صدر عالمی بینک اجے بنگا نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق صدر عالمی بینک اجے بنگا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کیا گیا۔ اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی تبدیلی یا خاتمہ فریقین کی باہمی رضامندی سے ممکن ہے۔ اور ورلڈ بینک کا کردار صرف ثالثی کا ہے فیصلہ سازی کا نہیں۔سندھ طاس معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے کیا گیا تھا تاکہ پانی کے مسائل پر کوئی جنگ یا تنازع نہ ہو۔زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے کافی اہم ہے۔اس معاہدے کی ضرورت 1948 میں اُس وقت پیش آئی۔ جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی۔ اور 19ستمبر 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔اس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہیجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدے کی سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کے درمیان کیا گیا دریاو ں

پڑھیں:

کپڑوں کا بینک

اپنے ملک کی برائیاں تو ہر دم سننے کو ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم اس کام سے ایک منفی لذت کشید کرتے ہیں۔ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ مادر وطن میں خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ عرض کرنے میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اگر اچھائیاں تلاش کرنے کی سعی کی جائے تو وہ بھی ان گنت ہیں۔ سماج کے اکثر لوگ بہترین ہیں۔ ان کی اچھائی ہر منفی نکتہ پر غالب ہے۔

اس کا عموماً ذکر نہیں ہوتا۔ ایک اور سنجیدہ بات بھی ہے۔ لوگوں کی واضح اکثریت ‘ اپنی اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ بہتر کام کرنے کی تڑپ ضرور رکھتی ہے۔ اس میں عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ۔ دوسروں کی کیا بات کروں ۔ بذات خود‘ طویل عرصہ‘ اس تذبذب میں مبتلا رہا کہ کون سا ایسا راستہ اختیار کروں‘ جس سے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے میں مدد ملے۔ ذاتی طور پر خاموش طبع انسان ہوں۔ طبیعت کے برعکس بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا۔

اچھی باتیں بھی سننے کو ملیں۔ مگر‘ اکثر لوگ‘ دوسروں کی مدد‘ ذاتی شان و شوکت کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کسی کی نیت پر شبہ نہیں کر رہا۔ذاتی یقین ہے کہ نیکی یا اچھے کام کاڈھنڈھوراا نہیں پیٹنا چاہیے۔ کسی پسے ہوئے مرد یا خاتون کی دل سے مدد کر رہے ہیں۔ تو اسے سوشل میڈیا کی زینت نہ بننے دیں۔ کوئی ایسی تصویر نہ بنوائیں، جس سے چہرے پر محض ایک وہیل چیئر دینے پر مسرت کے جذبات ہوں ‘ اور جس معذور کو یہ سہولت مہیا کی جا رہی ہے، اس کا سر جھکا ہوا نظر آئے۔ دراصل‘ لوگوں میں آسانیاں پیدا کرنا‘ بذات خود ایک انعام ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے آپ کو تمانیت اور عزت کی تھپکی ہے۔ جس کی لذت کا اندازہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔

چار برس پہلے کی بات ہے۔ چند پرانے دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کا پروگرام بنا۔ لاہور کے گلبرگ میں ان گنت ریستوران ہیں۔ ہم سات آٹھ دوست تھے۔ بوفے میں چالیس پچاس کھانے آویزاںتھے۔ لذت دہن کمال تھی ۔ بل تقریباً پچاس ہزار روپے آیا۔ میزبان کے لیے‘ یہ رقم بڑی معمولی سی تھی۔ کیونکہ وہ صاحب ثروت انسان ہیں۔

بہر حال میں سوچ میں پڑ گیا۔ اتنے پیسوں میں تو متعدد‘ مستحق انسانوں کو دو چار ہفتے کھانا مہیا کیا جا سکتا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ میرے یہ تمام دوست کاروبار سے منسلک ہیں۔ اور دولت میں کھیل رہے ہیں۔ اس کھانے کے چند ہفتے کے بعد ‘ تمام دوستوں کو مدعو کیا۔ وقت مقررہ پر جب سارے آ گئے۔ تو انھیں‘ ڈیفنس لاہور کے نزدیک ایک گاؤں کے تندور پر لے گیا۔ ڈیسپوزیبل پلیٹیں پہلے لے چکا تھا۔ پانی کی بوتلیں بھی موجود تھیں۔ اس تندور پر مزدور‘ راج مستری اور اسی سطح کے پچیس تیس لوگ اطمنان سے کھانا کھا رہے تھے۔

ہم سارے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بڑے سکون سے سادہ سا کھانا کھا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آٹھ بندوں کے کھانے کابل صرف سترہ سو روپیہ آیا۔ دال اتنی لذیذ تھی کہ معلوم پڑتاتھا کہ شاید اس سے پہلے‘ دال نہیں بلکہ کچھ اور ہی کھاتے رہے ہیں۔ یقین فرمائیے۔ کسی بھی دوست نے برا نہیں منایا۔ اب تو یہ ریت سی بن گئی ہے کہ جب بھی ہم تمام دوستوں نے ملنا ہو‘ گپیں لگانی ہوں تو ہم کسی ڈرائیور ہوٹل یا تندور پر جا کر کھانا کھاتے ہیں۔ اس روٹین کو تقریباً چار برس ہو چکے ہیں۔

 سب کچھ عرض کرنے کا ایک مقصد ہے۔ ہم میں سے اکثریت ‘ حد درجہ مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی کو سادگی کی طرف لے کر آئیں۔ تصنع سے نفرت فرمائیے۔ مقابلہ بازی سے مکمل پرہیز کیجیے۔ یقین فرمائیے۔ آپ کی زندگی سکون میں آ جائے گی۔ اب ذرا آگے چلیے۔ دوسرے لوگوں کے لیے آسانیاں کس طرح پیدا کی جائیں۔ ذہن میں رہے کہ اس اچھے کام کا انحصار آپ کے صاحب ثروت ہونے میں نہیں ہے۔بلکہ آپ کی ذہنی سوچ پر ہے۔ دولت‘ قدرت کا ایک انعام ضرور ہے۔ مگر یہ حاصل ِزندگی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ہاں یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ اگر آپ اپنے مال و دولت کو لوگوں کے مسائل حل کرنے پر صرف کریں ۔ تو اس شخص کی نسبت زیادہ پھیلاؤ سے کام کر سکتے ہیں۔

جس کے وسائل محدود ہیں۔ پر یہ پھر خدائی فیصلہ ہے۔ کہ اگر ایک شخص ‘ حد درجہ کم وسائل میں بھی ‘ لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرتا ہے تو اس کا اجر‘ کتنا کثیر ہو گا؟ س کو صرف اور صرف خدا کی مرضی پر چھوڑ دیجیے۔ انسانوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے لیے آپ کو وسائل سے زیادہ ‘ پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔ شاید آپ کو میری اس بات پر بالکل یقین نہ آئے۔ مگر سچ یہی ہے۔ اپنے گھر میں ذاتی کپڑوں پر نظر دوڑائیے۔ اندازہ ہو گا کہ بہت سے ایسے لباس ہیں۔ جو آپ کی نظر سے اوجھل ہیں۔ اسے عرصے سے استعمال ہی نہیں کر رہے۔ ان تمام کپڑوں کو جمع کیجیے۔

انھیں دھلوائیے‘ لفافے میں پیک کیجیے ۔ باہر جایئے۔ آپ کی دانست میں کوئی بھی ایسا شخص نظر آئے۔ جو مستحق ہو‘ اسے کپڑوں کا ایک جوڑادے دیجیے۔ کسی صلہ کی توقع مت کریں۔ اجنبی شخص کے چہرے پر جو وقتی مسکراہٹ نمودار ہو گی۔ وہی آپ کا زاد راہ ہے۔ یہ بہت آسان کام ہے۔ اس کے لیے اضافی وسائل بھی درکار نہیں ہیں۔ خواتین کو نئے کپڑے بنانے کا فطری شوق ہے۔ یہ جبلت ‘انھیں قدرت نے ودیعت کی ہے۔ اکثر خواتین ‘ فرامو ش کر جاتی ہیں۔ کہ ان کی الماری میں کتنے پرانے سوٹ موجود ہیں جو عرصے سے انھوں نے زیب تن نہیں کیے۔ گمان ہے۔

کہ پچاس سے ساٹھ فیصد ملبوسات ایسے نکل آئیں گے۔ جنھیں کافی مدت سے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ بلکہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بھی موجود ہیں۔ فیصلہ فرمایئے ۔ جو ملبوسات ‘ آپ کی ضرورت سے زیادہ ہیں ‘ جنھیں فراموش کیا جا چکا ہے۔ انھیں جمع کیجیے۔ صاف کیجیے ۔ اور پھر کسی بھی مستحق خاتون کو تحفتاً دے دیجیے۔ اس بہترین عطیہ سے جو سکون آپ کو خدا کی طرف سے نصیب ہو گا، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ امیر‘ متوسط ‘ بلکہ ہر سطح کے مرد اور خواتین‘ یہ سادہ سا کام کر سکتی ہیں۔ یہ کئی معاشرتی اور معاشی مشکلات کا حل بھی ہے۔ ذاتی بات بھی عرض کرتا چلوں۔ کیونکہ یہ نہ ہو کہ آپ کے ذہن میں آئے کہ کیا میں بھی یہ کر رہا ہوں یا صرف اور صرف لفاظی ہے۔

سرکاری اور نجی سطح پر‘ ان گنت ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔شرٹس‘ جوتے‘ پرفیوم اور استعمال کی دیگر اشیاء غیر ممالک سے خریدتا تھا۔ ٹائیاں جمع کرنے کا شوق بھی تھا۔ دس برس پہلے‘ ذہن میں ایک نایاب فکر نمودار ہوئی۔ جو پختہ درپختہ ہوتی چلی گئی۔ مکمل طور پر سادگی کی طرف آ گیا۔ قیمتی لباس پہننے ختم کر ڈالے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ بیش قیمت ترین ملبوسات ‘ جوتے اور ٹائیاں‘ ان لوگوں اور نوجوانوں میں تقسیم کر دیں جن کو انھیں‘ مجھ سے زیادہ ضرورت تھی۔

اب دو چار کرتے شلوار ہیں۔ تین چار عام سے کوٹ پینٹ ہیں۔ ضرورتیں محدود سے محدود تر کر دی ہیں۔یہ نہیں کہ اجلے کپڑے زیب تن نہیں کرتا۔ صاف ستھرے لباس استعمال کرتا ہوں۔ آج ذہنی طور پر حد درجہ آسودہ اور مطمئن ہوں۔ یہ ذاتی تجربہ اگر سہل نہ ہوتا ۔ تو شاید میں سادہ زندگی کی طرف کبھی مائل ہی نہ ہو پاتا۔اس معمولی سے ذاتی تجربہ نے کم از کم میری زندگی کو بہتری کی طرف تبدیل کردیا۔

اب اسی نکتے کو یکسر دوسری طرح دکھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پورے ملک کے لوگوں سے مخاطب ہوں۔ بچے‘ بوڑھے ‘ نوجوان‘ بچیاں ‘ گھریلو خواتین‘ ورکنگ وومن‘ سب سے گزارش کررہا ہوں۔ ذاتی سطح پر تو آپ فالتو لباس تقسیم ضرور کیجیے۔ مگر اس کو ایک نظام سے مربوط فرما دیجیے۔ جس شہر‘ قصبہ‘ دیہات میں قیام پذیر ہیں۔ رشتہ داروں‘ دوستوں‘ سہیلیوں کو جمع کیجیے۔ بتایئے کہ آپ کو پرانے کپڑوں کی ضرورت ہے۔ مدعا بیان کیجیے کہ مقصد صرف اور صرف حاجت مند لوگوں کو صاف ستھرا لباس مہیا کرنا ہے۔ اس کوشش کو آپ کوئی نام بھی دے دیجیے۔ ’’کلاتھ بینک‘‘ کپڑوں کا بینک یا کوئی بھی دوسرا نام۔کسی بھی نام میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ اس بینک کو محلہ کی سطح سے شروع کیجیے۔

ہو سکتا ہے کہ چند لوگ‘ آپ کا مذاق اڑائیں۔ انھیں ٹھٹھہ لگانے دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا پر پختہ یقین فرمائیے۔ معمولی سا نظر آنے والا کام‘ پورے ملک کے سفید پوش لوگوں کو تن ڈھانپنے کا باعزت ذریعہ بن جائے گا۔ اور ہاں‘ کوشش کیجیے ۔ کہ کپڑوں کو تقسیم کرتے وقت کوئی تصویر نہ بنائیں۔ اسے سوشل میڈیا کی زینت نہ بننے دیں۔ یہ کام خدا کی راہ میں کرنا ہی صائب ہے۔ بے خوف ہو جایئے۔

قدرت ‘ آپ کو ‘ اس کوشش میں ایسے تھامے گی‘ کہ ششدر رہ جائیں گے۔اس اس انہونی جگہ سے خدا‘ وسائل اور عظم عطا فرمائیں گے جن کے متعلق آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ویسے تو یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں نکمی‘ نکھٹو اور بے درد حکومتوں سے کسی قسم کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے آج ہی پختہ ادارہ فرمائیے۔ لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کی کوشش تو کیجیے۔ پھر دیکھیے ‘ رب العزت کی ذات آپ کے لیے کون کون سے دروازے کھولتی ہے۔ یقین فرمائیے کہ قدرت کی فیاضی کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے پانی کے حصے پر بھارت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں، پاکستان
  • انڈس واٹر ٹریٹی: کیا پاکستان کے حق میں فیصلہ آنے کی کچھ خاص وجوہات ہیں؟
  • سندھ طاس تنازع: پاکستان کی طرف سے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم
  • پانی کی تقسیم کامعاملہ،عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں بڑافیصلہ سنادیا
  • بھارت مغربی دریا پاکستان کیلیے بلا رکاوٹ بہنے دے، عالمی ثالثی عدالت
  • عالمی عدالت کا بھارت کو مغربی دریاؤں کا پانی بلا روک ٹوک بہنے دینے کا حکم
  • عالمی عدالت کا بھارت کو پاکستان کا پانی نہ روکنے کا حکم، حکومت کا خیرمقدم
  • پاکستان کا سندھ طاس معاہدہ کی عمومی تشریح سے متعلق ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم
  • بھارت یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا؛ بلاول بھٹو
  • کپڑوں کا بینک