مودی کے دن گنے جاچکے ‘ پارلیمنٹ کے اندر ‘ باہر تنقید کا سیلاب آیا ہواہے : خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تنقید کا سیلاب آیا ہوا ہے، مودی کے دن گن جاچکے ہیں، فیصلہ بھارتی عوام کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیراور دہشتگردی پر بات ہوگی، بھارت سے مذاکرات کے ایجنڈے میں 3 چیزیں ہیں، دہشتگردی ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ دنیا اب خود فیصلہ کرے، پاکستان 25 سال سے دہشتگردی کا نشانہ بنا ہے، الزام بھی ہمارے اوپر لگایا جارہا ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود پیش کش کی تھی کہ دہشتگردی کے واقعے کی تحقیقات کی جائیں، پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کو تسلیم کیا جائے، اس نے بڑا نقصان اٹھایا، پوری دنیا سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا۔خواجہ آصف نے کہا کہ دوسرا ایجنٍڈا مسئکہ کشمیر ہے اس پر بھی بات ہونی چائیے، تیسرا پانی کے مسئلہ پر بات کی جائے گی، پانی نے معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی، سندھ طاس معاہدے کو چھیڑا نہیں جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ جب مزاکرات کی کوششں شروع ہو تو معاہدے کی شقوں کے مطابق دیکھنا چائیے، بھارت خود کئی سال سے دہشتگردی کرا رہا ہے، بھارت انٹر نیشنل دہشتگرد ہے، ہم گزشتہ 25 سے بھارت کے خلاف مشرقی اور مغربی محاز پر لڑ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے دہشتگردی کے ثبوت کینیڈا اور امریکامیں بھی موجود ہیں، یہ دہشگردی کے ثبوت مذاکرات میں سامنے آنے چائییں۔خواجہ آصف نے کہا کہ مودی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تنقید کا سیلاب آیا ہوا ہے، مودی نے اپنے خطاب میں چیزوں کو سمیٹ نے کی کوشش کی ہے، چیزیں اتنی بکھر چکی ہیں کہ مودی سمیٹ نہیں سکے گا، مودی کے دن گن جاچکے ہیں، فیصلہ بھارتی عوام کریں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: نے کہا کہ مودی کے کے خلاف
پڑھیں:
بھارت کا نرس سرلا بھٹ قتل کیس دوبارہ کھولنے کا فیصلہ، ماہرین نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا قرار دے دیا
سری نگر(نیوز ڈیسک) بھارت کی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی نے 1990 میں پیش آنے والے نرس سرلا بھٹ کے قتل کے 35 سال پرانے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے تجزیہ کار انصاف کی فراہمی کے بجائے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری کریک ڈاؤن کو جواز دینے اور کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک اور کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یہ واقعہ بھارتی حکومت کے مطابق کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے آغاز کا سبب بنا، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہجرت زیادہ تر رضاکارانہ تھی۔ 11 اگست کو سری نگر میں آٹھ مقامات پر چھاپے مارے گئے، جن میں سابق جے کے ایل ایف ارکان پیر نور الحق شاہ اور یاسین ملک کے گھروں پر کارروائیاں شامل تھیں۔ یہ چھاپے دہائیوں پرانے واقعے کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کیے گئے۔
سرلا بھٹ، جو شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ملازم تھیں، 18 اپریل 1990 کو ہوسٹل سے اغوا کے بعد قتل کر دی گئی تھیں۔ بھارتی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ قتل پنڈت برادری کو وادی چھوڑنے پر مجبور کرنے کا حصہ تھا، تاہم متعدد کشمیری پنڈت اس دعوے کی تردید کر چکے ہیں۔
ناقدین کے مطابق یہ مقدمہ بھارتی ریاستی بیانیے کا حصہ ہے جس میں کشمیری آزادی تحریک کو ’دہشتگردی‘ سے جوڑ کر سیاسی مطالبات کو غیر قانونی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے اور بے گناہ شہریوں کی گرفتاری عام ہیں، جن کی مثالیں چٹہ سنگھ پورہ، کپواڑہ اور ہندواڑہ کے واقعات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سینیئر کشمیری صحافی گوہر گیلانی کے مطابق اُس وقت کچھ کشمیری مسلمانوں نے سینیئر بھارتی افسر وجاہت حبیب اللہ سے پنڈت برادری کو جانے سے روکنے کی درخواست کی تھی، لیکن گورنر جگموہن نے کہا کہ جانے والوں کے لیے کیمپ اور تنخواہوں کا بندوبست ہو سکتا ہے، البتہ رہنے والوں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس کو دوبارہ کھولنا اسلاموفوبیا اور فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دینے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
Post Views: 6