Express News:
2025-05-21@05:17:58 GMT

بھارت کو ہزیمت کا سامنا

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہماری افواج نے دشمن کو وہ سبق سکھایا جسے وہ قیامت تک یاد رکھے گا، پاک بحریہ اس بار بھی 1965کی طرح دوارکا کی تاریخ دہرانے کے لیے تیار تھی مگر پاک بحریہ کی تیاری دیکھ کر دشمن کی ہمت نہیں ہوئی۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ پاکستان بھارتی تسلط کے سامنے جھکے گا نہیں اور بھارت جتنی جلدی یہ بات سمجھ جائے اچھا ہے۔ یہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے اچھا ہوگا۔

 پاک فوج کی دشمن پرکامیابی نے جہاں ہم وطنوں کے دل جیتے ہیں، وہیں پاکستانی قوم کا امن پسند بیانیہ دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔ پاکستان نے بہترین سفارت کاری سے، بھارت کو سیاسی، سفارتی، سائنسی، میڈیا اور عوامی ہر میدان میں چاروں شانے چت کردیا ہے۔

سیزفائر بظاہر ایک عارضی امن کا ذریعہ ہے، لیکن بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے حالیہ بیان، جس میں انھوں نے دوبارہ پاکستان پر حملے کی دھمکی دی ہے، اس خدشے کو تقویت دیتا ہے کہ بھارت اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کسی بھی وقت دوبارہ مہم جوئی کرسکتا ہے۔ بھارتی حکومت ایک عرصے سے اپنی عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے پاکستان دشمنی کو استعمال کرتی آئی ہے۔ پہلگام کا فالس فلیگ آپریشن اور پھر پاکستان پر الزام تراشی اسی ذہنی کیفیت کا تسلسل ہے مگر حالیہ شکست نے نریندر مودی کی قیادت کو اندرونی طور پر مزید کمزور کردیا ہے۔

ایسے میں وہ دوبارہ جنگی ماحول بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ بھارتی جنگی جنون نے ہمیشہ پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنے رہنے پر مجبور کیا ہے مگر پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم اور امور محبت دوستانہ راہداریاں کشادہ کرنے کی بات کی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاک بھارت تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دے دی، جس کو سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے بھارت کے لیے سفارتی ناکامی قرار دیا ہے، بھارت کے لیے یہ اس لیے ناکامی اس تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دلا دی ہے۔

 افواجِ پاکستان بالخصوص پاک فضائیہ اور پاک بحریہ جس’ قوت‘ سے لیس تھی ، اس کا اندازہ بھارت تو کیا، طاقتور مغربی دارالحکومتوں کو بھی نہیں تھا، جس سرعت اور توانائی کے ساتھ پاک فضائیہ نے پلٹ کر وار کیا، اس نے بھارت کی فضائی برتری کی عشروں پرانیMyth  توڑکر رکھ دی۔ جب کہ پاک بحریہ کی تیاری دیکھ کر ہی بھارت چپ ہوگیا۔

بھارت کی حالت اب اس عظیم الجثہ پہلوان کی سی ہے کہ جسے کئی گنا کمزور دکھائی دینے والے مقابل نے اکھاڑے میں اُترتے ہی اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو۔ اپنی خفت مٹانے کو بھارتی پالیسی اب ’New Normal‘ کے نام پر ایک نیا ڈاکٹرائن عام شہریوں کو دکھاتے پھررہے ہیں۔

عسکری امورکے کئی ماہرین کے نزدیک بھارت کے اندر کسی بھی دہشت گردی کے جواب میں اُس کی جانب سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی اس پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملک اب مسلسل حالتِ جنگ میں رہیں گے۔ دوسری جانب پاکستان نے مگر ثابت کر دیا ہے کہ ایسے کسی بھارتی حملے کے جواب میں وہ بھارت کے ساتھ روایتی جنگ میں بھی ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حالیہ رد عمل نے خطے میں عسکری توازن پیدا کر دیا ہے۔ بھارت جو بھی کہے، اب یہی ’ نیو نارمل‘ ہے۔ یہ ردعمل دینے کی صلاحیت ہمیں راتوں رات نصیب نہیں ہوئی۔

اس صلاحیت کے حصول کے پیچھے ان تمام سیاسی اور فوجی حکومتوں اور قومی اداروں کے اندر ایک گھمنڈی پڑوسی سے نبرد آزما ہونے کی عشروں پر محیط Perrenial quest کار فرما رہی ہے۔ پردے کے پیچھے شہرت سے بے نیاز ہزارہا غازی، سائنسدان اور ہنرمند طلسمی تخلیقات میں دن رات مگن رہے ہیں۔ ہمارے دفاعی اخراجات پر بجا طور پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ وقت نے مگر ثابت کیا ہے کہ ایک بد طینت دائمی دشمن کی موجودگی میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی جنگی روش پر برقرار رہتے ہوئے پانی روکنے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات نہ کرنے کے اپنے سخت مؤقف پر قائم ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ 2019میں کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور الحاق کے ان کی حکومت کے یک طرفہ فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہے۔

انھوں نے واضح کیا ہے کہ اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر ہوں گے۔جس امر نے بھارتی وزیر اعظم کو سب سے زیادہ مشتعل کیا وہ یہ ہے کہ حالیہ محاذ آرائی نے اقوامِ عالم کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر متوجہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر اور دیگر مسائل پر ثالثی کی پیش کش نے مودی کو مشتعل کیا ہے جوکہ جنگ بندی معاہدے کے بعد ان کے پہلے خطاب میں عیاں تھا۔ مودی حکومت نے بھارت کے اس دیرینہ مؤقف کو برقرار رکھا ہے کہ وہ بین الاقوامی ثالثی کو قبول نہیں کرے گا جسے بھارت نے دونوں ممالک کا معاملہ قرار دیا ہے۔

پہلگام میں 2 درجن سے زائد افراد کے قتل کے بعد مودی حکومت نے دو جہتی نقطہ نظر اختیار کر کے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوجی کارروائیوں کے دائرہ کار کو پاکستان کے مرکزی شہروں تک وسعت دیتے ہوئے، نئی دہلی نے اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر بھی تنہا کرنے کی کوشش کی۔ 2019کے برعکس اس بار فوجی کارروائی کے لیے اسے واشنگٹن اور دیگر مغربی اتحادیوں کی حمایت نہ مل سکی۔ ٹرمپ نے تنازع میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا جو کہ مودی حکومت کے لیے بڑا سفارتی دھچکا تھا کیونکہ بھارت خود کو امریکا کا اہم اسٹرٹیجک اتحادی سمجھتا ہے۔ اس سے پاکستان کو ’سزا دینے‘ کی بھارتی حکمت عملی ناکام ہوگئی۔

 یہ کامیابی اس وقت اور بھی خوشی کا سبب بن جاتی ہے، جب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدرکھلے عام پاکستانی قوم کی ذہانت، عسکری صلاحیت، سیاسی بصیرت اور تعاون کو سراہتا ہے تو یہ صرف الفاظ نہیں ہوتے بلکہ عالمی سفارت کاری کے تانے بانے میں ایک بڑی تبدیلی کا اعلان ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے نظر آرہے ہیں کہ امریکا اب پاکستان کو نظرانداز نہیں کرے گا بلکہ تجارتی، دفاعی اور سیاسی میدان میں باہمی تعاون کو فروغ دے گا۔

ماضی کے تلخ تجربات، افغان جنگ، ڈرون حملوں اور باہمی بد اعتمادی کی دھند میں امریکی صدرکی طرف سے یہ اعتراف کسی بھی طور اعزاز سے کم نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا سربراہ پاکستان کے کردار کو اس قدر اہم سمجھا رہا ہے۔ پاکستان کے برعکس امریکی صدر ٹرمپ بھارت کے تجارتی رویے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت سے کاروبار بہت مشکل ہے اس لیے کہ ’’ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف بھارت لیتا ہے۔‘‘

ان کے اس بیان نے بھارت کے عالمی تجارتی کردار پرکئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف ایپل کو بھارت میں سرمایہ کاری سے روک دیا بلکہ ہدایت کی کہ وہ امریکا میں صنعت لگائے تاکہ مقامی معیشت کو فروغ ملے۔ اس کے برعکس انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستانی قوم کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ امریکی صدر پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، امن کے قیام میں کردار اور بین الاقوامی امور میں متوازن رویے کو سراہا رہا ہے۔

