اپوزیشن کی قراردادوں کی حمایت نیم دلانہ تھی، خرم دستگیر
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
لاہور:
سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ انڈیا میں جو بی جے پی کی گورنمنٹ ہے ، نریندر مودی ہیں وہ اسی سیاست سے انھوں نے انڈیا میں اپنا اتنا بڑا ووٹ بینک کری ایٹ کیا ہے، ان سے ایکسپیکٹ یہ کرنا کہ ایک دم سے سینس ایبل بات کرنا شروع کر دیں گے تو یہ نہیں ہو سکتا.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد میرا یہ تھا کہ انڈیا میں بھی ایک بہت بڑی کانسٹیٹیونسی ہے جو مودی کیخلاف بھی ہے اس لیے میرے خیال میں پولیٹیکل اسپیس بھی موجود ہے اس آرگیومنٹ کے لیے، ظاہر ہے کہ جب کوئی کنفلیکٹ ہوتا ہے تو اس کا نقصان بھی انڈیا کو زیادہ ہوتا ہے.
رہنما مسلم لیگ (ن) خرم دستگیر نے کہا کہ اچھا ہوتا وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ جو تمام سیاسی جماعتوں کیلیے کی گئی تھی4مئی کو اس میں آ جاتے، جب پاکستان بہت تناؤ کا شکار تھا لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ نہیں آئیں گے، اگرچہ ہم اس بات کو سراہتے ہیںکہ انھوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جو قراردادیں آئیں ان کی حمایت کی لیکن یہ جو حمایت آئی ہے اپوزیشن کی طرف سے وہ نیم دلانہ تھی، یہ کوئی آخری سفارتی مشن نہیں ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گفتگو ہوتی ہے کوئی اعتماد سازی ہوتی ہے تو آنے والے وفود میں ان کو شامل کیا جائے گا.
چیئرمین اپٹما کامران ارشد نے کہا کہ میں صرف یہ وضاحت کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ جو اسکیم آئی تھی ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس ) اس اسکیم کا پرپز کچھ اور تھا، اس اسکیم کے بنیادی طور پر دو پرپز تھے، پہلا اس کا پرپز یہ تھا کہ پوری آپ کی ڈومیسٹک ویلیو چین اور ساتھ ساتھ آپ کی جو امپورٹ ہے وہ دونوں بغیر جی ایس ٹی کے آپریٹ کریں کیونکہ جب 18پرسنٹ جی ایس ٹی لاگو ہوتا ہے تو یا تو وہ ان پٹ ، آؤٹ پٹ میں ایڈجسٹ ہوتا ہے یا وہ ایکسپورٹ کی شکل میں ریفنڈمیں جاتا ہے
کامران ارشد نے مزید کہا کہ آپ کو پتہ ہے ہمارے ریفنڈ مہینوں مہینوں، سالوں سال پھنسے رہتے ہیں ایف بی آر میں اور ایف بی آر اس میں اپنی من مانی اور مرضی کرتا ہے، اس سکیم کا پرپز یہ تھا کہ آپ کی ساری ڈومیسٹک ویلیو چین رجسٹر ہو اور وہ اس اسکیم کا حصہ بنے تاکہ جی ایس ٹی ادا نہ کرنا پڑے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے ہوتا ہے کہا کہ
پڑھیں:
تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ میں عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل ہونے والے جنرل الیکشن میں صدر سمیعہ صولوہو حسن نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم ان انتخابات میں صدر سمیعہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
جس پر صرف تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تیسرے دن بھی جاری ہے۔ شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت نے تاحال کسی سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم ایک سو ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