Islam Times:
2025-05-20@20:26:27 GMT

غزہ فراموشی، فلسطین فروشی، پس چہ باید کرد؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

غزہ فراموشی، فلسطین فروشی، پس چہ باید کرد؟

اسلام ٹائمز: افسوس کہ انہی فلسطینی گروہوں کے اندر خائن عرب ممالک نے پیسہ بہا کر ضمیر فروشوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جیسے محمود عباس اور اس کیساتھ وابستہ وہ گروہ جو حماس کی مزاحمت کے کھلے دشمن بن چکے ہیں۔ وہ حماس کیخلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں اور صہیونیوں کیساتھ ہر قسم کے تعاون پر آمادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ماضی میں یہ کام کرچکے ہیں اور آج بھی اسی خائن صف میں کھڑے ہیں۔ دنیا بھی فلسطین اور غزہ کے حوالے سے مجرمانہ کردار ادا کرچکی ہے، چاہے وہ عالمی سیاستدان ہوں، اسلامی ممالک کے حکمران، مذہبی شخصیات ہوں یا عالمی ادارے۔ سب نے غزہ کے حق میں کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

جب تاریخ ظلم لکھتی ہے تو وہ صرف قاتلوں کا نام نہیں لکھتی، خاموش تماشائیوں اور سہولت کاروں کو بھی اسی سیاہی سے آلودہ کرتی ہے۔ غزہ کے ملبوں تلے دبے لاشے، بچوں کی چیخیں، ماؤں کی سسکیاں اور شہیدوں کی بے کفن لاشیں صرف اسرائیل کے ظلم کی گواہی نہیں دیتیں، بلکہ ان عرب اور مسلم حکمرانوں کے چہروں سے بھی نقاب اٹھا دیتی ہیں، جنہوں نے مصلحت، دولت، مفاد اور اقتدار کے بدلے قبلۂ اول کو فروخت کر دیا۔ آج فلسطین صرف اسرائیلی بمباری کا شکار نہیں، بلکہ ان ریاستوں کی غداری کا بھی شکار ہے، جنہوں نے اسرائیلی ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے یا تو خاموشی اختیار کی یا سہولت کاری کی سطح تک گر گئے۔ اس صورتحال میں یہ وقت صرف اسرائیلی درندگی کو بیان کرنے کا نہیں، بلکہ اُن مسلم حکمرانوں کی اصلیت کو بھی بے نقاب کرنے کا ہے، جو حرمین کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات، عقیدت اور دولت کو نچوڑ کر دشمنانِ اسلام کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ غزہ کی سرزمین اس وقت تاریخ کے بدترین ظلم کا سامنا کر رہی ہے۔

اسرائیلی جارحیت تسلسل کیساتھ جاری ہے، بغیر کسی وقفے کے۔ اب صہیونی ریاست نے نہ صرف غزہ پر مکمل قبضے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے، بلکہ اس کیلئے فوجی تیاریوں کو بھی تیز کر دیا ہے۔ ہر وہ معاہدہ جو جنگ بندی کے نام پر ہوا، وہ اسرائیلی مفادات کا تحفظ بن کر رہ گیا۔ ان معاہدوں کے پس پردہ عرب دنیا کی وہ حکومتیں ہیں، جو فلسطین کو صرف ایک فائل سمجھ کر، صہیونی منصوبوں کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ یہ خائن حکمران اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے تو سرگرم رہے، مگر ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کی آزادی، خود مختاری اور حماس کی جدوجہد کو کچلنے کیلئے بھی برابر کے شریک بن گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ فلسطین فروشی میں سعودی عرب، مصر اور ترکی سرفہرست ہیں۔ یہ تینوں ریاستیں صہیونی منصوبے کی تکمیل کیلئے نہ صرف سفارتی بلکہ خفیہ و عسکری تعاون بھی فراہم کر رہی ہیں، جبکہ قطر، متحدہ عرب امارات، اردن اور خطے کے دیگر ممالک ان کے معاونِ جرم بنے ہوئے ہیں۔

دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ اب "جنگ بندی" کے نام پر نئی تجاویز جو پیش کی جا رہی ہیں، وہ سابقہ معاہدوں سے بھی زیادہ ذلت آمیز اور فلسطینی مزاحمت کے لیے مہلک ہیں۔ فلسطینیوں کو ان تجاویز کے ذریعے سرنڈر پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس وقت جب طوفان الاقصیٰ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور فلسطینی مزاحمت نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا، ایک نئی بیداری نے جنم لیا۔ کئی مغربی ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئے، عوامی رائے بدلنے لگی اور سیاسی و سماجی سطح پر فلسطین کی حمایت بڑھنے لگی۔ مگر ابلیسی قوتیں کہاں خاموش رہنے والی تھیں۔؟ انہوں نے اس حمایت اور بیداری کو روکنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے۔ اس بیداری کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہر خطے میں دانستہ طور پر بحران پیدا کیے جا رہے ہیں، تاکہ توجہ غزہ اور مظلوم فلسطینیوں سے ہٹا دی جائے۔

