Express News:
2025-11-03@16:41:09 GMT

بھارت کو ہزیمت کا سامنا

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہماری افواج نے دشمن کو وہ سبق سکھایا جسے وہ قیامت تک یاد رکھے گا، پاک بحریہ اس بار بھی 1965کی طرح دوارکا کی تاریخ دہرانے کے لیے تیار تھی مگر پاک بحریہ کی تیاری دیکھ کر دشمن کی ہمت نہیں ہوئی۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ پاکستان بھارتی تسلط کے سامنے جھکے گا نہیں اور بھارت جتنی جلدی یہ بات سمجھ جائے اچھا ہے۔ یہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے اچھا ہوگا۔

 پاک فوج کی دشمن پرکامیابی نے جہاں ہم وطنوں کے دل جیتے ہیں، وہیں پاکستانی قوم کا امن پسند بیانیہ دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔ پاکستان نے بہترین سفارت کاری سے، بھارت کو سیاسی، سفارتی، سائنسی، میڈیا اور عوامی ہر میدان میں چاروں شانے چت کردیا ہے۔

سیزفائر بظاہر ایک عارضی امن کا ذریعہ ہے، لیکن بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے حالیہ بیان، جس میں انھوں نے دوبارہ پاکستان پر حملے کی دھمکی دی ہے، اس خدشے کو تقویت دیتا ہے کہ بھارت اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کسی بھی وقت دوبارہ مہم جوئی کرسکتا ہے۔ بھارتی حکومت ایک عرصے سے اپنی عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے پاکستان دشمنی کو استعمال کرتی آئی ہے۔ پہلگام کا فالس فلیگ آپریشن اور پھر پاکستان پر الزام تراشی اسی ذہنی کیفیت کا تسلسل ہے مگر حالیہ شکست نے نریندر مودی کی قیادت کو اندرونی طور پر مزید کمزور کردیا ہے۔

ایسے میں وہ دوبارہ جنگی ماحول بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ بھارتی جنگی جنون نے ہمیشہ پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنے رہنے پر مجبور کیا ہے مگر پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم اور امور محبت دوستانہ راہداریاں کشادہ کرنے کی بات کی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاک بھارت تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دے دی، جس کو سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے بھارت کے لیے سفارتی ناکامی قرار دیا ہے، بھارت کے لیے یہ اس لیے ناکامی اس تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دلا دی ہے۔

 افواجِ پاکستان بالخصوص پاک فضائیہ اور پاک بحریہ جس’ قوت‘ سے لیس تھی ، اس کا اندازہ بھارت تو کیا، طاقتور مغربی دارالحکومتوں کو بھی نہیں تھا، جس سرعت اور توانائی کے ساتھ پاک فضائیہ نے پلٹ کر وار کیا، اس نے بھارت کی فضائی برتری کی عشروں پرانیMyth  توڑکر رکھ دی۔ جب کہ پاک بحریہ کی تیاری دیکھ کر ہی بھارت چپ ہوگیا۔

بھارت کی حالت اب اس عظیم الجثہ پہلوان کی سی ہے کہ جسے کئی گنا کمزور دکھائی دینے والے مقابل نے اکھاڑے میں اُترتے ہی اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو۔ اپنی خفت مٹانے کو بھارتی پالیسی اب ’New Normal‘ کے نام پر ایک نیا ڈاکٹرائن عام شہریوں کو دکھاتے پھررہے ہیں۔

عسکری امورکے کئی ماہرین کے نزدیک بھارت کے اندر کسی بھی دہشت گردی کے جواب میں اُس کی جانب سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی اس پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملک اب مسلسل حالتِ جنگ میں رہیں گے۔ دوسری جانب پاکستان نے مگر ثابت کر دیا ہے کہ ایسے کسی بھارتی حملے کے جواب میں وہ بھارت کے ساتھ روایتی جنگ میں بھی ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حالیہ رد عمل نے خطے میں عسکری توازن پیدا کر دیا ہے۔ بھارت جو بھی کہے، اب یہی ’ نیو نارمل‘ ہے۔ یہ ردعمل دینے کی صلاحیت ہمیں راتوں رات نصیب نہیں ہوئی۔

