پاکستان سعودیہ معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
ٹائن بی نے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو قومیں چیلنجز اور خطرات سے لڑتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں وہ ترقی کے زینے پر اوپر ہی اوپر سفر جاری رکھتی ہیں۔ 17ستمبر 2025 کو ریاض سعودی عرب میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹیجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے۔
پاکستان کے اندر اور دنیا بھر میں اس اہم معاہدے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں شور مچا ہے کہ سعودی عرب ویسے تو ہندوستان کے بہت قریب ہے اور ہندوستان بھی پاکستان کی طرح ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے تو سعودیہ نے ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان سے آخر کیوں دفاعی معاہدہ کیا۔پاکستان کے اندر تقریباً ساری ہی سیاسی قیادت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان سے باہر چند مشہور تجزیہ کاروں نے رائے دی ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کی افواج ، خطے کی برتر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں،کہ یہ وہ فوج ہے جس پرخلیجی ممالک اپنے دفاع کے لیے بھروسہ کر سکتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بھلاہو نریندر مودی کا اگر وہ امسال اپریل میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن اور پھر اس کو بہانہ بنا کر مئی میں پاکستان پر حملہ نہ کرتا تو ہم پاکستانی اور دنیا بھر کے لوگ پاکستانی افواج خاص کر پاکستان ایئر فورس کی حربی صلاحیت سے نا آشنا رہتے۔اس اہم معرکے نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان ایک اہم ابھرتی فوجی قوت ہے۔
ہندوستان کی بیوقوفی کے بعد 9ستمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ایک غیر دانشمندانہ فیصلے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کے میزبان قطر پر حملہ کر کے حماس کی پوری مذاکراتی ٹیم کو تہہ تیغ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔اس حملے سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک امریکی سیکیورٹی چھتری کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے لیکن قطر پر اسرائیلی حملے نے عربوں کو باور کرادیا کہ امریکی سیکیورٹی گارنٹی صرف کاغذی پیرہن ہے،یہ کہ امریکا صرف اور صرف اسرائیل کے ساتھ ہے۔
دوحہ پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد عرب اور اسلامی ممالک کی ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی جس میں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔اجلاس کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد کی ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں سعودی ولی عہد نے شہباز شریف کو سرکاری دورے کی دعوت دی۔
وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ17ستمبر کو ریاض سعودی عرب روانہ ہوئے۔ وزیرِ اعظم پاکستان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔اسی روز دونوں رہنمائوں نے ایک لینڈ مارک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس کی ایک اوپریٹو کلاز کے مطابق دونوں میں سے کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا اور دونوں ممالک مل کر حملے کا جواب دیں گے۔ اس باہمی معاہدے کو کئی حوالوں سے پرکھنا ہوگا مثلاً یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سے دونوں ممالک کو کیا فائدہ ہو گا، خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
قطر پر اسرائیلی حملے نے خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب کو ایک غیر متوقع مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔امریکا نے اس اسرائیلی حملے کو نہ تو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی مذمت کی۔امریکی وزیرِ خارجہ حملے کے بعد اسرائیل پہنچے اور اسرائیل کی حمایت میں کھڑے رہنے کا اعلان کیا۔اس صورتحال میں سعودی عرب چونکا اور اپنے دفاعی آپشنز کو Diversify کرنے کا فیصلہ کیا۔سعودی عرب میں افواج کو دفاعِ وطن میں وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جو عام طور پر اکثر ممالک میں ہوتی ہے۔سعودی عرب میں بہترین دفاعی قوت حارث الوطنیNational Guards ہے۔
حارث الوطنی سعودی شاہی خاندان اور اس کی حکومت کو سیکیورٹی چھتری فراہم کرتی ہے۔ سب سے اچھے ہتھیار اسی کے پاس ہوتے ہیں۔ سعودی افواج دوسرے درجے کی فورس ہیں۔ پاک سعودی دفاعی معاہدے سے سعودیہ کے دفاع کے لیے جان دینے کی ذمے داری بنیادی طور پر پاکستانی افواج کے سرآ گئی ہے۔اس معاہدے سے سعودیہ کا مغرب اور خاص کر امریکا پر انحصار کم ہوگا جس سے سعودیہ کے دفاعی آپشنز بڑھ گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ دوسرے خلیجی ممالک بھی دفاع کے لیے پاکستان کی طرف دیکھیں۔
