کیا ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
جب توپیں بولتی ہیں تو صرف بارود نہیں گرتا انسانیت کی امیدیں بھی ریزہ ریزہ ہوتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ جسے اب تین دن کی جنگ کہا جا رہا ہے، ایک لمحہ تھا جب دنیا ایک بار پھر ایٹمی تباہی کے دہانے پرکھڑی ہوگئی تھی۔ جو خاموشی اب قائم ہوئی ہے وہ صرف ایک عسکری توقف نہیں، وہ انسانیت کی آخری پکار ہے۔ اگر یہ سیز فائر نہ ہوتا، اگر جنگ کی آگ کو وقت پر بجھایا نہ جاتا تو اس کا شعلہ نہ صرف لاہور، دہلی، سری نگر اور بمبئی کو جھلساتا بلکہ پورے خطے اور شاید پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتا۔
ہم جو برصغیر کے باسی ہیں، جانتے ہیں کہ ہمارے آنگن میں جنگ کبھی دور نہیں رہی۔ 1947 سے اب تک کتنی جنگیں ہوچکی ہیں؟ کتنے بچے یتیم، کتنی عورتیں بیوہ ہو گئیں، ماؤں سے ان کے بیٹے چھن گئے اور ان دونوں ممالک کی عوام غربت کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا ہم نے اب تک کچھ نہیں سیکھا؟جنگ جب لڑی جاتی ہے تو نقصان تو عام آدمی کا ہوتا ہے، مگر اس بار دنیا نے جس شدت سے اس کشیدگی کو محسوس کیا وہ اس لیے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اور آج کی دنیا میں اگرکوئی ایک ایٹمی میزائل حرکت میں آتا ہے تو اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی۔چین ترکی یہاں تک کہ امریکا بھی ایک دم متحرک ہو گیا۔ یورپی دارالحکومتوں میں خفیہ اجلاس روس کے میڈیا میں فکرمندی اور جاپان سے لے کر آسٹریلیا تک نیوز رومز میں اضطراب، یہ سب اس لیے کہ دنیا جانتی ہے پاکستان اور بھارت اگر جنگ میں الجھ گئے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی پہلی چنگاری ہو سکتی ہے۔
پاکستان نے جواب دیا،بھارت نے الزام لگایا لیکن اصل بات جو وقت نے ثابت کی وہ یہ ہے کہ دونوں قوموں کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یہ صرف ایک سیزفائر نہیں، یہ وقت کی طرف سے ایک آخری مہلت ہے اور اگر ہم نے اب بھی نفرت اور جنگی جنون کو لگام نہ دی تو اگلی بار یہ مہلت شاید نہ ملے۔امن کی راہ کمزوروں کا انتخاب نہیں شعور والوں کا فیصلہ ہوتا ہے، جو قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں وہ بندوق کو نیام میں رکھ کر قلم اٹھاتی ہیں۔ ہمیں وہی راستہ اپنانا ہوگا۔سیز فائر کے بعد ہمیں جنگ کی نفسیات کو جڑ سے پکڑنا ہے۔ ہمیں اپنی کتابوں اپنے اسکولوں اپنے میڈیا اور اپنے سیاست دانوں سے یہ پوچھنا ہے کہ کیوں ہم بار بار نفرت کے بیج بوتے ہیں؟ کیوں ہم اپنی نسلوں کو دوسرے کی تباہی میں خوشی تلاش کرنے کی تربیت دیتے ہیں؟ کیوں ہماری سرحدیں صرف فوجی نقطہ نظر سے دیکھی جاتی ہیں انسانی نقطہ نظر سے نہیں؟
برصغیر کے پاس دنیا کو دینے کے لیے تہذیب علم و ادب اور فن کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے، مگر ہم نے اسے جنگی سیاست کی گرد میں چھپا دیا ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی اصل پہچان اپنے انسان ہونے کی پہچان کو زندہ کریں۔ہمیں امن کی بات کرنی ہے مگر ایک نئی زبان میں ایسی زبان جو خوف سے نہیں حوصلے سے بولی جائے۔ ایسی بات جو کمزوری سے نہیں شعور اور دوراندیشی سے کی جائے۔
آج جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں تو مجھے پاپ فرانسس کی ایک بات یاد آئی’’ جنگ کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی یہ صرف نئے مسائل پیدا کرتی ہے‘‘ اور جب میں غزہ کے بچوں یوکرین کے پناہ گزینوں اور روہنگیا کے کیمپوں کو دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اگر نہ سنبھلے تو یہ خطہ بھی ایسی ہی بربادی کا استعارہ بن جائے گا۔ یہ سیز فائر ایک آخری موقع ہے، ہمیں مکالمے، معاہدے، عوامی رابطوں ثقافتی تبادلوں اور تعلیمی تعاون کی نئی بنیاد رکھنی ہوگی۔ ہماری دشمنی کی زمین پر اب نئی فصل کاشت ہونی چاہیے امن کی فصل۔ ورنہ توپوں کے شور میں صرف دشمن کی نہیں ہماری اپنی نسلوں کی آوازیں بھی دب جائیں گی۔
جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں وہ لفظوں، نظریوں اور پراپیگنڈے سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ ہمارے میڈیا نے ہمارے رہنماؤں نے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی نظام نے بھی نفرت کے ایسے بیج بو دیے ہیں جن کی فصل ہمیں ہر چند سال بعد جنگ کی صورت کاٹنی پڑتی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو سکھایا کہ دشمن کی تباہی ہماری فتح ہے، ہم نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ انسانیت کی بقا ہی اصل کامیابی ہے۔ یہ خاموشی جو آج قائم ہے یہ کوئی فتح کی گواہی نہیں، یہ ایک ہار ہے ہماری عقل کی ہار ہماری دانش کی ہار ہمارے ضمیرکی ہارکیونکہ اگر ہم واقعی جیت گئے ہوتے تو ہمیں ہر بار سیز فائرکی بھیک نہ مانگنی پڑتی۔ ہمیں دنیا میں ثالثی کے لیے دروازے نہ کھٹکھٹانے پڑتے۔
جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا طبل بجتا ہے، اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ہرگلی، ہر محلے، ہرگھر میں سنائی دیتی ہے۔ یہ جنگیں چاہے چند دن کی ہوں یا مہینوں پر محیط ان کا سب سے بڑا بوجھ عام آدمی اٹھاتا ہے، وہ کسان جو کھیتوں میں ہل چلاتا ہے وہ مزدور جو فیکٹری میں کام کرتا ہے وہ ماں جو اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا کرتی ہے وہ بچہ جو خوفزدہ ہوکر سوال کرتا ہے کہ جنگ کیوں ہوتی ہے یہ سب اس المیے کا حصہ ہوتے ہیں جسے ہم جنگ کہتے ہیں۔جب جنگ ہوتی ہے تو صرف فوجی محاذ پر لوگ نہیں مرتے، زندگی کے ہر شعبے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ معیشت کمزور ہو جاتی ہے تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں مہنگائی بڑھتی ہے اور بے یقینی کا عالم چھا جاتا ہے۔ جو سرحد کے قریب بستے ہیں ان کے لیے ہر دن زندگی اور موت کے بیچ کا ایک پل ہوتا ہے۔
