بھارت کی سیاست اس وقت ہلچل کا شکار ہے، کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے گزشتہ برس منعقدہ لوک سبھا انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے، جنہوں نے ملک گیر احتجاج، وزارتی استعفوں اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے خلاف نئی اپوزیشن مہم کو جنم دیا ہے۔

’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ کے نعرے کے زیر اثر یہ مہم بقول راہول گاندھی ’جمہوری اقدار کی بحالی کی جدوجہد‘ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہادیوپورہ اسمبلی حلقے میں ہی1,00,250  سے زائد جعلی ووٹ ڈالے گئے، جبکہ پورے انتخابی عمل میں دوہرے ووٹر رجسٹریشن، جعلی پتے، ایک ہی جگہ پر ہزاروں ووٹروں کا اندراج، ووٹر شناختی کارڈ کی تصاویر میں چھیڑ چھاڑ، اور ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار کا بے دریغ غلط استعمال ہوا۔

Massive #INDIA bloc march to the #ElectionCommission against #BJP_EC collusion in manipulating voter lists & rigging polls.

Salute to @RahulGandhi Ji& leaders for standing firm & courting arrest for democracy’s sake.#votechoriexposed pic.twitter.com/pOHasopiia

— V D Satheesan (@vdsatheesan) August 11, 2025

راہول گاندھی کے مطابق یہ محض سیاسی اختلاف نہیں بلکہ آئین ہند کے بنیادی اصول ’’ایک شخص، ایک ووٹ‘‘ پر کھلا حملہ ہے۔

الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو ’بنیاد سے محروم اور مضحکہ خیز‘ قرار دے کر مسترد کر دیا، راہول گاندھی کو حلفیہ بیان دینے یا معافی مانگنے کا چیلنج کیا، اور بعض مثالوں کو جن میں ایک بزرگ شہری کے 2 بار ووٹ ڈالنے کا دعویٰ شامل تھا، غلط ثابت کیا۔

بی جے پی نے بھی الیکشن کمیشن کا دفاع کرتے ہوئے گاندھی پر آئینی اداروں کو کمزور کرنے کا الزام لگایا اور حلفیہ ثبوت کا مطالبہ کیا، جسے ناقدین ’حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اقتدار بچانے کی حکمت عملی‘ قرار دے رہے ہیں۔

اس دباؤ کے باوجود، راہول گاندھی نے 11 اگست کو تقریباً 300  اپوزیشن ارکانِ پارلیمنٹ کی قیادت کرتے ہوئے نئی دہلی میں الیکشن کمیشن کے دفتر تک ایک بڑا احتجاجی مارچ کیا، پرامن مظاہرے کو پولیس کی رکاوٹوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ اپوزیشن اتحاد کی ایک طاقتور علامت بن گیا، جو شفاف عدالتی تحقیقات اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کی ضمانت کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اسی روز کرناٹک کے وزیر برائے کوآپریشن کے این راجنا نے ’ووٹ چوری‘ سے متعلق اپنے متنازعہ بیان کے بعد استعفیٰ دے دیا، اس سے قبل 21 جولائی کو بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکڑ بھی علالت کے سبب مستعفی ہو چکے تھے، ان استعفوں نے سیاسی عدم استحکام کی فضا کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