اس صلاحیت کے حصول کے پیچھے ان تمام سیاسی اور فوجی حکومتوں اور قومی اداروں کے اندر ایک گھمنڈی پڑوسی سے نبرد آزما ہونے کی عشروں پر محیط Perrenial quest کار فرما رہی ہے۔ پردے کے پیچھے شہرت سے بے نیاز ہزارہا غازی، سائنسدان اور ہنرمند طلسمی تخلیقات میں دن رات مگن رہے ہیں۔ ہمارے دفاعی اخراجات پر بجا طور پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ وقت نے مگر ثابت کیا ہے کہ ایک بد طینت دائمی دشمن کی موجودگی میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی جنگی روش پر برقرار رہتے ہوئے پانی روکنے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات نہ کرنے کے اپنے سخت مؤقف پر قائم ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ 2019میں کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور الحاق کے ان کی حکومت کے یک طرفہ فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہے۔

انھوں نے واضح کیا ہے کہ اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر ہوں گے۔جس امر نے بھارتی وزیر اعظم کو سب سے زیادہ مشتعل کیا وہ یہ ہے کہ حالیہ محاذ آرائی نے اقوامِ عالم کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر متوجہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر اور دیگر مسائل پر ثالثی کی پیش کش نے مودی کو مشتعل کیا ہے جوکہ جنگ بندی معاہدے کے بعد ان کے پہلے خطاب میں عیاں تھا۔ مودی حکومت نے بھارت کے اس دیرینہ مؤقف کو برقرار رکھا ہے کہ وہ بین الاقوامی ثالثی کو قبول نہیں کرے گا جسے بھارت نے دونوں ممالک کا معاملہ قرار دیا ہے۔

پہلگام میں 2 درجن سے زائد افراد کے قتل کے بعد مودی حکومت نے دو جہتی نقطہ نظر اختیار کر کے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوجی کارروائیوں کے دائرہ کار کو پاکستان کے مرکزی شہروں تک وسعت دیتے ہوئے، نئی دہلی نے اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر بھی تنہا کرنے کی کوشش کی۔ 2019کے برعکس اس بار فوجی کارروائی کے لیے اسے واشنگٹن اور دیگر مغربی اتحادیوں کی حمایت نہ مل سکی۔ ٹرمپ نے تنازع میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا جو کہ مودی حکومت کے لیے بڑا سفارتی دھچکا تھا کیونکہ بھارت خود کو امریکا کا اہم اسٹرٹیجک اتحادی سمجھتا ہے۔ اس سے پاکستان کو ’سزا دینے‘ کی بھارتی حکمت عملی ناکام ہوگئی۔

 یہ کامیابی اس وقت اور بھی خوشی کا سبب بن جاتی ہے، جب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدرکھلے عام پاکستانی قوم کی ذہانت، عسکری صلاحیت، سیاسی بصیرت اور تعاون کو سراہتا ہے تو یہ صرف الفاظ نہیں ہوتے بلکہ عالمی سفارت کاری کے تانے بانے میں ایک بڑی تبدیلی کا اعلان ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے نظر آرہے ہیں کہ امریکا اب پاکستان کو نظرانداز نہیں کرے گا بلکہ تجارتی، دفاعی اور سیاسی میدان میں باہمی تعاون کو فروغ دے گا۔

ماضی کے تلخ تجربات، افغان جنگ، ڈرون حملوں اور باہمی بد اعتمادی کی دھند میں امریکی صدرکی طرف سے یہ اعتراف کسی بھی طور اعزاز سے کم نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا سربراہ پاکستان کے کردار کو اس قدر اہم سمجھا رہا ہے۔ پاکستان کے برعکس امریکی صدر ٹرمپ بھارت کے تجارتی رویے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت سے کاروبار بہت مشکل ہے اس لیے کہ ’’ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف بھارت لیتا ہے۔‘‘

