Daily Sub News:
2025-09-28@00:17:45 GMT

یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا

یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 May, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں: ”ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے” (سورة آل عمران، 3:185)۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے دنیا کے تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں، لیکن اسلام میں شہادت کا درجہ عام موت سے کہیں بلند و بالا ہے۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے: ”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کا شعور نہیں” (سورة البقرہ، 2:154)۔ شہید دراصل مرتا نہیں، اس کا خون قوم کی عزت کی بنیاد بن جاتا ہے، اور اس کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے شجاعت کی مشعل راہ بن جاتی ہے۔


شہادت کے کئی درجات ہیں، اور وطن کی حفاظت میں جان قربان کر دینا ان میں سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس ماں سے پوچھیں جس کا بیٹا میدانِ جنگ سے لوٹ کر نہ آیا، اس باپ سے پوچھیں جس نے اپنے لال کو قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا، اس بیوہ سے پوچھیں جو خاموش آنسو بہاتے ہوئے اپنے بچوں کو اس وقار کے ساتھ پال رہی ہے جسے اس کا شوہر بچا گیا، ان بچوں سے پوچھیں جو اپنے والد کی تصویر کو دیکھ کر اس کے چہرے کی گرمی محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان عظیم خاندانوں کا درد ناقابلِ بیان ہے، کسی نے سچ کہا ہے: شہید کی جو موت ہے،وہ قوم کی حیات ہے۔
نبی اکرم ۖ نے فرمایا: ”شہید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ انعامات ملتے ہیں؛ اس کا خون گرنے کے ساتھ ہی اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اسے جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا ہے، اسے قبر کے عذاب سے بچایا جاتا ہے، قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رکھا جاتا ہے، اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جاتا ہے… اور اسے اپنے ستر رشتہ داروں کے لیے شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے” (حدیث، سنن الترمذی)۔ کیا بلند مرتبہ ہے یہ، جو صرف انہی کو نصیب ہوتا ہے جو فرض، عدل اور ایمان کے راستے میں سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔


اسلام کی تاریخ شہداء کی قربانیوں سے روشن ہے—وہ بلند شخصیات جنہوں نے حق، عدل اور دین کی سربلندی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ آج ہمارے سول و عسکری شہداء انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں: حضرت امیر حمزہ، نبی کریم ۖ کے چچا اور ”سید الشہدائ”؛ حضرت عمر، عدل کی مثال؛ حضرت عثمان غنی، سخاوت اور استقامت کے پیکر؛ حضرت علی، سیف اللہ؛ حضرت امام حسن، صلح کا نشان؛ اور حضرت امام حسین، جنہوں نے کربلا میں حق کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا۔ یہ عظیم نام شہادت کے کارواں کے علمبردار ہیں، اور ہمارے شہداء ان کے روحانی ساتھی اور وارث ہیں۔


7 اور 6 مئی 2025 کی اندھیری رات کو بھارتی مسلح افواج نے پاکستان کی سرزمین پر بلا اشتعال اور بزدلانہ حملے کیے، جن کا نشانہ معصوم شہری بنے، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ ان درندہ صفت حملوں میں 40 بے گناہ شہری شہید ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل تھے۔ یہ رات صرف وقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ روح کے اعتبار سے بھی تاریک تھی، معصوموں کے خون سے رنگی ہوئی۔ لیکن پاکستان اس دکھ میں بھی نہ جھکا، دشمن کی بزدلی کا جواب بہادروں کی جرا?ت سے دیا گیا۔
اس جارحیت کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج نے ”معرکہ? حق” کا آغاز کیا اور ”آپریشن بنیان مرصوص” کے تحت بھرپور اور درست جوابی کارروائیاں کیں۔ یہ صرف بدلہ نہیں تھا، بلکہ ایک باوقار قوم کا اپنے وقار کی بازیافت تھا۔ ہمارے محافظوں نے جنگ نہیں چاہی، لیکن جب مجبور کیا گیا، تو انہوں نے بے مثال دلیری سے اپنے وطن اور اس کی خودمختاری کا دفاع کیا۔
اس عظیم دفاع کے دوران، پاکستان کے گیارہ سپوت جامِ