بھارت میں بھی حالات مختلف نہیں ہوتے۔ وہاں کے لوگ بھی اسی طرح خوف غم اور غیر یقینی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب بمبئی یا دہلی میں حملے ہوتے ہیں یا سرحد پر بھارتی فوجی مارے جاتے ہیں تو وہاں بھی والدین تڑپتے ہیں اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔ جنگ کی آگ دونوں طرف کے میڈیا میں جوش و خروش لاتی ہے لیکن اس شور میں انسانی المیہ دب جاتا ہے۔ جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ نسلوں کے درمیان نفرت کا بیج بو دیتی ہے۔
اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب ٹی وی پر چلنے والے تبصرے اور سیاست دانوں کی تقریریں ایسی فضا بناتی ہیں جس میں دشمن صرف سرحد کے اس پار کا نہیں ہوتا بلکہ ہر اس شخص کو دشمن سمجھا جانے لگتا ہے جو امن کی بات کرے۔ یوں انسان، انسان سے کٹ جاتا ہے، رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں اور انسانیت پسِ پشت چلی جاتی ہے۔جب کبھی دونوں ملکوں کے درمیان کچھ بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے ،کوئی امن معاہدہ، کوئی کرکٹ سیریز یا کوئی ثقافتی تبادلہ تو عوام میں بھی ایک تازگی،ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ عام زندگی گزاریں، اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دیں اور نفرت کی دیواروں کو توڑ کر ایک دوسرے کو انسان کی حیثیت سے دیکھیں۔ مگر افسوس کہ یہ امیدیں بار بار ٹوٹ جاتی ہیں کیونکہ جنگ کا کاروبارکرنے والے طاقتور اور منظم ہیں اور ان کا فائدہ نفرت میں ہوتا ہے۔
جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ نئے مسائل جنم لیتے ہیں، اگر دونوں ملک اپنی توانائی، تعلیم، صحت، تجارت اور انسانی ترقی پر لگائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، مگر جب تک جنگ کو بہادری اور امن کوکمزوری سمجھا جاتا رہے گا، تب تک عام لوگ اسی طرح اذیت سہتے رہیں گے اور غربت اور جہالت کے اندھیروں سے کبھی باہر نہیں آ پائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان ہوتے ہیں ہوتا ہے ہیں اور سے نہیں جنگ کی امن کی اور ان
پڑھیں:
برائے مہربانی ہمیں سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، ترجمان پاک فوج کی عمران خان سے مذاکرات کی تردید
پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سابق وزیراعظم عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں، یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں، پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیں، جو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے، جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ انٹرویو 18 مئی کو آئی ایس پی آر میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد بعض بین الاقوامی میڈیا ٹیموں کو انٹرویوز دیے تھے جن میں بی بی سی بھی شامل تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟
ان کا کہنا تھا ’میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں، میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا، ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں‘۔
بی بی سی کے مطابق حال ہی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر بھی سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ کا الزام لگا، ان تمام واقعات کے دوران یہ تاثر بھی موجود رہا کہ انہی سیاسی مداخلت کے الزامات کی وجہ سے فوج کی صفوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کو ردّ کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کے لیے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ’اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے، لیکن جب معرکہِ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں، ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے، یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں، ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔‘
پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ فوج اپنی اصل ذمہ داری یعنی دفاع تک محدود نہیں ہے بلکہ اب وہ دیگر شعبوں جیسے معیشت، ٹیکنالوجی اور انتظامی امور میں بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس سوال پر کہ فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سویلین معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور فوج اپنے مینڈیٹ سے ہٹ رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ’میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کے لیے نکلتی ہیں، تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے، جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں، تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں، اس ملک میں اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں، ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں، ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے، ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ جو داخلی سلامتی کے لیے فوج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے، وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے، ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے، یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے‘۔
Post Views: 2