اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 مئی 2025ء) اقوام متحدہ نے سوڈان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ دہراتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں امدادی ضروریات مسلسل بڑھ رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔

ادارے کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے تمام متحارب فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت شہریوں اور شہری تنصیبات کو تحفظ دینے اور ضرورت مند لوگوں کو انسانی امداد کی محفوظ، پائیدار اور بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

Tweet URL

انہوں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ ملک میں امدادی اقدامات کے لیے بھرپور تعاون کرے تاکہ مزید زندگیوں کا ضیاع روکا جا سکے۔

(جاری ہے)

دوبارہ نقل مکانی

عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بتایا ہے کہ سوڈان کے صوبہ مغربی کردفان میں بڑھتے عدم تحفظ کے باعث 36 ہزار سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگوں کو دوسری مرتبہ بے گھر ہونا پڑا ہے جو صوبے کے مغربی علاقوں اور شمالی کردفان میں پناہ کے لیے سرگرداں ہیں۔

ادارے کے مطابق، شمالی ڈارفر کے ابو شوک پناہ گزین کیمپ اور صوبائی دارالحکومت الفاشر کے متعدد حصوں میں سلامتی کے خدشات کی وجہ سے حالیہ دنوں 2,000 سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔

ان میں بیشتر لوگوں نے الفاشر کے مختلف علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ دیگر نے طویلہ کا رخ کیا ہے۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت داروں نے نئے پناہ گزینوں کے لیے مدد میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ مہینے الفاشر کے قریب زمزم پناہ گزین کیمپ سے تقریباً 400,000 لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔

خوراک کی بڑھتی قیمتیں

امدادی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں غذائی عدم تحفظ تشویش ناک صورت اختیار کر گیا ہے اور بنیادی ضرورت کی خوراک انتہائی مہنگی ہو گئی ہے۔

ملک کے وسطی و مشرقی علاقوں میں جوار اور باجرہ لوگوں کی روزمرہ غذا ہے جن کی قیمت میں جنگ سے پہلے دور کے مقابلے میں چار گنا تک اضافہ ہو گیا ہے۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ ملک میں دو کروڑ 46 لاکھ لوگوں یا نصف آبادی کو شدید درجے کی بھوک کا سامنا ہے جبکہ 638,000 لوگوں کو قحط جیسے حالات درپیش ہیں۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ ہر جگہ ضرورت مند لوگوں کو ہنگامی بنیاد پر امداد کی بلارکاوٹ رسائی یقینی نہ بنائی گئی تو ستمبر میں نئی فصلیں آنے سے پہلے خشک موسم میں حالات کہیں زیادہ خراب ہو جائیں گے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے بتایا ہے کہ نقل مکانی لوگوں کو کیا ہے

پڑھیں:

سوات میں المناک حادثہ، قومی المیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کی سرزمین فطری حسن سے مالا مال ہے۔ شمالی علاقہ جات کی برف پوش چوٹیاں، ہرے بھرے میدان، بہتے چشمے اور نیلگوں جھیلیں دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہی سیاحت آئے روز موت کا پیغام اور المیہ بن جاتی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں حالیہ دنوں پیش آنے والا حادثہ، جس میں دریا میں طغیانی کے باعث درجنوں افراد پانی میں بہہ گئے، ہماری ریاستی بے حسی کا ایک اور اندوہناک باب ہے۔ خواتین، بچے، نوجوان، سبھی محض تفریح کے لیے نکلے تھے، لیکن واپسی لاشوں کی صورت میں ہوئی۔ ریسکیو اداروں کی رپورٹ کے مطابق، سوات میں دریائی طغیانی کے اس واقعے میں 75 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 10 کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور 55 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ حادثہ سات مختلف مقامات پر پیش آیا اور جس انداز سے لوگ پانی میں بہے، اس نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات اس سانحے کو صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ انتظامی غفلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ یہ حادثہ کوئی پہلا نہیں۔ اگر صرف گزشتہ پانچ سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو شمالی علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں کے دوران جان لیوا واقعات کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، الخدمت، اور دیگر تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق: 2020 میں خیبر پختون خوا کے مختلف مقامات پر 54 افراد سیاحتی مقامات پر حادثات میں جان سے گئے۔ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 63 ہو گئی، جن میں 19 واقعات صرف دریاؤں اور جھیلوں میں ڈوبنے سے پیش آئے، 2022 میں مری میں برفانی طوفان کے دوران 23 افراد اپنی گاڑیوں میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ 2023 میں سندھ کی کھنجر جھیل میں کشتی الٹنے کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ 2024 میں سوات، کالام، اور ناران کے مختلف علاقوں میں کم از کم 70 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں، جن میں سے بڑی تعداد سیلابی ریلوں اور کشتیوں کے حادثات کی تھی۔ گویا پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان میں سیاحتی مقامات پر کم از کم 230 سے زائد قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو چکی ہیں، اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے؛ زمینی حقائق اس سے بھی زیادہ تلخ ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم ترقی یافتہ ممالک، بالخصوص یورپ کی مثال لیں، تو وہاں قدرتی سیاحتی مقامات پر انتہائی منظم اور تربیت یافتہ نظام موجود ہے۔ سوئٹزرلینڈ، ناروے، جرمنی یا آسٹریا جیسے ممالک میں تمام خطرناک علاقوں کو پیشگی وارننگ سسٹم سے لیس کیا جاتا ہے۔ سیکورٹی اور ریسکیو اسٹیشن ہر بڑے مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ واٹر اسپورٹس یا کشتی رانی جیسی سرگرمیوں میں لائف جیکٹس کا استعمال لازمی ہوتا ہے، بغیر اس کے کوئی کشتی حرکت نہیں کرتی۔ مقامی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مؤثر رابطہ موجود ہوتا ہے اور خطرے کی صورت میں فوری ایویکوایشن کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے: ایک بھی انسانی جان غیر محفوظ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حالت یہ ہے کہ نہ سیاحتی مقامات پر ریسکیو ٹیمیں مستقل تعینات ہوتی ہیں، نہ کشتی رانی کے دوران لائف جیکٹس لازمی سمجھی جاتی ہیں، نہ ہی کوئی وارننگ سسٹم موجود ہے۔ مقامی انتظامیہ کے بجائے صرف چند این جی اوز اپنی بساط کے مطابق حفاظتی اقدامات میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر سیاحتی مقامات کے لیے ایک مربوط پالیسی ترتیب دے جس میں خطرناک علاقوں کی نشاندہی اور پابندی، بروقت انتباہی نظام (Early Warning System)، مستقل ریسکیو اسٹیشنز کا قیام، کشتیوں اور دریا کے کنارے حفاظتی عملہ، ٹور گائیڈز کی تربیت اور رجسٹریشن، مقامی حکومت اور عوام کو ریلیف اور ریسکیو کی تربیت شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں حکومت سیاحت کو معیشت کے فروغ کا ذریعہ تو سمجھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ منسلک بنیادی انسانی تحفظ کی ذمے داری سے غافل نظر آتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمے دارانہ بلکہ ظلم کے مترادف ہے۔ ہر حادثے کے بعد تعزیت، دورہ اور معطلیوں کی رسم ادا کی جاتی ہے، اور پھر سب کچھ حسب ِ سابق چلتا رہتا ہے۔ کسی واقعے کے بعد سسٹم میں کوئی دیرپا اصلاحات دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات جیسے سانحے تسلسل کے ساتھ پیش آتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سوات میں المناک حادثہ، قومی المیہ
  • افغانستان: ایران سے مہاجرین کی وطن واپسی عدم استحکام میں اضافہ کا سبب
  • افغان طالبان کے دور میں افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا
  • اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے کئی علاقوں میں جبری انخلا کے نئے احکامات جاری
  • دنیا باقی مسئلوں میں غزہ کے المیہ کو نظر انداز نہ کرے، یو این چیف
  • ایامِ عزا کا آغاز ہوچکا مگر مجالس و جلوس کی گزرگاہوں پر صفائی کا فقدان ہے، علامہ صادق جعفری
  • غزہ: 24 گھنٹوں میں 72 شہید، یورپی یونین کے رہنماؤں کا اسرائیلی جنگ فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ
  • کراچی کا المیہ
  • نیتن یاہو کو بچانے کیلئے ٹرمپ میدان میں آگئے، اسرائیلی حکومت سے کرپشن مقدمات فوری ختم کرنے کا مطالبہ
  • غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک عظیم انسانی المیہ ہے، سردار ایاز صادق