شہادت نوش کر گئے اور 78 زخمی ہوئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ قوم کے دل پر کندہ وہ نام ہیں جو ہمیشہ کے لیے شجاعت کی علامت بن چکے ہیں۔ شہداء کی کہکشاں کے یہ چمکتے ستارے ہیں: اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف، نائیک عبد الرحمن، لانس نائیک دلاور خان، لانس نائیک اکرام اللہ، نائیک وقار خالد، سپاہی محمد عدیل اکبر، سپاہی نثار، چیف ٹیکنیشن اورنگزیب، سینئر ٹیکنیشن نجیب، کارپورل ٹیکنیشن فاروق، اور سینئر ٹیکنیشن مبشر۔
یہ شہداء صرف ایک وردی یا ادارے کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ اس تصورِ پاکستان کے علمبردار تھے جو آزادی اور خودمختاری پر یقین رکھتا ہے۔ ان کے نام وقت کی دھول میں نہیں کھوئیں گے، بلکہ وہ تاریخ کے سنہری اوراق پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو چکے ہیں۔


یاد رکھیں، ہم رات کو سکون سے سوتے ہیں کیونکہ وردی پوش سپاہی، فضائی محافظ، اور نیول جوان سرحدوں پر جاگ رہے ہوتے ہیں، آسمان تلے چوکیداری کرتے ہیں تاکہ ہم بے خوف آنکھیں موند سکیں۔ شہید زمین پر گرتا ہے، لیکن اس کا خون آزادی کے درخت کو سیراب کرتا ہے۔
جو اس معرکے سے غازی بن کر لوٹے، وہ بھی وقار اور حوصلے کے روشن مینار ہیں۔ وہ فتح اور خودمختاری کی نشانیاں ہیں، پاکستان کے ناقابلِ شکست عزم کی زندہ مثالیں۔ انہوں نے اپنے حوصلے سے ایک ایسی داستان رقم کی ہے جو آنے والی نسلیں فخر سے سنیں گی۔
پاکستان کی مسلح افواج اور پوری قوم اپنے سول اور عسکری شہداء کو سلام پیش کرتی ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہے۔ ان کا غم ہمارا مشترکہ غم ہے، ان کا فخر ہمارا قومی فخر۔


دشمن کو معلوم ہو جانا چاہیے—اور دنیا گواہ رہے—کہ پاکستانی قوم کبھی ظلم کے آگے سر نہیں جھکائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”بے شک اللہ ایمان والوں کا دفاع کرتا ہے” (سورة الحج، 22:38)۔ اس خدائی وعدے کے ساتھ اور اپنے محافظوں کی استقامت پر بھروسہ رکھتے ہوئے ہم ایک ملت کی طرح متحد کھڑے ہیں۔ ہماری خودمختاری مقدس ہے، اور جو بھی اسے چیلنج کرے گا، اسے مکمل، فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا—ان شاء اللہ۔


شہادت موت نہیں، ابدی زندگی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو کمزوروں کی ڈھال بنتی ہے، ظالم کو جھکاتی ہے، اور وطن کی حفاظت کرتی ہے۔ آج ہم ان عظیم ہستیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کیا تاکہ پاکستان عزت، آزادی، اور امن کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسٹیشن کمانڈر بریگیڈئر عدنان کی شہیدملک محبوب کے گھر آمد، فاتحہ خوانی ماں کی محبت امن کیوں ضروری ہے یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو،  اپنے گھر میں اجنبی! پہلگام کاخونیں ناٹک !! سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

مریم نواز: کلثوم نواز کا حوصلہ، نواز شریف کی تربیت

پاکستان کی سیاست میں کئی کردار آئے اور گم ہو گئے، لیکن کچھ نام ایسے ہیں جو اپنے عزم، قربانی اور جدوجہد کی بدولت تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

مریم نواز انہی ناموں میں سے ایک ہیں۔ ان کا سفر محض اقتدار تک پہنچنے کا قصہ نہیں، بلکہ قربانی، صبر اور عوامی خدمت کی ایک داستان ہے۔

سیاست کے میدان میں بہت سے نام آتے ہیں اور وقت کے ساتھ مٹ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو اپنی قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت لوگوں کے دلوں پر نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ مریم نواز انہی کرداروں میں سے ایک ہیں۔

ان کا سیاسی سفر کسی شاہراہ پر ہموار گاڑی کی مانند نہیں رہا بلکہ کانٹوں، رکاوٹوں اور طوفانوں سے بھرا ہوا راستہ رہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر مشکل نے انہیں کمزور کرنے کے بجائے اور مضبوط کر دیا۔

مریم نواز نے اپنی سیاست کا آغاز ایک انوکھے طریقے سے کیا۔ وہ براہِ راست ایوانوں یا جلسوں میں جلوہ گر نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے سب سے پہلے سوشل میڈیا کو اپنی آواز بنایا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاست دانوں کے نزدیک یہ پلیٹ فارم محض وقت گزاری کے سوا کچھ نہ تھا۔

لیکن مریم نواز نے اسے ہتھیار بنایا اور اپنے موقف, اپنے خیالات اور اپنے والد نواز شریف کی جدوجہد کو لاکھوں دلوں تک پہنچایا۔ یوں نوجوان نسل اور متوسط طبقہ ان کی طرف متوجہ ہوا اور سیاست میں ان کا پہلا قدم عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔

یہ سفر آسان نہیں تھا۔ کبھی عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑا، کبھی جیل کے دروازے پر والد کے ساتھ دکھ سہنا پڑا، اور کبھی میڈیا کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک بیٹی کی حیثیت سے والد کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا اور ایک سیاست دان کے طور پر الزامات اور پروپیگنڈے برداشت کرنے پڑے۔ لیکن شاید سب سے بڑا امتحان وہ تھا جب انہیں اپنی عظیم والدہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور جدوجہد کے دنوں میں میدان سیاست سنبھالنا پڑا۔ کلثوم نواز نے ایک طویل عرصہ اپنے خاندان اور پارٹی کے لیے قربانیاں دیں۔

انہوں نے آمرانہ دور میں تن تنہا جدوجہد کی اور مسلم لیگ ن کو سہارا دیا۔ مریم نواز نے اپنی والدہ کو اس کٹھن وقت میں دیکھ کر عزم و حوصلے کا وہ سبق سیکھا جس نے ان کی سیاست کو مزید نکھارا۔

وقت گزرا اور پنجاب کی قیادت مریم نواز کے ہاتھ آئی۔ یہ ایک بڑا امتحان تھا، اور ناقدین کی نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ لیکن مختصر مدت میں انہوں نے جو اقدامات کیے وہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ وہ محض نام کی لیڈر نہیں، بلکہ عمل کی سیاست دان ہیں۔

عوامی ٹرانسپورٹ میں انقلابی منصوبے شروع ہوئے جن سے عام آدمی کو سہولت ملی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے فیصلے کیے گئے۔ کسانوں کے لیے ریلیف پیکج اور مزدوروں کے لیے سہولتیں فراہم کی گئیں، تاکہ کمزور طبقے کو سہارا مل سکے۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ ان کے نزدیک اقتدار عیش و عشرت کا نہیں بلکہ عوامی خدمت کا ذریعہ ہے۔

پھر قدرت نے پنجاب کو ایک اور امتحان میں ڈالا۔ سیلاب آیا تو لاکھوں خاندان اجڑ گئے، ہزاروں گھر پانی میں بہہ گئے اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے بے یار و مددگار ہو گئے۔

ایسے وقت میں اکثر حکمران محفوظ فاصلے سے احکامات جاری کرتے ہیں۔ لیکن مریم نواز نے اپنے رویے سے ایک نئی روایت قائم کی۔ وہ خود سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچیں۔ پانی میں اتریں، کچی بستیوں میں بیٹھیں، چٹائی پر متاثرہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ کھانا کھایا، ننھے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلائے۔ عورتوں کو گلے لگایا اور بزرگوں کے پاس بیٹھ کر ان کا دکھ بانٹا۔

یہ مناظر صرف امداد بانٹنے کے نہیں تھے، بلکہ ایک جذباتی رشتہ جوڑنے کے تھے۔ عوام نے پہلی بار محسوس کیا کہ کوئی ان کا حکمران صرف حکم دینے والا نہیں، بلکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ مریم نواز نے اپنی پوری ٹیم کو بھی خدمت کے اسی جذبے کے ساتھ میدان میں رکھا۔

پنجاب کے ہر کونے میں ان کی موجودگی دکھائی دی. ان کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون جھلکتا رہا، جیسے وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہوں۔

یہی وہ لمحے ہیں جو مریم نواز کی شخصیت کو باقی سیاست دانوں سے الگ کرتے ہیں۔ وہ اب محض نواز شریف کی بیٹی نہیں رہیں بلکہ عوام کی خادم، محافظ اور قائد کے طور پر پہچانی جا رہی ہیں۔ ان کے انداز میں بیگم کلثوم نواز کی جھلک دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا منفرد رنگ بھی نمایاں ہے۔

ایک طرف والدہ کے حوصلے اور صبر کا عکس، اور دوسری طرف اپنی والد کی سیاسی وراثت کا تسلسل۔

یقیناً یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ مریم نواز کی کہانی ابھی لکھی جا رہی ہے۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاست ایک نئے عہد کی بنیاد ڈال رہی ہے۔ یہ وہ سیاست ہے جس میں نہ پروٹوکول کی دیوار ہے اور نہ فاصلے کی رکاوٹ۔

یہ وہ سیاست ہے جس میں عوام کا دکھ درد سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اور یہ وہ سیاست ہے جس میں قیادت صرف منصب نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کا عہد ہے۔

اور شاید یہ کوئی اتفاق نہیں کہ مریم نواز کے کردار میں بیگم کلثوم نواز کی قربانیوں اور حوصلے کی جھلک تو نمایاں ہے ہی، مگر ان کے ہر فیصلے اور ہر قدم میں نواز شریف کی تربیت اور سیاسی بصیرت کی روشنی بھی جھلکتی ہے۔

وہ بیٹی جس نے اپنے والد کو بار بار قربانی دیتے دیکھا، اب انہی اصولوں اور انہی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پنجاب کی عوام کی خدمت کر رہی ہے۔

یہی وہ وراثت ہے جو مریم نواز کو نہ صرف اپنی والدہ کی بیٹی بلکہ اپنے والد کی تربیت یافتہ قائد کے طور پر منفرد پہچان عطا کرتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شیخ ریحان احمد

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ
  • بھارت سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ جھوٹ کی فیکٹری ہے; پاکستانی قونصلر
  • ایران نے تین یورپی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا
  • توقعات سے بڑھ کر، شہباز شریف نے عالمی منظر نامے پر پاکستان کا وقار بلند کیا
  • جماعت اسلامی نجکاری کیخلاف ہر فورم پر آواز بلند کریگی ، عنایت اللہ خان
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • مریم نواز: کلثوم نواز کا حوصلہ، نواز شریف کی تربیت
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی؛ انڈیکس ایک بار پھر تاریخ کی بلند ترین سطح پر
  • پاکستان سعودیہ صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب نمایاں قدم ہے، ایاز میمن
  • چین کا عظیم کارنامہ: دنیا کا بلند ترین پل 28 ستمبر سے ٹریفک کے لیے کھلے گا