Daily Sub News:
2025-06-29@07:00:26 GMT

یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا

یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 May, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں: ”ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے” (سورة آل عمران، 3:185)۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے دنیا کے تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں، لیکن اسلام میں شہادت کا درجہ عام موت سے کہیں بلند و بالا ہے۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے: ”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کا شعور نہیں” (سورة البقرہ، 2:154)۔ شہید دراصل مرتا نہیں، اس کا خون قوم کی عزت کی بنیاد بن جاتا ہے، اور اس کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے شجاعت کی مشعل راہ بن جاتی ہے۔


شہادت کے کئی درجات ہیں، اور وطن کی حفاظت میں جان قربان کر دینا ان میں سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس ماں سے پوچھیں جس کا بیٹا میدانِ جنگ سے لوٹ کر نہ آیا، اس باپ سے پوچھیں جس نے اپنے لال کو قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا، اس بیوہ سے پوچھیں جو خاموش آنسو بہاتے ہوئے اپنے بچوں کو اس وقار کے ساتھ پال رہی ہے جسے اس کا شوہر بچا گیا، ان بچوں سے پوچھیں جو اپنے والد کی تصویر کو دیکھ کر اس کے چہرے کی گرمی محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان عظیم خاندانوں کا درد ناقابلِ بیان ہے، کسی نے سچ کہا ہے: شہید کی جو موت ہے،وہ قوم کی حیات ہے۔
نبی اکرم ۖ نے فرمایا: ”شہید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ انعامات ملتے ہیں؛ اس کا خون گرنے کے ساتھ ہی اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اسے جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا ہے، اسے قبر کے عذاب سے بچایا جاتا ہے، قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رکھا جاتا ہے، اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جاتا ہے… اور اسے اپنے ستر رشتہ داروں کے لیے شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے” (حدیث، سنن الترمذی)۔ کیا بلند مرتبہ ہے یہ، جو صرف انہی کو نصیب ہوتا ہے جو فرض، عدل اور ایمان کے راستے میں سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔


اسلام کی تاریخ شہداء کی قربانیوں سے روشن ہے—وہ بلند شخصیات جنہوں نے حق، عدل اور دین کی سربلندی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ آج ہمارے سول و عسکری شہداء انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں: حضرت امیر حمزہ، نبی کریم ۖ کے چچا اور ”سید الشہدائ”؛ حضرت عمر، عدل کی مثال؛ حضرت عثمان غنی، سخاوت اور استقامت کے پیکر؛ حضرت علی، سیف اللہ؛ حضرت امام حسن، صلح کا نشان؛ اور حضرت امام حسین، جنہوں نے کربلا میں حق کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا۔ یہ عظیم نام شہادت کے کارواں کے علمبردار ہیں، اور ہمارے شہداء ان کے روحانی ساتھی اور وارث ہیں۔


7 اور 6 مئی 2025 کی اندھیری رات کو بھارتی مسلح افواج نے پاکستان کی سرزمین پر بلا اشتعال اور بزدلانہ حملے کیے، جن کا نشانہ معصوم شہری بنے، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ ان درندہ صفت حملوں میں 40 بے گناہ شہری شہید ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل تھے۔ یہ رات صرف وقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ روح کے اعتبار سے بھی تاریک تھی، معصوموں کے خون سے رنگی ہوئی۔ لیکن پاکستان اس دکھ میں بھی نہ جھکا، دشمن کی بزدلی کا جواب بہادروں کی جرا?ت سے دیا گیا۔
اس جارحیت کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج نے ”معرکہ? حق” کا آغاز کیا اور ”آپریشن بنیان مرصوص” کے تحت بھرپور اور درست جوابی کارروائیاں کیں۔ یہ صرف بدلہ نہیں تھا، بلکہ ایک باوقار قوم کا اپنے وقار کی بازیافت تھا۔ ہمارے محافظوں نے جنگ نہیں چاہی، لیکن جب مجبور کیا گیا، تو انہوں نے بے مثال دلیری سے اپنے وطن اور اس کی خودمختاری کا دفاع کیا۔
اس عظیم دفاع کے دوران، پاکستان کے گیارہ سپوت جامِ

