Express News:
2025-09-27@19:35:40 GMT

کیا ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

جب توپیں بولتی ہیں تو صرف بارود نہیں گرتا انسانیت کی امیدیں بھی ریزہ ریزہ ہوتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ جسے اب تین دن کی جنگ کہا جا رہا ہے، ایک لمحہ تھا جب دنیا ایک بار پھر ایٹمی تباہی کے دہانے پرکھڑی ہوگئی تھی۔ جو خاموشی اب قائم ہوئی ہے وہ صرف ایک عسکری توقف نہیں، وہ انسانیت کی آخری پکار ہے۔ اگر یہ سیز فائر نہ ہوتا، اگر جنگ کی آگ کو وقت پر بجھایا نہ جاتا تو اس کا شعلہ نہ صرف لاہور، دہلی، سری نگر اور بمبئی کو جھلساتا بلکہ پورے خطے اور شاید پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتا۔

ہم جو برصغیر کے باسی ہیں، جانتے ہیں کہ ہمارے آنگن میں جنگ کبھی دور نہیں رہی۔ 1947 سے اب تک کتنی جنگیں ہوچکی ہیں؟ کتنے بچے یتیم، کتنی عورتیں بیوہ ہو گئیں، ماؤں سے ان کے بیٹے چھن گئے اور ان دونوں ممالک کی عوام غربت کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا ہم نے اب تک کچھ نہیں سیکھا؟جنگ جب لڑی جاتی ہے تو نقصان تو عام آدمی کا ہوتا ہے، مگر اس بار دنیا نے جس شدت سے اس کشیدگی کو محسوس کیا وہ اس لیے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اور آج کی دنیا میں اگرکوئی ایک ایٹمی میزائل حرکت میں آتا ہے تو اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی۔چین ترکی یہاں تک کہ امریکا بھی ایک دم متحرک ہو گیا۔ یورپی دارالحکومتوں میں خفیہ اجلاس روس کے میڈیا میں فکرمندی اور جاپان سے لے کر آسٹریلیا تک نیوز رومز میں اضطراب، یہ سب اس لیے کہ دنیا جانتی ہے پاکستان اور بھارت اگر جنگ میں الجھ گئے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی پہلی چنگاری ہو سکتی ہے۔

پاکستان نے جواب دیا،بھارت نے الزام لگایا لیکن اصل بات جو وقت نے ثابت کی وہ یہ ہے کہ دونوں قوموں کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یہ صرف ایک سیزفائر نہیں، یہ وقت کی طرف سے ایک آخری مہلت ہے اور اگر ہم نے اب بھی نفرت اور جنگی جنون کو لگام نہ دی تو اگلی بار یہ مہلت شاید نہ ملے۔امن کی راہ کمزوروں کا انتخاب نہیں شعور والوں کا فیصلہ ہوتا ہے، جو قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں وہ بندوق کو نیام میں رکھ کر قلم اٹھاتی ہیں۔ ہمیں وہی راستہ اپنانا ہوگا۔سیز فائر کے بعد ہمیں جنگ کی نفسیات کو جڑ سے پکڑنا ہے۔ ہمیں اپنی کتابوں اپنے اسکولوں اپنے میڈیا اور اپنے سیاست دانوں سے یہ پوچھنا ہے کہ کیوں ہم بار بار نفرت کے بیج بوتے ہیں؟ کیوں ہم اپنی نسلوں کو دوسرے کی تباہی میں خوشی تلاش کرنے کی تربیت دیتے ہیں؟ کیوں ہماری سرحدیں صرف فوجی نقطہ نظر سے دیکھی جاتی ہیں انسانی نقطہ نظر سے نہیں؟

برصغیر کے پاس دنیا کو دینے کے لیے تہذیب علم و ادب اور فن کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے، مگر ہم نے اسے جنگی سیاست کی گرد میں چھپا دیا ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی اصل پہچان اپنے انسان ہونے کی پہچان کو زندہ کریں۔ہمیں امن کی بات کرنی ہے مگر ایک نئی زبان میں ایسی زبان جو خوف سے نہیں حوصلے سے بولی جائے۔ ایسی بات جو کمزوری سے نہیں شعور اور دوراندیشی سے کی جائے۔

