پاکستان کی حمایت : بھارت نے ترکیہ کی ایئرپورٹ کمپنی پر پابندی لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
پاکستان کی حمایت : بھارت نے ترکیہ کی ایئرپورٹ کمپنی پر پابندی لگا دی WhatsAppFacebookTwitter 0 16 May, 2025 سب نیوز
نئی دہلی : بھارت نے ترکیہ کی کمپنی سیلیبی ایئرپورٹ سروسز انڈیا (Celebi Airport Services India) کی سیکیورٹی کلیئرنس فوری طور پر منسوخ کر دی ہے۔ یہ اقدام قومی سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر کیا گیا ہے،
بھارتی وزارتِ شہری ہوابازی کے مطابق یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت میں لوگ ترکیہ اور آذربائیجان کی سیر کا پروگرام منسوخ کر رہے ہیں، کیونکہ ان ممالک نے حالیہ پاک-بھارت تنازع میں پاکستان کی حمایت کی تھی۔
سیلیبی ایوی ایشن ہولڈنگ، جس کی ویب سائٹ کے مطابق وہ بھارت کے نو بڑے ہوائی اڈوں (جیسے دہلی، ممبئی اور بینگلورو) پر گراؤنڈ ہینڈلنگ سروسز فراہم کرتی ہے، نے اس فیصلے پر فوری کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دہلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیلیبی سے علیحدگی کے بعد اب AISATS اور Brid Group کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے۔
بھارتی ڈپٹی وزیرِ شہری ہوابازی مرلی دھر موہول نے کہا کہ پورے ملک سے سیلیبی پر پابندی کی درخواستیں موصول ہو رہی تھیں، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ، معرکہ حق میں تاریخی فتح پر ملک بھر میں یوم تشکر منایا جا رہا ہے افغانستان کی بگرام ائیربیس اپنے پاس رکھیں گے، اسے کسی کو نہیں دیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی، کل قومی سطح پر یوم تشکر منانے کا اعلان،مرکزی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہو گی میں نہیں چاہتا کہ بھارت میں آئی فونز تیار کیے جائیں،ٹرمپ نے اپیل کو بھارت میں پلانٹ لگانے سے روک دیا پارٹی چیئرمین عمران خان ،بیرسٹر گوہر صرف پیغام رسانی کیلیے ہیں، عظمی خان پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں کم ترین درجے پر؛ اسحاق ڈار کا قومی اسمبلی میں اعتراف معرکۂ حق: پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی، بھارتی غرورخاک میں ملا دیا، فرانسیسی میڈیا کا اعترافCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
متنازعہ سر کریک پر بھارت کی پاکستان کو دھمکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کے روز پڑوسی ملک پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے سر کریک کے علاقے میں کسی بھی طرح کی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو اس کے خلاف ایسی "جوابی کارروائی" کی جائے گی کہ وہ خطے کی "تاریخ اور جغرافیہ" کو بھی بدل سکتی ہے۔
بھارتی وزیر دفاع نے یہ باتیں گجرات کے سرحدی شہر بھج کے قریب ایک فوجی اڈے پر سینیئر فوجیوں سے خطاب کے دوران کہیں۔
انہوں نے فوجیوں کے ساتھ دسہرہ منایا اور اس موقع پر 'شستر پوجا' (ہتھیاروں کی پوجا) بھی کی۔ راج ناتھ سنگھ نے مزید کیا کہا؟بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گجرات کی سرحد پر فوجی انفراسٹرکچر کے حوالے سے پاکستان پر شدید تنقید کی اور اس حوالے سے ان کے دھمکی آمیز بیانات کو بھارتی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلز نے تفصیل سے نشر کیا ہے۔
(جاری ہے)
واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے سر کریک کے علاقے میں تازہ ملٹری انفراسٹرکچر کھڑا کیا گیا ہے، جس سے بھارت برہم ہے اور اسی حوالے سے بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کو تازہ دھمکی دی ہے۔
واضح رہے کہ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی گجرات کی سرحد سے متصل سر کریک کا علاقہ تنازعات کا شکار ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا، "سر کریک کے علاقے میں پاکستان کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، کہ جو تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو بدل دے گا۔
"انہوں نے مزید کہا کہ "یاد رکھنا چاہیے کہ سن 1965 کی جنگ میں بھارتی فوج لاہور تک پہنچ گئی تھی۔ آج 2025 میں پاکستان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی جانے والا ایک راستہ سر کریک سے گزرتا ہے۔"
سر کریک گجرات کے رن آف کچھ اور پاکستان کے درمیان 96 کلومیٹر طویل ایک سمندری راستہ ہے۔ دونوں ملکوں کی جانب سے سمندری حدود کی مختلف تشریحات کی وجہ سے یہ ایک متنازعہ علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
بھارتی وزیر نے دعوی کیا کہ "آزادی کے اتنے سالوں کے بعد بھی، سر کریک کے حوالے سے بھی ایک سرحدی مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، بھارت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی بار سفارت کاری کی کوشش کی، لیکن پاکستان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ پاکستان نے جس طرح سے سر کریک کے علاقے میں ملٹری انفراسٹرکچر قائم کیا ہے اس سے اس کی نیت ظاہر ہوتی ہے۔"
انہوں نے کہا، "آرمڈ فورسز اور بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) بھارت کی سرحدوں کی بہت اچھی طرح سے حفاظت کر رہی ہے، اگر پاکستان نے سر کریک کے علاقے میں کوئی مہم جوئی کی، تو اسے اتنا سخت جواب ملے گا کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہی بدل جائیں گے۔
" بھارت پاک کشیدگیبھارت اور پاکستان کے درمیاں مئی میں ایک مختصر سی جنگ کے بعد سے تعلقات کشیدہ ہیں اور اس ماحول میں بھارت میں حکومت کی جانب پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان آتا ہی رہتا ہے۔
اس حوالے سے راج ناتھ سنگھ نے مزید دعوی کیا کہ پاکستان نے آپریشن سیندور کے دوران بھارت کے دفاعی نظام میں گھسنے کی ناکام کوشش کی لیکن بھارتی فوج نے پاکستانی فضائی دفاعی آلات کو ''بے نقاب‘‘ کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کو بھاری نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ "آپریشن سیندور کے دوران، پاکستان نے لیہہ سے سر کریک تک بھارتی دفاعی نظام میں گھسنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم، جوابی کارروائی میں، بھارتی افواج نے پاکستانی فضائی دفاعی نظام کو مکمل طور پر بے نقاب کیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ بھارتی افواج جب اور جہاں چاہیں پاکستان کو بھاری نقصان پہنچا سکتی ہیں۔"
سر کریک تنازعہ کیا ہے؟بھارتی وزیر کے دورہ گجرات کے دوران سر کریک پر پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان کے سبب ایک بار پھر تنازعہ سر کریک سرخیوں میں ہے۔
سر کریک بھارتی ریاست گجرات اور سندھ کے درمیان 96 کلومیٹر کے کیچڑ سے بھرے، غیر آباد دلدلی علاقہ ہے اور یہ تنگ راستہ کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان سب سے پیچیدہ تنازعات میں سے ایک رہا ہے۔
یہ زمین کی ایک ویران پٹی دکھائی دیتی ہے، تاہم اس میں تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول سے لے کر بحیرہ عرب میں سمندری حدود تک بہت سے امور شامل ہیں۔
تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری حدود کی تشریح میں مضمر ہے۔ آزادی سے پہلے یہ علاقہ برطانوی بھارت کا حصہ تھا اور 1947 میں آزادی کے بعد سندھ پاکستان کا حصہ بنا جبکہ گجرات بھارت کا حصہ ہے۔
سر کریک تنازعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سمندری حدود سے متعلق ہے۔ 1947 میں تقسیم کے بعد سندھ پاکستان کا حصہ بن گیا اور گجرات بھارت کے ساتھ رہا۔
بھارت چاہتا ہے کہ پہلے سمندری حدود کی حد بندی کی جائے اور پھر اس علاقے کا تفصیہ ہو جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ پہلے تنازعے کا حل کیا جائے اور سمندر کی حد بندی ہو۔
پاکستان 1914 کی ایک قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ پوری کریک سندھ سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ بھارت اپنی پوزیشن کی حمایت کے لیے 1925 کے نقشے کو پیش کرتا ہے۔
اس تنازعہ میں وقت کے ساتھ ساتھ کریک کے دھارے میں تبدیلیاں بھی شامل ہیں، جس سے دونوں ممالک کی زمینی اور سمندری حدود کی تبدیلی کے ساتھ ہی سمندری علاقوں کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ظاہر ہے اسی لیے کوئی بھی فریق ایک دوسرے کے موقف کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ادارت: جاوید اختر