ایشیائی خطے میں بھارت کی جارحیت اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے، ایک متوازی شور جس کا مقصد اسرائیل کو مہلت دینا ہے، تاکہ وہ غزہ میں اپنا ناپاک ہدف مکمل کرسکے۔ یہ سب کچھ ایک منظم، عالمی منصوبے کے تحت ہو رہا ہے، جس کا خاکہ پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ جیسے کرداروں نے پیش کر دیا تھا۔ اُس نے آغاز میں ہی اپنے منصوبے کی جھلک دے دی تھی۔ ’’غزہ کو خالی کرو، فلسطینیوں کو نکالو اور عرب دنیا انہیں مہاجرین کی حیثیت سے قبول کرے۔‘‘ یہ باتیں وقتی طور پر نرم الفاظ میں ڈھانپ دی جاتی ہیں، مگر حقیقت وہی ہے، جو ابتدا میں زبان پر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈونیشیا کے صدر کی طرف سے باقاعدہ بیان آیا کہ ’’اگر فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کیا گیا، تو ہم انہیں پناہ دیں گے۔‘‘ یہ بظاہر ہمدردی پر مبنی الفاظ دراصل ایک بڑے صہیونی منصوبے کا حصہ ہیں۔ ’’فلسطینیوں کو نکالنا، غزہ کو تباہ کرنا اور پھر اس کی تعمیر کے وعدے کرکے انہیں واپس آنے سے روک دینا۔‘‘

مصر ایک طویل عرصے سے اسی ناپاک مقصد کی تکمیل میں لگا ہوا ہے۔ وہ بین الاقوامی دباؤ، معاشی لالچ اور سیاسی مصلحتوں کے تحت غزہ کو خالی کروانے کیلئے کوشاں ہے، تاکہ ایک بار پھر فلسطینیوں کو مستقل بے وطنی کی طرف دھکیل دیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل کی منحوس حکمتِ عملی کا بنیادی اصول یہ ہے۔ ’’جو فلسطینی اپنی زمین سے ایک بار نکلا، وہ دوبارہ لوٹ کر نہیں آیا۔‘‘ یہی وہ تلخ حقیقت ہے، جسے آج کی دنیا بھی دہرا رہی ہے۔ ان خائننین کو یہ گمان ہے کہ فلسطینی خوفزدہ ہو کر، ہراساں ہو کر، اپنی جان کی امان کیلئے کسی اور جگہ پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مگر انہیں یہ اندازہ نہیں کہ فلسطینیوں کیلئے اپنی زمین کو چھوڑنا سب سے بڑا دکھ، سب سے بڑی ذلت ہے۔ وہ اپنی سرزمین پر مرنا پسند کرتے ہیں، لیکن اسے چھوڑنا کبھی گوارا نہیں کرتے۔

ان بے شرم عربوں کو بخوبی علم ہے کہ فلسطینیوں کے دل میں اپنی مٹی سے ایسی وفاداری رچی بسی ہے، جس کیلئے وہ نسل در نسل قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ شہادتیں، لہو، ماں کی گود سے اٹھتے بچوں کی لاشیں، ہر گھر کا چراغ بجھ چکا ہے، مگر فلسطینی پیچھے نہیں ہٹے۔ انہی عرب حکمرانوں، قصاب نیتن یاہو اور ٹرمپ جیسے درندے نے مل کر ایک مکروہ منصوبہ بنایا۔ تاکہ فلسطینیوں کو بھوک، بیماری، اور آخرکار بموں سے ختم کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی نسل کشی بلا توقف جاری ہے۔ تاہم اب بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ عرب ممالک اور امریکہ مکمل طور پر اس نسل کشی کے منصوبے میں شریکِ جرم ہیں۔ سب سے بڑھ کر ترکی اس منصوبے کی تکمیل کا خواہاں ہے، جسے نیتن یاہو زمین پر انجام دے رہا ہے اور ٹرمپ پسِ پردہ اس کی مدد کر رہا ہے۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ وہ آخری فلسطینی کو بھی شہید کر دیں، آخری لاش کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ نیتن یاہو کا یہ صہیونی منصوبہ مکمل ہو۔

انہوں نے ہر دروازہ، ہر میدان نیتن یاہو کیلئے کھول دیا ہے۔ سہولتیں، تعاون، سیاسی پشت پناہی، سب کچھ۔ مگر وہ پھر بھی ناکام ہے، بے بس ہے، کیونکہ فلسطینی صرف گوشت پوست کے انسان نہیں، وہ سرزمینِ قدس کے غیرت مند بیٹے ہیں، جنہیں مٹا دینا ممکن نہیں اور وہ ان شاء اللہ کبھی مٹیں گے بھی نہیں۔ آج فلسطینی نہ صرف بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں، بلکہ انہوں نے دوسروں پر تکیہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ اب صرف اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر ڈٹے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ ان کا اصل سہارا وہی ذات ہے، جو ظلمتوں میں چراغ جلاتی ہے۔ افسوس کہ انہی فلسطینی گروہوں کے اندر خائن عرب ممالک نے پیسہ بہا کر ضمیر فروشوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جیسے محمود عباس اور اس کیساتھ وابستہ وہ گروہ جو حماس کی مزاحمت کے کھلے دشمن بن چکے ہیں۔ وہ حماس کیخلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں اور صہیونیوں کیساتھ ہر قسم کے تعاون پر آمادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ماضی میں یہ کام کرچکے ہیں اور آج بھی اسی خائن صف میں کھڑے ہیں۔

دنیا بھی فلسطین اور غزہ کے حوالے سے مجرمانہ کردار ادا کرچکی ہے، چاہے وہ عالمی سیاستدان ہوں، اسلامی ممالک کے حکمران، مذہبی شخصیات ہوں یا عالمی ادارے۔ سب نے غزہ کے حق میں کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ جنہوں نے بظاہر آواز بلند کی بھی، وہ محض خفت مٹانے کے لیے تھی۔ ان کی آوازیں صرف رسمی تھیں، مؤثر نہیں۔ مؤثر آواز وہ ہوتی ہے، جو ظالم پر دباؤ ڈالے، جو زمین پر کچھ بدلے، جو دشمن کو روک دے۔ اگر پاکستان میں واقعی ایک مؤثر آواز بلند ہو، تو غزہ پر ہونیوالا ظلم رُک سکتا ہے، صہیونی جارحیت پر قدغن لگ سکتی ہے، دشمن پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ لیکن یہاں ایسی آواز نہ پہلے اٹھی، نہ اب اٹھ رہی ہے۔ صرف بیانات، فقط سیاسی نعرے، صرف وقتی جذباتی تقریریں اصل مقصد صرف اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہے، فلسطین کا درد نہیں۔ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں کہ مؤثر آواز کیا ہوتی ہے، بائیکاٹ۔۔ بائیکاٹ ہی وہ حربہ ہے، جو غزہ کی جنگ پر براہ راست اثر ڈال سکتا ہے۔

اگر صرف پاکستان ہی مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دے، تو یہ جنگ رک سکتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جتنے خائن اور صہیونی حامی ممالک ہیں، ان سب کے مفادات پاکستان میں جڑیں پکڑے بیٹھے ہیں، تجارتی، اقتصادی، سیاسی، تعلیمی، سماجی، حتیٰ کہ ان کے سفارتی مفادات بھی پاکستان میں مضبوطی سے قائم ہیں۔ افسوس! ان کے ان مفادات کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا، نہ وہ لوگ جو فلسطین کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، نہ وہ جو تقریریں کرتے ہیں، کیونکہ دن کو غزہ کی بات کرنیوالے رات کو انہی ممالک کے سفارتخانوں میں چائے پیتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں اور خفیہ ملاقاتوں میں اپنی وفاداریاں پیش کرتے ہیں۔ ان میں نیت ہی نہیں، مؤثر اقدام کی۔ نہ ارادہ ہے، نہ ہمت، جبکہ پاکستان چاہے تو ایک واضح پیغام دے سکتا ہے، وہ یہ کہ غزہ پر جنگ چلے گی، یا تمہارے مفادات پاکستان میں! دونوں ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔ اگر تم فلسطین پر ظلم کرو گے تو پاکستان تمہیں اپنے ملک میں کسی بھی قسم کا مفاد حاصل نہیں کرنے دے گا، نہ تجارتی، نہ تعلیمی، نہ سیاسی، نہ سفارتی۔

مگر یہ سب پاکستان کی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ماضی کی نسبتاً مضبوط حکومتیں بھی اس مؤقف پر کھڑی نہیں ہوسکیں۔ انہوں نے کشمیر پر سودے کیے، فلسطین پر سمجھوتے کیے اور حتیٰ پاکستان کی سلامتی پر بھی مصلحتوں کو فوقیت دی۔ موجودہ حکومت تو خود دباؤ اور کمزوری کا شکار ہے، وہ تو مزید بے بس ہے۔ یہ سب کچھ وہ نہیں کرسکتے، یہ وہی کرسکتے ہیں، جو خود کو آزاد اور غیرت مند سمجھتے ہیں۔ جن کے سینے میں امت کا درد اور انسانیت کیلئے تڑپتا ہوا دل موجود ہے اور وہ ہے عوام۔ یہ عوام کا فریضہ ہے، وہ عوام جو بیدار ہیں، باشعور ہیں، جو فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو ایک جسد واحد مانتے ہیں۔ یہ قدم عوام کو اٹھانا ہوگا، عوامی سطح پر، اجتماعی سطح پر، عملی سطح پر۔ تب ہی باقی دنیا بھی جاگے گی، تب ہی خائن عرب بے نقاب ہوں گے، تب ہی صہیونی سازشیں پسپا ہوں گی اور تب ہی غزہ کی فضا میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو پاکستان میں کہ فلسطینی کہ فلسطین جو فلسطین نیتن یاہو کرتے ہیں دنیا بھی انہوں نے یہ ہے کہ حماس کی سکتا ہے ہیں اور رہے ہیں بھی اس رہا ہے دیا ہے غزہ کے غزہ کی کو بھی کر دیا

پڑھیں:

فلسطینوں کے حق میں آواز اٹھانا جُرم بن گیا، سابق فٹبالر نوکری سے فارغ

برطانوی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان اور معروف نشریاتی ادارے پر شو کے میزبان گیری لینیکر کو یہودیوں کے مخالف بیان دینا مہنگا پڑگیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے فلسطینوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر سابق فٹبال ٹیم کے کپتان اور شو کے ہوسٹ گیری لینیکر کو نوکری سے نکال دیا۔

گیری لینیکر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر فلسطینیوں کے حق میں بیان دیا تھا جس پر انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔

مزید پڑھیں: ’’رضوان نے کچھ غلط نہیں کیا‘‘ پاکستان نے آئی سی سی پر واضح کردیا

64 سالہ گیری لینیکر انگلینڈ کے سابق فٹبال کپتان اور دورِ حاضر کے ٹاپ فٹبال پریزنٹرز میں سے ایک ہیں۔

مزید پڑھیں: رضوان کا فلسطین سے متعلق ٹوئٹ آئی سی سی نے بیان جاری کردیا

گزشتہ دنوں سابق اسٹار فٹبالر اور پریزینٹر گیری لینیکر نے سوشل میڈیا پر فلسطین حمایتی گروپ کی ایک ایسی پوسٹ شیئر کی، جس پر "چوہے" کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی جو تاریخی طور پر یہود مخالف عکس تصور کیا جاتا ہے۔

گو کہ گیری لینیکر نے اپنی پوسٹ پر معافی مانگ لی تاہم مختلف تنظیموں کی جانب سے انہیں اور ان کے ادارے کو شدید تنقید کا سامنا رہا تھا جس کے بعد ادارے کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اینکر نے اس سیزن کے اختتام پر ادارے سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

مزید پڑھیں: آسٹریلوی کرکٹر بھی فلسطین میں شہادتوں پر بول اُٹھے

گیری لینیکر ماضی میں بھی برطانوی حکومت کی پالیسی پر تنقید کے بعد کچھ دیر کیلئے آف ایئر بھی ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطینوں کے حق میں آواز اٹھانا جُرم بن گیا، سابق فٹبالر نوکری سے فارغ
  • نیویارک یونیورسٹی کے ٹاپر طالبعلم کی ڈگری "فلسطین کی حمایت" کے باعث معطل
  • پسِ پردہ اسرائیلی دماغ اور مشن فلسطین
  • بھارت اسرائیل نہیں ہے اور پاکستان فلسطین نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر کا ترک نیوز ایجنسی کو انٹرویو
  • بھارت اسرائیل ہے اور نہ پاکستان فلسطین، جارحیت کا بے رحمانہ جواب دیں گے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت امریکہ نہیں ہے اور پاکستان افغانستان نہیں ہے، نہ تو بھارت اسرائیل ہے اور نہ ہی پاکستان فلسطین، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بھارت اسرائیل ہے اور نہ پاکستان فلسطین، جارحیت کا بے رحمانہ جواب دیں گے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کے بجائے جہنم جانا زیادہ پسند کروں گا، جاوید اختر کی احسان فراموشی
  • 77 وا ں یوم نکبہ: ہم واپس آئیں گے