آج جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں تو مجھے پاپ فرانسس کی ایک بات یاد آئی’’ جنگ کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی یہ صرف نئے مسائل پیدا کرتی ہے‘‘ اور جب میں غزہ کے بچوں یوکرین کے پناہ گزینوں اور روہنگیا کے کیمپوں کو دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اگر نہ سنبھلے تو یہ خطہ بھی ایسی ہی بربادی کا استعارہ بن جائے گا۔ یہ سیز فائر ایک آخری موقع ہے، ہمیں مکالمے، معاہدے، عوامی رابطوں ثقافتی تبادلوں اور تعلیمی تعاون کی نئی بنیاد رکھنی ہوگی۔ ہماری دشمنی کی زمین پر اب نئی فصل کاشت ہونی چاہیے امن کی فصل۔ ورنہ توپوں کے شور میں صرف دشمن کی نہیں ہماری اپنی نسلوں کی آوازیں بھی دب جائیں گی۔

جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں وہ لفظوں، نظریوں اور پراپیگنڈے سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ ہمارے میڈیا نے ہمارے رہنماؤں نے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی نظام نے بھی نفرت کے ایسے بیج بو دیے ہیں جن کی فصل ہمیں ہر چند سال بعد جنگ کی صورت کاٹنی پڑتی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو سکھایا کہ دشمن کی تباہی ہماری فتح ہے، ہم نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ انسانیت کی بقا ہی اصل کامیابی ہے۔  یہ خاموشی جو آج قائم ہے یہ کوئی فتح کی گواہی نہیں، یہ ایک ہار ہے ہماری عقل کی ہار ہماری دانش کی ہار ہمارے ضمیرکی ہارکیونکہ اگر ہم واقعی جیت گئے ہوتے تو ہمیں ہر بار سیز فائرکی بھیک نہ مانگنی پڑتی۔ ہمیں دنیا میں ثالثی کے لیے دروازے نہ کھٹکھٹانے پڑتے۔

جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا طبل بجتا ہے، اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ہرگلی، ہر محلے، ہرگھر میں سنائی دیتی ہے۔ یہ جنگیں چاہے چند دن کی ہوں یا مہینوں پر محیط ان کا سب سے بڑا بوجھ عام آدمی اٹھاتا ہے، وہ کسان جو کھیتوں میں ہل چلاتا ہے وہ مزدور جو فیکٹری میں کام کرتا ہے وہ ماں جو اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا کرتی ہے وہ بچہ جو خوفزدہ ہوکر سوال کرتا ہے کہ جنگ کیوں ہوتی ہے یہ سب اس المیے کا حصہ ہوتے ہیں جسے ہم جنگ کہتے ہیں۔جب جنگ ہوتی ہے تو صرف فوجی محاذ پر لوگ نہیں مرتے، زندگی کے ہر شعبے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ معیشت کمزور ہو جاتی ہے تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں مہنگائی بڑھتی ہے اور بے یقینی کا عالم چھا جاتا ہے۔ جو سرحد کے قریب بستے ہیں ان کے لیے ہر دن زندگی اور موت کے بیچ کا ایک پل ہوتا ہے۔

بھارت میں بھی حالات مختلف نہیں ہوتے۔ وہاں کے لوگ بھی اسی طرح خوف غم اور غیر یقینی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب بمبئی یا دہلی میں حملے ہوتے ہیں یا سرحد پر بھارتی فوجی مارے جاتے ہیں تو وہاں بھی والدین تڑپتے ہیں اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔ جنگ کی آگ دونوں طرف کے میڈیا میں جوش و خروش لاتی ہے لیکن اس شور میں انسانی المیہ دب جاتا ہے۔ جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ نسلوں کے درمیان نفرت کا بیج بو دیتی ہے۔

اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب ٹی وی پر چلنے والے تبصرے اور سیاست دانوں کی تقریریں ایسی فضا بناتی ہیں جس میں دشمن صرف سرحد کے اس پار کا نہیں ہوتا بلکہ ہر اس شخص کو دشمن سمجھا جانے لگتا ہے جو امن کی بات کرے۔ یوں انسان، انسان سے کٹ جاتا ہے، رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں اور انسانیت پسِ پشت چلی جاتی ہے۔جب کبھی دونوں ملکوں کے درمیان کچھ بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے ،کوئی امن معاہدہ، کوئی کرکٹ سیریز یا کوئی ثقافتی تبادلہ تو عوام میں بھی ایک تازگی،ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ عام زندگی گزاریں، اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دیں اور نفرت کی دیواروں کو توڑ کر ایک دوسرے کو انسان کی حیثیت سے دیکھیں۔ مگر افسوس کہ یہ امیدیں بار بار ٹوٹ جاتی ہیں کیونکہ جنگ کا کاروبارکرنے والے طاقتور اور منظم ہیں اور ان کا فائدہ نفرت میں ہوتا ہے۔

جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ نئے مسائل جنم لیتے ہیں، اگر دونوں ملک اپنی توانائی، تعلیم، صحت، تجارت اور انسانی ترقی پر لگائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، مگر جب تک جنگ کو بہادری اور امن کوکمزوری سمجھا جاتا رہے گا، تب تک عام لوگ اسی طرح اذیت سہتے رہیں گے اور غربت اور جہالت کے اندھیروں سے کبھی باہر نہیں آ پائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے درمیان ہوتے ہیں ہوتا ہے ہیں اور سے نہیں جنگ کی امن کی اور ان

پڑھیں:

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی؛ انڈیکس ایک بار پھر تاریخ کی بلند ترین سطح پر

کراچی:

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج پھر ریکارڈ ساز تیزی دیکھی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

کاروباری ہفتے کے آخری روز بازارِ حصص میں زبردست تیزی  کا رجحان ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ نے تاریخ کی نئی بلند ترین سطح کو چھو لیا۔ ہے۔ آج کاروبار کے آغاز ہی سے سرمایہ کاروں کی جانب سے بھرپور خریداری دیکھنے میں آئی جس کے باعث انڈیکس میں تیزی کا رجحان غالب رہا۔

ابتدائی گھنٹوں میں 100 انڈیکس میں 800 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ ہوا، تاہم کچھ ہی دیر بعد یہ رفتار اور بھی بڑھ گئی اور انڈیکس 1901 پوائنٹس اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 61 ہزار 181 پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا، جو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔

رواں سال اب تک پی ایس ایکس 100 انڈیکس میں 39 فیصد کا نمایاں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران یہ اضافہ 96 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں یہ تیزی حکومتی پالیسیوں، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور معاشی اشاروں میں بہتری کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ کاری کے بڑھتے رجحان نے نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں کو متحرک کیا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی ایک مرتبہ پھر پاکستانی مارکیٹ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ تسلسل برقرار رہا تو اسٹاک مارکیٹ ملکی معیشت کے لیے مزید مثبت اشارے فراہم کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا ہمیں غیر اخلاقی طور پر فوجی دھمکیاں دے رہا ہے، وینزویلا
  • ابھیشیک شرما نے ایشیا کپ میں محمد رضوان کا ریکارڈ توڑ کر نئی تاریخ رقم کر دی
  • فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے،نہ تاریخ معاف کرے گی نہ آنے والی نسلیں، بنگلا دیشی صدر
  • غزہ کیلیے کچھ نہ کرنے پر تاریخ اور آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی؛ بنگلادیش
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی؛ انڈیکس ایک بار پھر تاریخ کی بلند ترین سطح پر
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں نئی تاریخ رقم
  • ایشیا کپ کی 41 سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور بھارت فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے
  • اسلام آباد میں ڈرائیونگ لائسنس کی آخری تاریخ میں 7 دن کی توسیع
  • ’ہمیں پاکستان سے بہتر ہونا ہے‘، بھارت نے بڑی ڈرون مشقوں کا اعلان کردیا
  • پاک سعودیہ تاریخ ساز دفاعی معاہدہ !