افواجِ پاکستان کو اس دفاعی معاہدے سے بہت فائدہ ہوگا۔سعودی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کواستعمال میں لاتے ہوئے افواجِ پاکستان بہت کچھ سیکھیں گی۔سعودی عرب میں تعینات ہمارے فوجیوں کے ماہانہ مشاہرے میں خاصا اضافہ ہوگا۔حکومتِ پاکستان کی یہ ایک بہت اہم سفارتی کامیابی ہے جس سے حکومت پر اندرونی سیاسی دبائو کم ہوگا۔پاکستان کی فوج کے افسروں اور جوانوں کا اپنی اعلیٰ ترین قیادت پر اعتبار بڑھے گا۔
اعلی ترین فوجی قیادے کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔ریاستِ پاکستان کے چیلنجز میں بہت اضافہ ہوگا۔پاکستان کی ریاست کو پہلے ہی ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے خطرات درپیش ہیں۔اب مشرقِ وسطیٰ کے سب سے اہم ملک کو اسرائیل،یمن و ایران کی طرف سے درپیش خطرات سے بھی ریاستِ پاکستان کو نمٹنا ہوگا۔ٹائن بی کے مطابق اگر ہم ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہو سکے تو ایک شاندار مستقبل سامنے ہوگا۔اسرائیل مغرب اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرے گا۔سعودیہ دفاع کے سلسلے میں پاکستان پر بھروسہ کر سکتا ہے لیکن اس میدان میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ہاں معیشت کے شعبے میں سعودیہ ضرور پاکستان کی مدد کر سکے گا۔
ہندوستان اور پاکستان کی لیبرفورس ایک بڑی تعداد میں سعودیہ میں مقیم ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستانی لیبر فورس پر بہت پابندیاں تھیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ اب پاکستانی لیبر فورس کو سعودی عرب میں کام کرنے کے بہت مواقع ملیں گے۔خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن ہندوستان اس سے سخت نالاں ہے کیونکہ اس کی مرضی کے خلاف پاکستان پر بھروسہ کیا گیا ہے۔
چین خطے کا ایک بہت اہم ملک ہے۔چین پہلے ہی سعودی عرب اور ایران کو مخاصمت سے ہٹا کر قریب لا چکا ہے۔یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چین اس معاہدے سے مطمئن ہوگا کیونکہ چین اور پاکستان کی مثالی باہمی دوستی ہے، پاکستان کے بڑھتے اثر و رسوخ سے چین مطمئن ہوگا۔ روسی سفیر نے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کو سراہا ہے۔ امریکا نے تا حال کوئی منفی بیان نہیں دیا۔معاہدے سے پاکستان کی پاور پروجیکشن ہوگی۔اس معاہدے سے پاکستان نے اپنے اسٹریٹیجک آپشنز کو Expandکیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے ہاتھ میں ایک اہم ڈپلومیٹک ٹُول ہے جس سے پاکستان بہت سے فائدے سمیٹ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی حملے دفاعی معاہدے اس معاہدے سے میں پاکستان پاکستان کی سے پاکستان پر حملہ دفاع کے
پڑھیں:
پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ خطے میں نیا سیکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دینے کا آغاز ہے؛ ایران
ایران کے صدر مسعود پزیشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین حالیہ دفاعی معاہدے کو خوش آئند قرار دیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایرانی صدر نے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی حملے کی بھی مذمت کی۔
ایرانی صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کے غزہ اور اس سے باہر دیگر ممالک پر حملے نہ صرف جارحیت ہیں بلکہ سفارتی عمل کے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف بھی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے دوران ان کے ملک کو بدترین حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں معصوم بچوں اور سائنسدانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔
مسعود پزیشکیان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت خطے میں امن کے سب سے بڑے خطرے کے طور پر سامنے آ رہی ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم ممالک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔
صدر مسعود پزیشکیان نے کہا کہ علاقائی سلامتی طاقت کے زور سے نہیں بلکہ اعتماد، رابطوں میں اضافے اور کثیر جہتی تعاون سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے پھیلائے جانے والے انتشار اور مختلف ممالک پر حملوں کا مقابلہ تعاون پر مبنی ایک مضبوط ہمسائیگی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
ایرانی صدر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم مسلم دنیا کے لیے مشترکہ سکیورٹی نظام کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ایرانی صدر کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاہدہ مسلم ممالک کو سیاسی، سیکیورٹی اور دفاعی سطح پر مزید قریب لانے اور دفاعی شعبوں میں باہمی تعاون کا ذریعہ بنے گا۔
جوہری توانائی سے متعلق امریکی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ایرانی صدر نے واضح کیا کہ ایران نے کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی مستقبل میں کرے گا۔