لاہور میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے وفد نے صدر سی پی این ای کی قیادت میں گورنر پنجاب کو پیکا ایکٹ پر تحفظات سے آگاہ کیا، وفد نے پیکا ایکٹ میں ترامیم پر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت پر زور دیا۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ پیکا قانون پر سٹیک ہولڈر کی مشاورت ضروری ہے، پیپلز پارٹی آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے وفد نے صدر سی پی این ای کاظم خان کی قیادت میں گورنر ہاؤس میں ملاقات کی۔ گورنر پنجاب سے ملاقات کرنے والے وفد میں سینئر نائب صدر ایاز خان، صدر فری میڈیا کمیٹی ارشاد عارف، سیکرٹری جنرل غلام نبی چانڈیو، ڈپٹی سیکرٹری جنرل تنویر شوکت، اعجاز خان، وقاص طارق اور دیگر عہدیداران شامل تھے۔

پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضی بھی اس موقع پر موجود تھے، وفد نے گورنر پنجاب کو پیکا ایکٹ پر تحفظات سے آگاہ کیا، وفد نے پیکا ایکٹ میں ترامیم پر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت پر زور دیا۔ گورنر پنجاب نے سی پی این ای کے نومنتخب اراکین کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ پیکا قانون پر سٹیک ہولڈر کی مشاورت ضروری ہے، پیپلز پارٹی آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے۔

سردار سلیم حیدر خان نے کہاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں فیک نیوز کا تناسب بہت کم ہے، سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے تدارک کے لیے طریقہ کار ہونا چاہئے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان پیپلز پارٹی نے میڈیا ٹرائل کا سامنا کیا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے آزادی رائے پر کسی قدغن کی حمایت نہیں کی۔ سی پی این ای کے وفد نے کہا کہ فیک نیوز پر قابو پانا ضروری ہے لیکن پیکا ایکٹ کے غلط استعمال پر تحفظات ہیں، پیکا ایکٹ عام شہریوں کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گورنر پنجاب سی پی این ای پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ کی مشاورت پر تحفظات پر سٹیک وفد نے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری

موجودہ وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کی مدد سے ڈیڑھ سال پورا کر لیا ہے اور موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک بھر میں فوری طور پر عام انتخابات منعقد ہوتے بھی نظر نہیں آ رہے اور ان ڈیڑھ سالوں میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں سے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جیسی انتخابات سے قبل پیدا ہوتی ہے۔

حکومت پنجاب نے صوبے میں سیلابی صورت حال برقرار ہوتے ہوئے بھی ایسے ترقیاتی کاموں کا آغاز کر دیا ہے جب کہ سیلاب متاثرین ابھی تک گھروں سے محروم ہیں یا ان کے گھر ابھی رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ متاثرین کے گھر اور کھیت ابھی تک ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی بحالی کے بغیر پنجاب کے کسی ضلع میں کسی نئے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب و سندھ میں الیکشن سر پر ہے اور مقابلہ ہو رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کا پیپلز پارٹی کے خلاف رویہ جارحانہ ہوگیا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ڈیڑھ سال میں پہلی بار پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ سے واک آؤٹ کیا اور حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دے دی ہے جب کہ پی پی کا کہنا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ نہیں، صرف حمایت کر رہی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے مزاحمت اور پی پی مخالف جو تقاریر سامنے آئی ہیں اس میںاگر سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے اور پیپلز پارٹی اپنی حکومتیں برقرار رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن کی محتاج نہیں بلکہ (ن) لیگ اپنی وفاقی حکومت برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کی محتاج ہے مگر نہ جانے کیوں وفاقی حکومت کو خطرے میں ڈال کر مسلم لیگ (ن) کو تنہا اور پیپلز پارٹی کو ناراض کیا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی اس موقع کی تاک میں ہے کہ پی پی (ن) لیگ سے ناراض ہو کر اس سے آ ملے جس کی پی ٹی آئی نے پی پی کو پیش کش بھی کی تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کے ساتھ اپوزیشن میں آن بیٹھے اور اب موقعہ ملتے ہی پی پی ایسا کر بھی سکتی ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کے لیے یہ کوئی نیا موقعہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے اور وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کی (ن) لیگی بلوچستان حکومت کو دونوں پارٹیوں نے مل کر ہٹایا تھا اور ایک نئی بلوچستان عوامی پارٹی کا وزیر اعلیٰ اور چیئرمین سینیٹ منتخب کرا چکی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کے مطابق توقع نہ تھی کہ پنجاب حکومت کے اس قسم کے بیانات سننے پڑیں گے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات نے بھی ناراضگی کا اظہار کیااور پی پی کے سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے ہم پنجاب حکومت کے غلط کاموں کی نشان دہی کریں گے اور تنقید بھی کریں گے۔

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ختم ہونے کی تو پی ٹی آئی شدت سے منتظر ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اختلافات ضرور ہیں مگر پی ٹی آئی (ن) لیگ کو اپنا مخالف سمجھتی ہے جس کے ساتھ بیٹھنے کو وہ کبھی تیار نہیں ہوگی اور مخالفانہ بیانات دونوں پارٹیوں کو قریب آنے کا موقعہ دے رہے ہیں اور سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ پنجاب میں (ن) لیگ کا اصل انتخابی مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہی ہونا ہے۔

اس وقت ملک کے دو اہم عہدے صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جو آئینی عہدے ہیں جنھیں ہٹانے کی (ن) لیگ کے پاس طاقت ہے ہی نہیں جب کہ سندھ و بلوچستان کی حکومتیں پیپلز پارٹی کے پاس اور کے پی کی حکومت پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور دونوں مل کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتی ہیں جس کی کامیابی بیرونی قوتوں کی حمایت سے ممکن ہے مگر ایسا ہوگا نہیں اور اگر بات یونہی بڑھتی رہی تو صدر مملکت وفاقی حکومت کے لیے مسائل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری
  • چیئر مین سینٹ کی پیپلز پارٹی کی خواتین اراکین اسمبلی سے ملاقات،صوبہ کی سیاسی صورتحال گفتگو
  • یوسف رضا گیلانی کی پیپلز پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین سے ملاقات،صوبہ کی سیاسی صورتحال پرگفتگو
  • آئی ایم ایف کا بعض اہداف پورے نہ ہونے پر تحفظات، پاکستان سے وضاحت طلب
  • آئی ایم ایف کا 10اداروں کے قوانین میں ترامیم نہ لانے پر تحفظات کا اظہار، حکومت سے وضاحت طلب
  • آئی ایم ایف کا بعض طے شدہ اہداف پورے نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار
  • حکومت نے پیپلز پارٹی کو منالیا، تمام مسائل بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق
  •  پیپلزپارٹی حکومت کی اتحادی ضرور عزت و قار پر سمجھوتہ نہیں کرے گی:گورنر پنجاب
  • اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پارلیمنٹ ہاؤس میں (ن)لیگ اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنماملاقات کررہے ہیں
  • مریم نواز کے بیانات کا معاملہ، پیپلزپارٹی اور (ن ) لیگی رہنمائوں کی بیٹھک