کینیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے برطانیہ میں مستقل قیام کیلئے قانونی جنگ جیت لی، اس کے سیاسی پناہ کے دعوے کو فیصلوں میں ٹائپنگ کی غلطیوں کے باعث مسترد کیا گیا۔

شادی شدہ پناہ گزین جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا نے 2018 میں افریقی ملک سے اس وقت راہ فرار اختیار کی جب اسکے خاندان کو اسکے معاشقہ کا علم ہوا اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ کینیا واپس جاتی ہے تو اس کا شوہر اسے جان سے مار دیگا۔

ہوم آفس کی طرف سے اس کے کیس کو مسترد کیے جانے کے بعد اس نے امیگریشن اینڈ اسائلم چیمبر کے پہلے درجے کے ٹریبونل میں اپیل دائر کی اس کے کیس کو اس موقف پر خارج کیاگیا کہ وہ افریقہ میں تحفظ حاصل کر سکتی ہے لیکن آپر ٹیر ٹربیونل نے اس کے دعووں کو مسترد کرنے والے فیصلے میں کئی غلطیاں اور شواہد میں غلط بیانیاں پائی گئیں۔

دوبارہ کیس کی سماعت کا حکم ہوا اور کیس کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی گئی اپر ٹربیونل کے جج ڈیوڈ پک اپ نے فیصلے میں کئی بڑی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں فیصلے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا غیر منصفانہ ہوگا۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) یورپی ممالک میں سیاہ فام باشندوں کو ہجرت کے حوالے سے ہونے والی بحث کے دوران مزید نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی ، ہجرت کے حوالے سے ایک مرکزی اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ 2023 ء میں یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق (EUFRA) کی رپورٹ"Being Black in the EU" کے مطابق جرمنی میں سیاہ فام مخالف نسلی امتیاز میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

2025 ء کے وفاقیانتخابات کے بعد جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت متبادل برائے جرمنی (AfD) سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر نے والی دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ یہ جماعت امیگریشن مخالف موقف کے لیے جانی جاتی ہے اور اس کی مقبولیت نے سیاہ فام افراد کے لیے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

(جاری ہے)

معاشی جمود اور اس کے اثرات

جرمنی کی معیشت کووڈ 19 کے بعد سے اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔

یہ واحد جی سیون ملک ہے جو مسلسل تین سالوں سے معاشی جمود کا شکار ہے۔ معاشی دباؤ کے اس ماحول میں، اقلیتوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو روزگار، رہائش اور سماجی خدمات تک رسائی میں مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سماجی اور سیاسی اثرات

سیاہ فام افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم آئی ایس ڈی کے طاہر ڈیلا کے مطابق ہجرت کی بحث کے دوران سیاہ فام افراد کی جرمنی میں موجودگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ڈیلا کہتے ہیں، ''جب ہجرت سے متعلق بحثیں ہوتی ہیں تو جرمنی میں سیاہ فام لوگوں اور افریقی نسل کے لوگوں کی موجودگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔‘‘ نسلی امتیاز کی اقسام

یہ امتیاز صرف تنخواہ یا ملازمت کے مواقع تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی موجود ہے۔ سیاہ فام افراد کو کرایہ پر مکان لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی تعصب کا سامنا رہتا ہےجبکہ پولیس کی جانب سے پروفائلنگ اور زیادتی کے واقعات میں بھی ان افراد کے ناموں کا اندراج رہتا ہے۔ جرمنی میں آسامیوں کی بھرتی میں امتیازی سلوک

جرمنی کی زیگن یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج کے مطابق 2023ء سے 2025 ء کے درمیان افریقی یا عربی نام والے درخواست دہندگان کو پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع کے لیے ان کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے سب سے کم جوابات موصول ہوئے، حالانکہ جرمن کمپنیوں کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

یورپی یونین کی سطح پر بھی سیاہ فام افراد نے سب سے زیادہ ملازمت کے دوران امتیازی سلوک کی شکایت کی اور جرمنی اس حوالے سے دوسرے بدترین ممالک میں شامل رہا۔

یہ وہ چیز ہے، جسے یورپی ملک لکسمبرگ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس چھوٹے اور بہت امیر ملک کا شمار یورپی یونین کے سب سے زیادہ متنوع آبادی والے ملک میں کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہر 10 میں سے ایک باشندے کی پیدائش ای یو کے باہر ہوئی ہے۔

لکسمبرگ نے 2017ء کی "Being Black in the EU" رپورٹ میں جرمنی کی ''سیکنڈ لاسٹ‘‘ پوزیشن ہے۔ لکسمبرگ کی حکومت نے اس کے رد عمل میں نسلی اورنسلی امتیاز کے عوامی تاثرات پر اپناسروے شروع کیا، جس کے نتائج 2022ء میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ملک اب نسل پرستی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے۔

بیلجیم کے ماہر معاشیات فریڈرک ڈوکیئر لکسمبرگ کی حکومت کی رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ''اس منصوبے کا مقصد تحقیق، تربیت اور بیداری پیدا کرنے والے منصوبوں کے ذریعے نسل پرستی اور امتیاز کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کو نافذ کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر زور دینا ہو گا کہ امتیازی سلوک صرف محسوس نہیں کیا جاتا بلکہ یہ حقیقی معنوں میں موجود ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • لاہورہائیکورٹ ، زیرحراست ملزمان کے اعترافی بیانات نشرکرنے پرپابندی عائد
  • یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ
  • تفتیش اور تفتیشی پر کڑی نظر رکھنے کیلئے کڑے احتساب کا نظام متعارف
  • بالفور ڈیکلریشن میں اسرائیل جیسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا، لارڈ روڈریک بالفور کا انکشاف
  • ججز کا مستقل تبادلہ غیر قانونی، صدر کا نوٹیفکیشن بدنیتی پر مبنی قرار، اختلافی نوٹ
  • سابق صدر عارف علوی کی مستقل سرکاری رہائشگاہ کیلئے درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس
  • آزاد کشمیر میں قیام امن کیلئے آج پھر مذاکرات ہوں گے، حکومتی کمیٹی کامیابی کیلئے پر امید
  • ایلون مسک 500 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت رکھنے والے پہلی شخصیت گئے
  • جرمنی: حماس سے تعلق رکھنے والے تین مشتبہ افراد گرفتار
  • بیوی و بچوں کیلیے نان و نفقہ مقرر کرنے کے فیصلے کیخلاف درخواست مسترد