پاکستان: سمگلنگ کے خلاف حکومتی اداروں کی جدید خطوط پر استواری ضروری
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 مئی 2025ء) 'منشیات کی سمگلنگ کے نیٹ ورک اپنے راستے اور طریقے متواتر تبدیل کرنے لگے ہیں جن پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو جدید خطوط پر تربیت دینا ضروری ہے جبکہ نوعمر افراد کو سکولوں میں آگاہی دے کر منشیات کے مسئلے کی شدت کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔'
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے نمائندے ٹرالز ویسٹر کہتے ہیں کہ منشیات کی سمگلنگ اور دیگر بین الاقوامی جرائم کے درمیان تعلق بڑھ رہا ہے۔
جب منظم جرائم پیشہ گروہ اپنا نیٹ ورک بنا لیتے ہیں اور انہیں اپنی سرگرمیاں محفوظ انداز میں انجام دینے کا راستہ مل جاتا ہے تو ان کے لیے انسانی سمگلنگ سمیت دیگر جرائم کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔(جاری ہے)
پاکستان میں انسداد منشیات کے قومی ادارے اے این ایف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں منشیات کی روک تھام کے لیے پاکستان میں ہونے والے اقدامات کو مزید موثر بنانے اور اس سلسلے میں 'یو این او ڈی سی' کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کوئی ملک یا ادارہ پیچیدہ صورت اختیار کرتے اس مسئلے سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔
اس مقصد کے لیے بین الاقوامی سطح پر، اداروں کے مابین اور عوام کے ساتھ شراکت ضروری ہے۔وہ کہتے ہیں کہ منشیات سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں سکولوں کے طلبہ کو آگاہی دے کر اس مسئلے کے حل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ جب اس حوالے سے شعور پھیلے گا تو اس سے ناصرف نشہ آور اشیا کی طلب بلکہ اس مسئلے کے حجم میں بھی کمی آئے گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں کیمیائی مادوں سے تیار کردہ نشہ آور اشیا یا سنتھیٹک منشیات روایتی نشے (افیون، ہیروئین، کوکین وغیرہ) کی جگہ لے رہی ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان میں بھی پہنچ رہا ہے جس کا فوری سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔
سنتھیٹک منشیات کئی طرح کی ہوتی ہیں جن میں میتھم فیٹامائن، یابا، کم درجے کی میتھ ایمفیٹامائن اور فینٹانائل خاص طور پر اہم ہیں۔
افغانستان میں بھی اب منشیات کی پیداوار کا رخ تبدیل ہو رہا ہے جہاں افیون اور ہیروئن کے سنتھیٹک منشیات کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 'یو این او ڈی سی' نے افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ پر نظر رکھنے کے لیے ایک روٹ میپ تیار کیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے خطے کے ممالک کا اتحاد بھی بنایا جا رہا ہے جس میں پاکستان کی خاص اہمیت ہے کیونکہ افغانستان میں تیار ہونے والی منشیات کی بڑی مقدار پاکستان کے راستے گزر کر دیگر ممالک میں جاتی ہے۔
نئی پالیسی کی ضرورتٹرالز ویسٹر کہتے ہیں کہ پاکستان کی انسداد منشیات فورس(اے این ایف) اس مسئلے پر قابو پانے میں 'یو این او ڈی سی' کی اہم شراکت دار ہے۔ ادارہ اس ضمن میں ناصرف عملی اقدامات بلکہ پالیسی سازی میں بھی 'اے این ایف' کو مدد دے رہا ہے۔ اس میں قومی سطح پر تشکیل دی جانے والی حکمت عملی، جیسا کہ کیمیائی مادوں کی خریدوفروخت اور استعمال سے متعلق پاکستان کی پہلی پالیسی بھی شامل ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ منشیات کی تیاری کے طریقوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ جو کیمیائی مادے منشیات بنانے میں استعمال ہوتے ہیں انہیں بم بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر سنتھیٹک منشیات کا سراغ لگانا اور انہیں پہچاننا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی پالیسی میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جس کے لیے 'یو این او ڈی سی' اپنا بھرپور تعاون پیش کر رہا ہے۔
انسداد منشیات پر مامور اہلکاروں کو جرائم پیشہ عناصر کے بدلتے طریقوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی سرحدی مقام یا ہوائی اڈے پر انہیں روکنے کا بندوبست کیا جائے تو وہ باآسانی کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔
ٹرالز ویسٹر کہتے ہیں کہ انسداد منشیات کے حوالے سے استعداد کار میں اضافہ دونوں اداروں کی اس شراکت کا ایک اہم پہلو ہے۔
ادارہ 'اے این ایف' کو تربیت فراہم کرتا ہے جس میں بالخصوص ہوائی اڈوں اور ایسے مقامات پر تعینات اہلکاروں کو منشیات کی نشاندہی اور اسے پکڑنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں جہاں سے اس کی سمگلنگ ہو سکتی ہے۔'یو این او ڈی سی' ان اہلکاروں کے لیے گولیوں (ٹیبلٹ) کی شکل میں سمگل کی جانے والی منشیات کو پہچاننے کی تربیت پر خاص توجہ دے رہا ہے جو بظاہر عام وٹامن کی گولیوں جیسی دکھائی دیتی ہیں۔
اس تربیت کا مقصد اہلکاروں کو اس قابل بنانا ہے کہ ہوائی اڈوں یا دیگر جگہوں پر تعیناتی کے دوران جب ان کا واسطہ ایسی گولیوں سے پڑے تو انہیں علم ہو کہ آیا یہ منشیات ہے یا نہیں۔دونوں ادارے سمگل کی جانے والی منشیات کا کھوج لگانے کے لیے ہر فرد کے سامان کی جانچ جیسے پرانے طریقہ کار پر ہی کاربند رہنے کے بجائے خفیہ معلومات کی بنیاد پر اس جرم کی روک تھام کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔
اس مقصد کے لیے ڈیٹا، ٹیکنالوجی اور خدشات کا اندازہ لگانے کے طریقوں سے کام لیا جا رہا ہے۔الیکٹرانک لین دین کا مسئلہان کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی کی آمد سے منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کے کام میں مزید پیچیدگیاں در آئی ہیں۔ جب مجرمانہ مقاصد کے لیے مالی لین دین الیکٹرانک ہو جائے تو اس پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔
منشیات کی سمگلنگ میں جو پیسہ استعمال ہوتا ہے وہ عام طور پر کسی ایک ملک کا نہیں ہوتا۔
ممکن ہے کہ ایک ملک میں منشیات تیار ہو رہی ہو اور کسی دوسرے ملک کے راستے اسے تیسری جگہ پر منتقل کیا جا رہا ہو جہاں اس کے صارفین موجود ہوں اور اس تمام عمل میں پیسہ کرپٹو انداز میں منتقل ہو رہا ہو۔انہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے 'یو این او ڈی سی' اور 'اے این ایف' منشیات سے منسلک مالی لین دین کو سمجھنے اور اس کی نقشہ بندی پر کام کر رہے ہیں۔
عموماً پولیس اہلکار یہ نہیں جانتے کہ کرپٹو کرنسی کیا ہے، اسے کیسے استعمال کرتے ہیں اور اسے کس طرح منتقل کیا جاتا ہے۔ اسی لیے انسداد منشیات کے اداروں میں کام کرنے والوں کو مالی تحقیقات کی تربیت اور بین الاقوامی قانونی تعاون کی فوری ضرورت ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ 'یو این او ڈی سی' نے ڈیجیٹل ذرائع سے منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے قطر کی حکومت کے تعاون سے اس کے دارالحکومت دوحہ میں انسداد سائبر کرائم کا تربیتی مرکز قائم کیا ہے۔
ادارے کی کوشش ہے کہ پاکستان کے زیادہ سے زیادہ اہلکار بشمول 'اے این ایف' کا عملہ اس مرکز میں تربیت حاصل کرے جس سے ان کی انسداد منشیات سے متعلق تکنیکی صلاحیتوں میں بہتری آئے گی۔ٹرالز ویسٹر کا کہنا ہے کہ 'اے این ایف' کے پاس اس قدر بڑی تعداد میں اہلکار نہیں ہیں کہ انہیں ہر جگہ اور ہر وقت تعینات کیا جا سکے۔ اسی لیے پہلے ہی مرحلے میں، اگر نوعمر افراد کو منشیات کی جانب راغب ہونے سے روک دیا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
اسی مقصد کو لے کر 'یو این او ڈی سی' کے تعاون سے 'اے این ایف' نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں انسداد منشیات مہم شروع کی ہے جس کا بنیادی ہدف کم عمر بچوں کو منشیات کے نقصانات سے متعلق آگاہی دینا ہے۔
ادارہ اس ضمن میں متواتر ایسے پروگرام چلانے پر زور دیتا ہے جن سے طلبہ کو منشیات کے خلاف رہنمائی ملے۔ بچوں کو سمجھانا ہوگا کہ وٹامن کی گولی اور منشیات میں کیا فرق ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف لیکچر کافی نہیں بلکہ طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ٹرالز ویسٹر سمجھتے ہیں کہ نوعمر افراد سوشل میڈیا، کئی طرح کے دباؤ، اور آسان رسائی جیسے عوامل کے باعث ابتدائی عمر میں ہی منشیات کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں منشیات سے محفوظ رکھنے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ سکولوں میں اساتذہ اور ماہرین نفسیات کی مدد سے رویوں میں اصلاح کے پروگرام شروع کرنا بھی ضروری ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے منشیات کی سمگلنگ یو این او ڈی سی انسداد منشیات پاکستان میں اہلکاروں کو ٹرالز ویسٹر کہتے ہیں کہ اے این ایف منشیات سے منشیات کا کو منشیات منشیات کے ضرورت ہے کی ضرورت اس مسئلے رہے ہیں میں بھی رہا ہے کیا جا اور اس جا رہا کے لیے
پڑھیں:
روایتی جنگی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، نیول چیف
لاہور(نیٹ نیوز) چیف آف دی نیول سٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے کہا ہے روایتی جنگی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف دی نیول سٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے پاکستان نیوی وار کالج لاہور کا دورہ کیا اور 54ویں سٹاف کورس کے شرکا سے خطاب کیا۔اپنے خطاب میں نیول چیف نے خطے میں بدلتی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو درپیش میری ٹائم سکیورٹی چیلنجز پر اظہار خیال کیا۔ایڈمرل نوید اشرف نے کہا بحرِ ہند کے خطے میں طاقت کی عالمی کشمکش کے سبب مسلسل تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، روایتی جنگی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔انہوں نے کہا مستقبل کی جنگیں جیتنے کے لیے ذہین اور ٹیکنالوجی سے لیس افرادی قوت کی تیاری نہایت اہم ہے۔ پاک بحریہ ہر طرح کے روایتی و غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔نیول چیف نے کورس کے شرکا کی پیشہ وارانہ محنت اور لگن کو سراہا اور کورس مکمل کرنے والے افسروں کو مبارکباد دی۔