بھارت کی داخلی انتہا پسند پالیسیوں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف جارحیت اور پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی نے امریکا کو مجبورکیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کو دوبارہ سنجیدگی سے لے۔ اسی طرح پاکستانی سیاسی قیادت کو بھی مثبت انداز میں پیش کیا گیا، جو ایک طویل عرصے کے بعد کسی امریکی صدر کی جانب سے پذیرائی کا مظہر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری، عسکری اور سفارتی قیادت بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

 امریکا کی اس نئی سوچ کا جواب پاکستان کو نہایت دانشمندی اور بالغ نظری سے دینا ہو گا۔ ہمیں داخلی استحکام، ادارہ جاتی مضبوطی، شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے ایک قابلِ بھروسہ ریاست کا تاثر قائم رکھنا ہوگا۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتی ٹیموں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ یہ موجودہ موقع کو دیرپا مفاد میں بدل سکیں۔ سی پیک کی صورت میں پاکستان پہلے ہی چین کے ساتھ ایک مضبوط اقتصادی راستہ اختیار کر چکا ہے۔ اب اگر امریکا کے ساتھ بھی معاشی تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لیے ایشیا کے مرکز میں ایک ’’بزنس حب‘‘ بننے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان کو پاکستان کے امریکی صدر پاک بحریہ نے بھارت بھارت کے کے ساتھ کیا ہے کے بعد ہیں کہ کہ پاک کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

پہلگام واقعہ، تناؤ کا شکار مودی حکومت کو 10 مئی سے شدید داخلی دباؤ کا سامنا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو 22 اپریل کو پہلگام میں دہشتگردی کے واقعہ کے بعد سے 10مئی کو جنگ بندی تک جس تناؤ کا سامنا تھا اب یہ تناؤ داخلی سطح پر شدید دباؤ کی شکل اختیار کر گیا جس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اس بات کا اندازہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کے ٹوئٹر پوسٹ میں لگائے الزامات اور سوالات سے لگایا جا سکتا ہے جن میں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے یہ سوال بھی کیا ہے کہ آپریشن سندور میں بھارتی فضائیہ کتنے طیاروں سے محروم ہو گئی۔

تفصیلات کے مطابق راہول گاندھی نے ہفتہ کو بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت پر ʼآپریشن سندورʼ سے پہلے پاکستان کو مبینہ طور پر مطلع کرنے کا الزام لگایا اور اسے جرم قرار دیا۔

رائے بریلی سے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ہمارے حملے کے آغاز میں پاکستان کو اطلاع دینا جرم تھا۔

اُنہوں نے لکھا کہ وزیر خارجہ نے کھلے عام اعتراف کیا کہ بھارتی حکومت نے یہ کیا۔

راہول گاندھی نے اس معاملے پر برسراقتدار حکومت سے بھی سوال کیا کہ اس کی اجازت کس نے دی؟ اس کے نتیجے میں ہماری فضائیہ کے کتنے طیارے ضائع ہوئے؟ اور دیس کو کتنا نقصان ہوا؟ راہول گاندھی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر آپریشن سندور کا ذکر کر رہے ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی پوری آبادی کو غذائی عدم تحفظ اور قحط جیسے خطرے کا سامنا ہے: اسحاق ڈار
  • پاکستان کی حمایت پر ترکی کو بھارتی بائیکاٹ کا سامنا
  • تحسین سکینہ کو عابدہ پروین کے پاؤں چھونے پر تنقید کا سامنا
  • ایل او سی: جنگ کے دوران نقل مکانی کرنے والوں کو واپسی پر مشکلات کا سامنا
  • بھارتی ایئرلائنز کیلئےفضائی حدود بند،اربوں کا نقصان،کارگو سروس بھی ٹھپ
  • ’فیمنسٹ نہیں ہوں، چاہتی ہوں ہمیشہ عورتوں والا پروٹوکول ملے‘، سارہ خان کو تنقید کا سامنا
  • ہزاروں افغان شہریوں کو ویزا منسوخی اور ملک بدری کا سامنا ہے،ذرائع
  • کشیدگی کے دوران پاکستان کی سفارت کاری کام کرگئی، بھارت کو عالمی تنہائی کا سامنا رہا، بی بی سی
  • پہلگام واقعہ، تناؤ کا شکار مودی حکومت کو 10 مئی سے شدید داخلی دباؤ کا سامنا