظاہر ہے کہ ایران کو پاکستان اور سعودی عرب کا معاہدہ نہ اچھا لگا ہے اور نہ وہ اس میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ ایران کی سعودی عرب کے ساتھ پراکسی وار کے پیچھے ایک ہزار سال کی تاریخ ہے اور یہ خلیج فارس اتنی وسیع ہے کہ بحیرہ عرب اس میں نہیں سما سکتا ہے۔ حالانکہ مسلم امہ کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ تمام اسلامی ممالک مل کر دشمن کے خلاف صف آراء ہوں۔ ایران کا اتحاد میں شامل ہونا امت اور خود ایران کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ایران کی امریکی پابندیوں اور بین الاقوامی تنہائی کا اس سے بہتر مداوا ممکن نہیں ہے۔ ایران نے ائسولیشن میں جو ٹیکنالوجی خود انحصاری کی بنیاد پر حاصل کی ہے وہ ہم سب کا قیمتی سرمایہ ہے جس کا فیض سب مسلمانوں تک پہنچنا چاہیے۔
مسلمانوں کو دشمنوں کی بہ نسبت آپس کے اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ منافقین و غداران وطن جو بک جاتے ہیں وہ بین المسلمین اتحاد کی چادر میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ خطرات ہیں جو ایک چیلنج کی صورت میں ہمیں درپیش تھا اور آج بھی ہمارے سامنے ایک مہیب اندھیرے کی صورت میں کھڑا ہے۔ دونوں ملکوں کو اس جانب بھرپور توجہ رکھنی چاہیے۔ اس معاہدے کی کامیابی کی صورت میں اس کا دائرہ کار خود بڑھتا چلا جائے گا۔
پاکستان کا یہ اتحاد مبارک بھی ہے کہ پاکستان کو حرمین شریفین کی حفاظت کی سعادت نصیب ہوگئی ہے لیکن ہمارے رہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بہت زیادہ بیرونی فوکس ہمیں معاشی، صنعتی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے اندرونی طور پر کمزور کر دیتی ہے جس کا ہم ماضی میں تجربہ کر کے ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ جس توازن کی اس وقت ملکی مفاد میں ضرورت ہے اسے بھلانا یا پس پشت ڈالنا بھاری نقصان کا سبب ہوگا۔
مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی یہ کوئی پہلی کاوش نہیں ہے لیکن یہ اتحاد کئی جہتوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان سے جنگ کے بعد پاکستان فوجی طور پر ایک مضبوط اسلامی ملک کے طور پر ابھرا ہے جس کی پشت پر پاک چائنا دوستی اور ان کی کثیر الجہتی اتحاد کی سنہری تاریخ ہے۔ یونی پولر ورلڈ میں چائنا ایک معاشی لحاظ سے طاقتور ملک بن کر سامنے آیا ہے جس کی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چائنا کا واضع موقف نظر آتا ہے کہ وہ جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتا ہے لیکن ہم خیال ممالک کو معاشی ترقی میں بھرپور تعاون فراہم کرنے کا خواہاں بھی ہے اور ایسا وہ عملی طور پر کر بھی رہا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں چائنا پاکستان کے تعاون سے سر انجام دینا چاہتا ہے جس میں سب سے اہم جنگی سازو سامان کی فروخت ہے۔
اب یہ بات مسلم ممالک پر واضح ہوچکی ہے کہ مغرب کی ٹیکنالوجی پر انحصار قابل بھروسا حکمت عملی نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت اور موبائل کمیونیکیشن میں ہونے والی ترقیوں کی وجہ سے اب یہ ممکن ہے کہ کسی بھی مشینری کو کبھی بھی ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان نے مغربی سامان حرب پر انحصار کم کرکے چائنا کے تعاون سے لوکل اور جوائنٹ پروڈکشن پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اسرائیل کی بے رحمانہ جارحیت کے بعد اسلامی دنیا میں مغرب کے خلاف مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اب یہ بھی ان پر واضح ہوگیا ہے کہ مغرب کے مہنگے حربی ساز و سامان پر انحصار حقیقت میں دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اس صورتحال میں چائنا اس یونی پولر ورلڈ کو بائی پولر بنا کر توازن پیدا کر سکتا ہے اور اس کی کم قیمت ٹیکنالوجی قابل بھروسا بھی ہے۔
یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاہدے کے پشت پر چائنا اور روس کھڑے ہیں۔ مغرب کی جانب سے معاہدے پر محتاط تبصرے اس بات کی عکاس ہیں۔ کچھ بعید نہیں ہے کہ امریکا نے بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر اس معاہدے کو قبول کر لیا ہو۔ چائنا ایک طرف تو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مغرب کا ہم پلّہ ہو چکا ہے تو دوسری طرف اس کے سامان حرب کی قیمت ان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ چائنا بھی امریکا کا ڈسا ہوا ہے اور اس کے لیے یہ بات اہم ہے کہ اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ چائنا کی پشت پر روس اور جنوبی کوریا کی قوتیں بھی ہیں اور اس تثلیث سے مغرب مفاہمت تو کر سکتا ہے لیکن مسابقت نہیں۔ یہ نکتہ لیکن اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلمان جب تک سائنس تحقیقات اور جوائنٹ ملٹری پروڈکشن پر توجہ نہیں دیں گے ان کا چائنا پر انحصار آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ چائنا کا مہیا کیا ہوا سامان حرب کل اسی طرح اسکریپ نہ کرنا پڑ جائے جیسے عرب ممالک مغرب سے درآمد شدہ دفاعی ساز و سامان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ قوموں کی عزت کا دار و مدا انحصار پر نہیں بلکہ خود انحصاری پر ہے۔
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول