بالوں کی مصنوعات میں کینسر کا خطرناک کیمیکل، نئی تحقیق میں پریشان کن انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ شیمپو اور دیگر ذاتی استعمال کی مصنوعات میں ایسا کیمیکل پایا گیا ہے جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔
بالوں کی دیکھ بھال کرنے والی مصنوعات خشکی، روکھے پن اور بے جان بالوں جیسے مسائل کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے لیے مختلف قسم کی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں، جیسے کہ تیل، شیمپو، ہیٹ پروٹیکشن اسپرے اور لیو اِن کنڈیشنر وغیرہ۔
ہر پراڈکٹ کے اندر مختلف اجزاء ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے کئی میں ایسے کیمیکل بھی شامل ہوتے ہیں جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ شیمپو اور دیگر ذاتی استعمال کی مصنوعات میں ایسا کیمیکل پایا گیا ہے جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ خاص طور پر فارمل ڈی ہائیڈ (Formaldehyde) نامی کیمیکل، جو خون کے کینسر (لیوکیمیا) اور دماغی کینسر سے تعلق رکھتا ہے، کئی عام مصنوعات میں موجود ہے۔
یہ کیمیکل اکثر بال سیدھا کرنے والی مصنوعات، صابن، لوشن اور یہاں تک کہ پلکوں کے گلو میں بھی پایا گیا ہے۔
مئی 2025 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، لاس اینجلس میں 70 سیاہ فام اور لاطینی خواتین کی ذاتی استعمال کی مصنوعات کا تجزیہ کیا گیا۔ 53 فیصد خواتین ایسی مصنوعات استعمال کر رہی تھیں جن میں فارمل ڈی ہائیڈ موجود تھا۔
ان مصنوعات کا روزانہ یا ہفتے میں کئی بار استعمال کیا جا رہا تھا، جس سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
بالوں کی دیکھ بھال کی مصنوعات کے مضر اثرات بانجھ پن کا خطرہکچھ پراڈکٹس جیسے کہ ہیئر آئل یا لیو-ان کنڈیشنر میں موجود پیرابینز تولیدی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔
خون کے کینسر (لیوکیمیا)بینزین جیسے کیمیکل، جو ڈرائی شیمپو میں موجود ہوتے ہیں، خون کے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔
دماغی کینسرفارمل ڈی ہائیڈ استعمال کرنے والے افراد میں دماغی کینسر کا خطرہ زیادہ پایا گیا ہے۔
الرجی اور خارششیمپو میں موجود مختلف کیمیکل جلد پر خارش اور الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔
سپلٹ اینڈزسخت کیمیکل والے شیمپو بالوں کو خشک کر کے کمزور کر دیتے ہیں، جس سے سپلٹ اینڈز ہو سکتے ہیں۔
بال گرناسلفیٹس جیسے طاقتور کلینزر بالوں کی جڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے بال گرنے لگتے ہیں۔
احتیاط ضروری ہےاگرچہ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے، مگر یہ نتائج ایک وارننگ کے طور پر ضرور دیکھے جانے چاہئیں۔ مصنوعات خریدنے سے پہلے اجزاء ضرور چیک کریں، اور جہاں ممکن ہو، قدرتی یا کیمیکل سے پاک متبادل کا انتخاب کریں۔
ضروری ہے کہ اس معاملے کو موجودہ دور کے بدلتے طرزِ زندگی کے تناظر میں دیکھا جائے، خاص طور پر ایسے کیمیکل اور زہریلے مادّوں کے استعمال کے حوالے سے جو ممکنہ طور پر کینسر پیدا کرنے والے اور صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
بالوں کی دیکھ بھال کے لیے دستیاب مختلف مصنوعات اور ان کے صحت پر اثرات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔
اگرچہ کاسمیٹکس کے ذریعے اپنے ظاہری حسن کو وقتی طور پر نکھارنا خوشگوار محسوس ہوتا ہے، مگر اپنی ضرورت کے مطابق درست مصنوعات کا انتخاب کرنا، ان کے استعمال میں اعتدال برتنا، اور متوازن غذا اور صحت مند طرزِ زندگی اپنانا ہی آگے بڑھنے کا صحیح راستہ ہے۔
یہ سب اقدامات بالوں کی دیکھ بھال کی مصنوعات کے منفی اثرات سے بچنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کینسر کا سبب بن مصنوعات میں استعمال کی کی مصنوعات سکتے ہیں
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا خطرناک پھیلاؤ، 24 گھنٹوں میں 33 ہزار سے زائد مریض رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے حکام اور صحت کے شعبے کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بخار، جلدی امراض، آشوب چشم، ڈائریا، سانپ اور کتے کے کاٹنے کے 33 ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 55 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک دن کے دوران سانس کی تکلیف کے شکار 5 ہزار افراد، بخار سے متاثرہ 4300، جلدی الرجی کے 4 ہزار اور آشوب چشم کے 700 مریض سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریا کے 1900 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سانپ کے کاٹنے کے 5 اور کتے کے کاٹنے کے 20 واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 405 مستقل طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں اب تک 2 لاکھ 79 ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن بیماریوں کے تیزی سے پھیلاؤ نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی وسائل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی امداد کے لیے قریبی کیمپوں سے رجوع کریں۔
یہ صورتحال نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ امدادی اداروں کے لیے بھی ایک امتحان ہے، کیونکہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