ان کے اس بیان نے بھارت کے عالمی تجارتی کردار پرکئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف ایپل کو بھارت میں سرمایہ کاری سے روک دیا بلکہ ہدایت کی کہ وہ امریکا میں صنعت لگائے تاکہ مقامی معیشت کو فروغ ملے۔ اس کے برعکس انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستانی قوم کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ امریکی صدر پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، امن کے قیام میں کردار اور بین الاقوامی امور میں متوازن رویے کو سراہا رہا ہے۔

بھارت کی داخلی انتہا پسند پالیسیوں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف جارحیت اور پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی نے امریکا کو مجبورکیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کو دوبارہ سنجیدگی سے لے۔ اسی طرح پاکستانی سیاسی قیادت کو بھی مثبت انداز میں پیش کیا گیا، جو ایک طویل عرصے کے بعد کسی امریکی صدر کی جانب سے پذیرائی کا مظہر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری، عسکری اور سفارتی قیادت بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

 امریکا کی اس نئی سوچ کا جواب پاکستان کو نہایت دانشمندی اور بالغ نظری سے دینا ہو گا۔ ہمیں داخلی استحکام، ادارہ جاتی مضبوطی، شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے ایک قابلِ بھروسہ ریاست کا تاثر قائم رکھنا ہوگا۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتی ٹیموں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ یہ موجودہ موقع کو دیرپا مفاد میں بدل سکیں۔ سی پیک کی صورت میں پاکستان پہلے ہی چین کے ساتھ ایک مضبوط اقتصادی راستہ اختیار کر چکا ہے۔ اب اگر امریکا کے ساتھ بھی معاشی تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لیے ایشیا کے مرکز میں ایک ’’بزنس حب‘‘ بننے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان کو پاکستان کے امریکی صدر پاک بحریہ نے بھارت بھارت کے کے ساتھ کیا ہے کے بعد ہیں کہ کہ پاک کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا

فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں اکتوبر کے مہینے میں عسکریت پسندوں کو گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، کیوں کہ سیکیورٹی فورسز نے ملک کے مختلف علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پیش رفت ستمبر میں عسکریت پسندوں کے دبا میں آنے کے بعد سامنے آئی ہے، جب 69 حملے ریکارڈ ہوئے تھے، اور اگست کے مقابلے میں حملوں میں 52 فیصد کمی دیکھی گئی تھی۔

تھنک ٹینک کی آج جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق، اکتوبر میں 355 عسکریت پسند ہلاک ہوئے، 72 سیکیورٹی اہلکار اور 31 عام شہری بھی جاں بحق ہوئے، جن میں بنوں میں امن کمیٹی کا ایک رکن بھی شامل تھا۔مزید برآں، ملک بھر میں 92 سیکیورٹی اہلکار، 48 عام شہری اور 22 عسکریت پسند زخمی ہوئے۔اگرچہ پی آئی سی ایس ایس کے مطابق ستمبر کے 69 حملوں کے مقابلے میں اکتوبر میں عسکریت پسندانہ حملوں میں 29 فیصد اضافہ (89 حملے) ہوا، لیکن ان حملوں میں مجموعی جانی نقصان میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ماہ عسکریت پسندوں نے 55 افراد کو اغوا کیا، جو پچھلی ایک دہائی میں اغوا کے سب سے زیادہ ماہانہ واقعات ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز نے 22 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں میں 55 سیکیورٹی اہلکار، 29 عام شہری، ایک امن کمیٹی کا رکن اور 24 شدت پسند مارے گئے۔ان حملوں میں 88 سیکیورٹی اہلکار، 45 شہری اور ایک عسکریت پسند زخمی ہوئے۔بلوچستان میں اکتوبر کے دوران 23 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو ستمبر کے 21 سے کچھ زیادہ تھے