شہادت نوش کر گئے اور 78 زخمی ہوئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ قوم کے دل پر کندہ وہ نام ہیں جو ہمیشہ کے لیے شجاعت کی علامت بن چکے ہیں۔ شہداء کی کہکشاں کے یہ چمکتے ستارے ہیں: اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف، نائیک عبد الرحمن، لانس نائیک دلاور خان، لانس نائیک اکرام اللہ، نائیک وقار خالد، سپاہی محمد عدیل اکبر، سپاہی نثار، چیف ٹیکنیشن اورنگزیب، سینئر ٹیکنیشن نجیب، کارپورل ٹیکنیشن فاروق، اور سینئر ٹیکنیشن مبشر۔
یہ شہداء صرف ایک وردی یا ادارے کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ اس تصورِ پاکستان کے علمبردار تھے جو آزادی اور خودمختاری پر یقین رکھتا ہے۔ ان کے نام وقت کی دھول میں نہیں کھوئیں گے، بلکہ وہ تاریخ کے سنہری اوراق پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو چکے ہیں۔


یاد رکھیں، ہم رات کو سکون سے سوتے ہیں کیونکہ وردی پوش سپاہی، فضائی محافظ، اور نیول جوان سرحدوں پر جاگ رہے ہوتے ہیں، آسمان تلے چوکیداری کرتے ہیں تاکہ ہم بے خوف آنکھیں موند سکیں۔ شہید زمین پر گرتا ہے، لیکن اس کا خون آزادی کے درخت کو سیراب کرتا ہے۔
جو اس معرکے سے غازی بن کر لوٹے، وہ بھی وقار اور حوصلے کے روشن مینار ہیں۔ وہ فتح اور خودمختاری کی نشانیاں ہیں، پاکستان کے ناقابلِ شکست عزم کی زندہ مثالیں۔ انہوں نے اپنے حوصلے سے ایک ایسی داستان رقم کی ہے جو آنے والی نسلیں فخر سے سنیں گی۔
پاکستان کی مسلح افواج اور پوری قوم اپنے سول اور عسکری شہداء کو سلام پیش کرتی ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہے۔ ان کا غم ہمارا مشترکہ غم ہے، ان کا فخر ہمارا قومی فخر۔


دشمن کو معلوم ہو جانا چاہیے—اور دنیا گواہ رہے—کہ پاکستانی قوم کبھی ظلم کے آگے سر نہیں جھکائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”بے شک اللہ ایمان والوں کا دفاع کرتا ہے” (سورة الحج، 22:38)۔ اس خدائی وعدے کے ساتھ اور اپنے محافظوں کی استقامت پر بھروسہ رکھتے ہوئے ہم ایک ملت کی طرح متحد کھڑے ہیں۔ ہماری خودمختاری مقدس ہے، اور جو بھی اسے چیلنج کرے گا، اسے مکمل، فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا—ان شاء اللہ۔


شہادت موت نہیں، ابدی زندگی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو کمزوروں کی ڈھال بنتی ہے، ظالم کو جھکاتی ہے، اور وطن کی حفاظت کرتی ہے۔ آج ہم ان عظیم ہستیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کیا تاکہ پاکستان عزت، آزادی، اور امن کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسٹیشن کمانڈر بریگیڈئر عدنان کی شہیدملک محبوب کے گھر آمد، فاتحہ خوانی ماں کی محبت امن کیوں ضروری ہے یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو،  اپنے گھر میں اجنبی! پہلگام کاخونیں ناٹک !! سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

آزادفلسطین ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات کا سوچا بھی نہیں جاسکتا: حافظ طاہر محمود اشرفی

---فائل فوٹو

چیئرمین پاکستان علما کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے لیے آزاد، خود مختار ریاست کا قیام نہیں ہوتا اس وقت تک اسرائیل سے تعلقات کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

حافظ طاہر محمود اشرفی نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطین سے متعلق سعودی عرب اور پاکستان کا موقف روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔

اس سے قبل طاہر محمود اشرفی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کے اجلاس سے اُمت کو بہت اُمیدیں ہیں۔ ایران، فلسطین، لبنان، شام، یمن سب اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہیں۔

طاہر محمود اشرفی کا کہنا تھا کہ اُمت مسلمہ کی نگاہیں سعودی عرب، ترکیہ اور پاکستان کی طرف ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیرداخلہ محسن نقوی کی سی ایم ایچ بنوں آمد،زخمی جوانوں کی عیادت کی
  • اگر سب رہبر معظم کی آواز پر لبیک کہتے رہیں گے تو کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی، جنرل قاآنی
  • آئینی بینچ کا فیصلہ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے
  • دریائے سوات میں سیاحوں کی موت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے نظام کی موت ہوئی ہے، عطا اللہ تارڑ
  • راہل گاندھی کمزور اور محروم طبقات کی مضبوط آواز بن گئے ہیں، کانگریس
  • آزادفلسطین ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات کا سوچا بھی نہیں جاسکتا: حافظ طاہر محمود اشرفی
  • حضرت عمر فاروقؓ، عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ
  • قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ
  • تہذیبوں کا تصادم اور پاکستان کی آزمائش
  • حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