آپریشن سندور ’بھارت ماتا‘ کی مانگ میں راکھ بھر گیا، سینیٹر عرفان صدیقی کا بھارتی وزیراعظم کی تقریر پر ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مودی کی تقریر شرمناک شکست کا اعتراف اور اس کی بدن بولی ہارے ہوئے شخص کا نوحہ تھا۔ایک ایک لفظ کہہ رہا تھا ’میں ہوں اپنی شکست کی آواز‘۔
بھارتی وزیر اعظم کی تقریر کے ردعمل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں سینٹر عرفان صدیقی نے لکھا کہ یہ ایک ایسی کھسیانی بلی کی بوکھلاہٹ تھی جسے نوچنے کے لیے کوئی کھمبا بھی نہیں ملا۔ آپریشن سندور ’بھارت ماتا‘ کی مانگ میں راکھ بھر گیا اور نہیں تو اتنا ہی بتادیتا کہ رافیل اور دیگر طیاروں کی لاشیں کہاں گل سڑ رہی ہیں؟
یہ بھی پڑھیے پاکستان سے صرف دہشتگردی اور آزاد کشمیر پر بات ہو سکتی ہے، نریندر مودی
انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلح افواج کے طمانچے کھانے اور دنیا بھر میں رسوا ہونے کے بعد اس طرح کا سیاپا کرنے کے بجائے چپ رہنا بہتر آپشن ہوتا ۔ ذلت کے داغ بہت گہرے ہوتے ہیں، تقریروں سے نہیں دھلتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سینیٹر عرفان صدیقی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی
پڑھیں:
لداخ میں بی جے پی کا دفتر اور بھارتی فوجی گاڑی نذرِ آتش؛ 4 مظاہرین ہلاک، 70 زخمی
مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں عوام مودی سرکار کے سیاہ قانون کے خلاف اور ریاست کا درجہ دینے کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق لداخ کے علاقے لیہہ میں صورت حال کشیدہ ہوگئی۔ مودی کی جماعت بی جے پی کا دفتر نذر آتش کردیا گیا۔
احتجاج کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب عوام لداخ کو ریاستی درجہ دلوانے اور بھارتی آئین کی چھٹی شیڈول پر تحفظات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس احتجاجی تحریک کا آغاز لیہہ ایپکس باڈی (LAB) کے چیئرمین شیرنگ دورجے کی اپیل پر کیا گیا تھا اور کارکنان مطالبات کی منظوری کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے جن میں سے دو کی حالت بگڑ گئی۔
اس سے قبل ماحولیات کے معروف کارکن سونم وانگچک نے بھی 10 ستمبر سے 15 روزہ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا تھا۔
مودی نواز کٹھ پتلی انتظامیہ نے اس احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور بھوک ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بول دیا۔
جس پر صورتحال بگڑ گئی اور نوجوانوں نے پتھراؤ کیا۔ بعدازاں مشتعل عوام نے بی جے پی کا دفتر اور بھارتی فوج کی ایک گاڑی کو نذر آتش کردیا۔
بھارتی سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کے بعد براہِ راست فائرنگ کردی۔
لیہہ ایپکس باڈی کے ترجمان نے بتایا کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں 4 افراد ہلاک اور 70 کے قریب زخمی ہوگئے۔
درجن سے زائد زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے جو مقامی اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہیں۔
عوامی تحریکوں کو جبر اور تشدد سے کچلنے کی کوشش کرنے والی مودی سرکار نے لیہہ میں ہر قسم کے مظاہروں اور اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی۔
متعدد علاقوں کو حساس قرار دیکر چپے چپے پر اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔ کئی جگہوں کی ناکہ بندی بھی کی گئی۔
خیال رہے کہ لداخ تاریخی طور پر جموں و کشمیر ریاست کا حصہ رہا ہے لیکن اگست 2019 میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر سے علیحدہ کرکے لداخ کو وفاقی اکائی بنا دیا تھا۔
مقامی آبادی نے مودی سرکار کے اس فیصلے کو اپنے ثقافتی تشخص، ماحولیاتی تحفظ اور قبائلی ڈھانچے کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔
اس کے بعد سے لیہہ ایپکس باڈی (LAB) اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) لداخ کو بطور الگ ریاست کا درجہ دینے اور چھٹی شیڈول کے تحت آئینی ضمانتوں کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
تاہم بھارت کی مودی سرکار نے ناجائز تسلط اور قبضے کی سیاست کو جاری رکھتے ہوئے عوامی مطالبے کو ماننے کے بجائے طاقت کا بے دریخ استعمال کر رہی ہے جیسا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ بھی کر رہی ہے۔