، تاہم ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی، سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات 33 سے گھٹ کر 16 اور شہریوں کی 38 سے کم ہو کر 3 رہ گئیں۔دونوں مہینوں میں 8 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔زخمی ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 37 سے کم ہو کر 15، جب کہ شہریوں کی تعداد 85 سے گھٹ کر 20 رہ گئی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اکتوبر میں عسکریت پسندوں نے 31 افراد اغوا کیے، جن میں زیادہ تر مزدور تھے۔انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے پی آئی سی ایس ایس نے بتایا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے 67 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا، جو 2002 کے بعد سے ایک مہینے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ادارے نے اسے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری قرار دیا، کیوں کہ شہریوں کی ہلاکتوں میں 92 فیصد اور سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں 52 فیصد کمی آئی ہے۔

سابق قبائلی اضلاع میں 22 عسکریت پسند حملے ریکارڈ ہوئے، جو ستمبر کے برابر تھے مگر جانی نقصان میں نمایاں اضافہ ہوا۔ان حملوں میں کل 31 افراد مارے گئے، جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار اور 13 شہری شامل تھے، جبکہ 45 افراد زخمی ہوئے، جن میں 32 سیکیورٹی اہلکار اور 13 شہری تھے۔عسکریت پسندوں نے علاقے سے 18 افراد کو اغوا بھی کیا۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق اس خطے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں 200 فیصد اضافہ ہوا (6 سے بڑھ کر 18)، جب کہ مجموعی ہلاکتوں میں 48 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 209 عسکریت پسند مارے گئے، جو نومبر 2014 کے بعد کسی ایک مہینے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ان کارروائیوں میں 16 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے،

جن میں اورکزئی ضلع میں پیش آنے والا سب سے خونریز واقعہ شامل ہے، جس کے بعد افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی پیدا ہوئی۔ادارے نے تصدیق کی کہ سیکیورٹی فورسز نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق نائب امیر اور شیڈو وزیرِ دفاع، قاری امجد کو باجوڑ میں ہلاک کیا، جو 2007 میں ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد سب سے ہائی پروفائل ہلاکت ہے۔خیبر پختونخوا میں اکتوبر کے دوران 37 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو ستمبر کے 25 حملوں سے زیادہ ہیں، جن میں 48 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 21 سیکیورٹی اہلکار، 10 شہری، 16 عسکریت پسند اور ایک امن کمیٹی رکن شامل ہیں۔

مجموعی طور پر 42 افراد زخمی ہوئے، جن میں 35 سیکیورٹی اہلکار اور 7 شہری شامل تھے، جبکہ 4 افراد کو عسکریت پسندوں نے اغوا کیا۔سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 55 عسکریت پسند مارے گئے، جب کہ ایک اہلکار شہید ہوا۔ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد 88 سے کم ہو کر 55 رہی۔سندھ میں 3 حملوں میں 3 شہری ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوئے، جن میں 4 شہری اور 3 سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق، کالعدم زینبیون بریگیڈ کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا، جس کے اہم کمانڈرز سمیت 8 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی امریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان بھارتی خفیہ ایجنسی نے پاکستانی مچھیرے کو پیسوں کا لالچ دیکر اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، عطا تارڑ ڈی جی این سی سی آئی اے نے ضبط تمام جائیدادوں،گاڑیوں کی تفصیلات مانگ لیں وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد پنجاب میں اب کسی غریب اور کمزور کی زمین پرقبضہ نہیں ہوگا، وزیر اطلاعات پنجاب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بھارت پاکستان سے ہونے والی شرمناک شکست کو آج تک ہضم نہیں کر پایا، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ایک مشکل کا سامنا
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار
  • فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان
  • بھارت خفیہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا