Daily Mumtaz:
2025-07-02@14:10:07 GMT

ڈنمارک کے اخبار نے بھی بھارتی جھوٹ فاش کردیا

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

ڈنمارک کے اخبار نے بھی بھارتی جھوٹ فاش کردیا

بھارت کا جھوٹ ایک بار پھر فاش ہوگیا، ڈنمارک کے مقبول اخبار پولیٹکن (Politiken) نے سُرخی لگادی کہ بھارتی میڈیا، پاکستان پر خیالی فتوحات کے بارے میں بے شرمی سے جھوٹ بول رہا ہے۔

ڈنمارک کے معروف اخبار نے لکھا ہے کہ جنگ کے دوران بھارتی میڈیا نے بڑے بڑے دعوے کیے لیکن وہ سب جھوٹ نکلے،حتیٰ کہ اپنا جھوٹ سچ ثابت کرنے کے لیے بھارتی میڈیا نے پرانی تصویروں اور غزہ کی فوٹیج تک دکھائیں۔

ڈنمارک کے اخبار پولیٹکن کے کالم نگار، یونیورسٹی آف کوپن ہیگن میں کمیونیکیشن کے پروفیسر اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں سینیئر ری سرچر راس مُس کلائس نے لکھا کہ بھارتی میڈیا کوریج نہ صرف غلط اور گمراہ کن رہی، بلکہ انتہائی کشیدہ حالات میں ناقابل یقین حد تک خطرناک اور توہین آمیز تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے اِن جھوٹی خبروں سے نمٹنے کا حل یہ نکالا کہ ملک بھر میں غیر ملکی خبر رساں ویب سائٹس بلاک کردیں۔

کالم نگار کا کہنا تھا کہ اُن بھارتی آن لائن میڈیا چینلز کو بھی بلاک کر دیا جو جنگ کی آزادانہ کوریج کر رہے تھے۔

بھارتی حکام کی جانب سے فیک نیوز کے خلاف جنگ کو بنیاد بنا کر آزاد میڈیا کو خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بھارتی میڈیا ڈنمارک کے

پڑھیں:

جامعات کی زبوں حالی!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جامعات کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے کیو ایس (QS) نے جامعات کی درجہ بندی 2026 جاری کردی ہے، جس کے مطابق پاکستان کی ایک بھی جامعہ دنیا کی 350 بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں ناکام رہی لیکن دو وفاقی جامعات قائد اعظم یونیورسٹی 354، اور نیشنل یونیورسٹی سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) 371 نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہیں، جب کہ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی، جامعہ کراچی 1001 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے تاہم سندھ کی کوئی اور جامعہ 1500 جامعات میں بھی جگہ نہیں بناسکی۔ جامعات کی درجہ بندی کرنے والے ادارے کیو ایس 2026 کی جنوبی ایشیا کی جامعات کی درجہ بندی رواں سال کے آخر یا آئندہ سال جنوری میں جاری کرے گا لیکن 2025 جنوبی ایشیا کی درجہ بندی میں جامعہ کراچی 58 ویں نمبر پر تھی جب کہ آغا خان یونیورسٹی کا نمبر 62 اور آئی بی اے کراچی کا درجہ 70 واں درجہ تھا۔ اقراء یونیورسٹی کا 110 واں، آئی بی اے سکھر کا 120 واں، این ای ڈی یونیورسٹی کا 131 واں، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا 140 واں، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی جامشورو کا 168 واں، ضیاالدین یونیورسٹی کا 240 واں، سندھ یونیورسٹی جامشورو کا 263 واں اور یونیورسٹی آف بلوچستان کا 278 واں نمبر تھا۔ دنیا بھر میں مختلف شعبوں کے حوالے سے ممالک کی کارکردگی کی جانچ اور اس کے جائزے کے لیے متعدد عالمی ادارے سروے کرتے ہیں اور پھر ان سروے کی روشنی میں ممالک کی درجہ بندی شایع کی جاتی ہے، جس کا مقصد ملکوں کی معاشی، سماجی، سیاسی، تعلیمی، ماحولیاتی کارکردگی کا موازنہ کرنا ہوتا ہے۔ ہر سال کرپشن، معاشی وانسانی ترقی، تعلیم، صحت، ماحولیات، امن وامان، فریڈم انڈیکس، سائنس و ٹیکنالوجی، کاروباری سہولت، سیاحت اور دیگر شعبوں سے متعلق سروے کیے جاتے ہیں بدقسمتی سے ان تمام شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ دنیا بھر کی جامعات کی درجہ بندی میں کسی یونیورسٹی کا مقام طے کرنے کے لیے چند بنیادی عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اہم تعلیمی معیار، تحقیقی کام، بین الاقوامی شہرت، فیکلٹی کی قابلیت، نوکریوں میں گریجویٹس کی کارکردگی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں شراکت شامل ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی جامعات تحقیقی معیار کے فقدان، فیکلٹی کی تربیت میں کمی، سیاسی مداخلت، ناکافی بجٹ اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان فہرستوں میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کا تعلیمی بجٹ نہایت کم ہے، جس سے جامعات جدید تحقیق، تدریس اور عالمی معیار کے انفرا اسٹرکچر سے محروم ہیں۔ سندھ کی جامعات، خاص طور پر دیہی علاقوں کی، پسماندہ ہیں جہاں وسائل کی تقسیم غیر مساوی اور سیاسی اثر رسوخ تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے۔ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی جامعات میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انتہائی محدود ہے، پاکستان میں ریسرچ اینڈڈو یلپمنٹ پر خرچ کی جانے والی کل رقم جی ڈی پی کا صرف 0.16 فی صد ہے جو کہ عالمی اوسط سے انتہائی کم ہے۔ ہرچند کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST)، قائد اعظم یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی اپنے محدود وسائل کے باوجود بہتر کاکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے تاہم پاکستان کی جامعات کو عالمی درجہ بندی میں بلند مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ نظریہ حیات اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ مربوط، جامع اور موثر قومی تعلیمی پالیسی مرتب کی جائے، اساتذہ کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے، جامعات میں طلبہ و اساتذہ میں تحقیق کا رجحان فروغ دیا جائے، جامعات کو انڈسٹریز کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے چاہئیں تاکہ تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ بین الاقوامی تحقیق سے جْڑے رہنے کے لیے آن لائن تحقیقی ذرائع، ای جرنلز، اور ڈیجیٹل سسٹمز تک بآسانی رسائی بھی ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں کو انتظامی اور مالی خودمختاری دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی ترقی کی راہیں خود طے کر سکیں اور بیرونی سیاسی دباؤ سے محفوظ رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اساتذہ کے تقرر اور طلبہ کے داخلے کے تمام مراحل میں مکمل شفافیت اور میرٹ کا نظام قائم کیا جانا چاہیے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ایشیا کپ 2025: پاک بھارت ٹاکرا 7 ستمبر کو دبئی میں شیڈول: بھارتی میڈیا
  • شیفالی کی موت سے اینٹی ایجنگ انجیکشن کا تعلق؟ معروف ڈرماٹولوجسٹ کا بیان سامنے آگیا
  • ایشیا کپ میں پاک بھارت ٹاکرا 7 ستمبر کو دبئی میں ہوگا، بھارتی میڈیا
  • بھارت کی میزبانی میں ایشیا کپ نیوٹرل وینیو پر کھیلا جائیگا، بھارتی میڈیا
  • جرمنی: ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں ڈنمارک کا شہری گرفتار
  • بھارتی میڈیا کشمیری استاد کو دہشتگرد ثابت کرنے میں ناکام، عدالت کا 2 میڈیا ہاؤسز کے خلاف مقدمے کا حکم
  • جامعات کی زبوں حالی!
  • وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف آڈٹ رپورٹ جھوٹ پر مبنی ہے: عظمیٰ بخاری
  • ہندوستان کی خارجہ اور سفارتی پالیسی ناکام ہی نہیں، تباہ ہوچکی ہیں، بھارتی دفاعی تجزیہ کار کا اعتراف
  • فلموں میں کمائی زیادہ ہے کرکٹ میں؟ بھارتی کرکٹر کے بیان نے سب کو حیران کردیا