کانگریس پارٹی اب 14 اگست سے اپنی جارحانہ ملک گیرمہم ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ کا باضابطہ آغاز کرنے جا رہی ہے، جس میں شمع بردار جلوس اور دستخطی مہم شامل ہوں گے، جس کا ہدف براہِ راست الیکشن کمیشن اور مودی حکومت کو کٹہرے میں لانا اور مبینہ منظم ’ووٹ چوری‘ اور بدعنوانی کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تمام واقعات بھارت کی جمہوریت پر عوام کے اعتماد کے شدید بحران کی عکاسی کرتے ہیں، اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کے انکشافات نہ صرف انتخابی نتائج کی ساکھ کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے اور قانون کی بالادستی کو بھی ہلا رہے ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اورعالمی برادری کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ کیا بھارت بیلٹ باکس پر اپنے اعتماد کو بحال کر پائے گا یا یہ اس کی جمہوری روح کے زوال کا آغاز ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الیکشن کمیشن انتخابی بحران بھارت بی جے پی بیلٹ باکس جمہوریت راہول گاندھی کانگریس کرناٹک مودی حکومت ووٹ چوری ووٹر لسٹ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن بھارت بی جے پی بیلٹ باکس جمہوریت راہول گاندھی کانگریس کرناٹک مودی حکومت ووٹ چوری ووٹر لسٹ راہول گاندھی الیکشن کمیشن

پڑھیں:

یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر پیٹر وھیلَن کا لیکچر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر)کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے ” ایکسپرٹ لیکچر سیریز” کے تحت منعقدہ لیکچر میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر پیٹر وھیلَن نے کمپٹیشن قوانین میں کمپنیوں کی “پیرنٹل لائیبلٹی” کے موضوع پر نہایت اہم لیکچر دیا۔ پروفیسر وھیلَن، اسکول آف لا میں پروفیسر اور انسٹیٹیوٹ آف کرمنل لا اینڈ جسٹس کے ڈائریکٹر ہیں۔تقریب کا آغاز کرتے ہوئے، چیئرمین کمپٹیشن کمیشن ڈاکٹر کبیر سدھو نے کہا کہ یہ کمپٹیشن کمیشن میں اصلاحات کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کمیشن نے قانون کی خلاف ورزیوں پر ایک ارب روپے سے زائد کے جرمانے ریکور وصول کیے ہیں۔ یہ ریکوریاں صارفین کے حقوق کے تحفظ اور مارکیٹوں میں منصفانہ مقابلے کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر کبیر نے مزید کہا کہ کمپٹیشن کمیشن نے فعال پیروی سے زیر التوا مقدمات میں سے نصف سے زائد کے فیصلے سنا دئے گئے ہیں، جن کے نتیجے میں قانون کی عملداری یقینی ہوئی اور کمپنیوں سے جرمانے ریکور ہوئے۔ کمپٹیشن کمیشن میں ایک “سینٹر آف ایکسیلنس” قائم کیا گیا ہے، جہاں ماہرین اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں اورمختلف سیکتروں میں کمپٹیشن کے فروغ اور حائل ریکاوٹوں پر اعلیٰ سطح کی تحقیق کی رہی ہے۔

کامرس رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • ہماری سفارتی کوششوں کے سبب حوثی باغیوں نے یرغمال بنائے جہاز کو چھوڑ دیا، وزیر داخلہ
  • ’ سرحد پار تشدد اور اقلیتوں پر مظالم بے نقاب ‘، اقوام متحدہ میں پاکستان کا بھارت کو دوٹوک جواب
  • مکہ مکرمہ: ممبر الیکشن کمیشن بابر حسن بھروانہ کی معروف بزنس مین چوہدری محمد افضل جٹ سے ملاقات
  • ایشیا کپ میں شاندار کارکردگی: شاہین آفریدی نے بابر اعظم کو پیچھے چھوڑ دیا
  • یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر پیٹر وھیلَن کا لیکچر
  • شفافیت اداروں کی کامیابی کی ضمانت ہے‘آصف جان صدیقی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 269 میں الیکشن کروانے کا حکم
  • پیپلز پارٹی ”ڈاکوؤں کی انجمن“ بن چکی، دھاندلی میں  الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ سہولت کار ہیں، منعم ظفر
  • فلسطین پرمودی کا موقف انسانیت سےعاری ہے،سونیا گاندھی
  • کولمبین صدر کی اقوام متحدہ میں ٹرمپ پر کڑی تنقید، امریکی وفد اجلاس چھوڑ کر چلاگیا