آئی ایس او پاکستان، طلباء تنظیم سے ملک گیر قومی پلیٹ فارم(2)
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ تڑپ اور خواہش جو اس ملت کی ضرورت بھی ہے کہ کاش اس ملت کو ایک اور سید صفدر حسین نجفی مل جاتے، جو نوجوانوں کی سرپرستی اور دین کی اشاعت کیلئے سر پر کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوتے، کاش کوئی سید آغا علی الموسوی میسر آجائے، جو اپنے شیریں لہجہ میں قوم کے مستقبل کو سنبھال لے۔ کاش کوئی مفتی جعفر حسین پھر سے آجائے، جو سادگی، دیانت اور خوداری کا خوگر ہو اور وقت آنے پر کسی سرکاری عہدے کی پرواہ نا کرے۔ کاش کوئی ڈاکٹر محمد علی نقوی پھر سے ہمارے درمیان موجود ہو، جو مایوسیوں میں امید کا استعارہ بنے اور ولایت و انقلاب کا حقیقی سفیر بن کر میدان سجاتے ہوئے دشمنان دین کو للکار رہا ہو۔۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
جب بھی کوئی تنظیم یا تحریک نظریاتی بنیادوں پر کام کرتی ہے تو اسے ان گنت و ان دیکھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک قدم اٹھائو تو دسیوں روڑے اور رکاوٹیں پہاڑ بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ جیلیں، تشدد، کیسز، الزامات، لاٹھی چارج، گولیوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنے بہترین قائدین و کارکنان کی جانیں بھی پیش کرنا پڑتی ہیں۔ آئی ایس او پاکستان بھی ان مراحل سے گذر کر ہی اپنا 53واں یوم تاسیس منانے جا رہی ہے۔ اس کی بنیادوں میں اس کے بانی ڈاکٹر محمد علی نقوی کا پاکیزہ خون بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر قیصر عباس سیال، راجہ اقبال حسین، سید تنصیر حیدر، اعجاز حسین رسول نگری ایڈووکیٹ (گوجرانوالہ)، برادر اختر عباس و برادر ذوالقرنین (ڈی آئی خان)، پروفیسر نزاکت علی عمرانی، پاراچنار، کوئٹہ، کراچی، گلگت اور کئی ایک شہروں میں امامیہ برادران، جان کی قربانیاں پیش کرنے والوں میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
امامیہ برادران کی تربیت کا یہ بھی خاصہ ہے کہ ان کے رگ و پے میں مظلومین جہاں سے ہمدردی و حمایت رچ بس جاتی ہے، جس کے باعث آپ دیکھتے ہیں کہ کہیں بھی ظلم روا رکھا جائے تو سب سے پہلی آواز انہی کی سامنے آتی ہے اور یہ میدان میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ حق کی طرفداری و حمایت کیلئے صدائے احتجاج بلند کرنا بلا شبہ کربلائیوں کا شیوہ ہے، اس پر اس تنظیم کے کارکنان اپنا سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان دنیا بھر کے مظلومین کو حقیقی معنوں میں ایک جسم کی مانند تصور کرتی ہے۔ اگر اس جسم کے ایک حصے کو ڈیرہ اسماعیل خان میں سوئی چبھتی ہے، اگر اس جسم کو پاراچنار میں کانٹا لگتا ہے، اگر اس جسم کو کوئٹہ میں زخم آتا ہے، اگر اس جسم کو گلگت میں چوٹ لگتی ہے، اگر اس جسم کو شکار پور میں درد محسوس ہوتا ہے، اگر اس جسم کو پشاور میں تکلیف محسوس ہوتی ہے تو پورے پاکستان میں پھیلے آئی ایس او کے برادران و خواہران سب سے پہلے اس درد، دکھ اور چوٹ و زخم کو محسوس کرتے ہوئے میدان میں دکھائی دیتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ امامیہ برادران فلسطین سے لے کر لبنان تک، عراق سے لے کر حجاز مقدس تک، ایران سے لے کر بحرین تک، افغانستان سے لے کر کشمیر تک، یمن سے لیکر نائیجیریا تک، بسنے والے ملت اسلامیہ کے درد کو یکساں طور پر محسوس کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی و عملی مدد کیلئے آمادہ و تیار دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں غزہ، یمن، لبنان اور شام میں جو قیامت برپا رہیں، ان کا درد امامیہ برداران نے شدت سے محسوس کیا اور پاکستان بھر میں احتجاج کیا۔ عالمی انسانی ضمیر کو بیدار کرنے اور مظلومین جہاں کو حمایت کا یقین دلانے کی پوری کوشش کی۔ پاکستان کا قیام شیعہ و دیگر مکاتیب فکر کی مشترک کوششون و کاوش کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اثناء عشری شیعہ ہو کر اس ملک کے بانی ہیں، مگر بعد میں آنے والوں نے ہمیشہ اس مکتب کیساتھ تعصب و عصبیت کا مظاہرہ کیا ہے اور بنیادی مذہبی حقوق سلب کرنے کی کوششیں کیں ہیں۔
امامیہ برادران نے عزاداری کے فروغ اور تحفظ کیلئے بڑھ چڑھ کر کوشش کی ہے۔ عزاداری میں اس کی اصل روح ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مقصد عزاداری پر توجہ دی جاتی ہے۔ آئی ایس او کی محافل و مجالس میں یہ نعرہ بلند ہوتا ہے "بامقصد عزاداری کا فروغ" اور "آئی ایس او کی ہے آواز، ماتم، مجلس اور نماز" اس کے ساتھ ہی جیسے دنیا بدلی ہوئی دکھائی دی، کربلا سے تعلق تو پہلے بھی تھا، مگر اس ایک مصرعہ بامقصد عزاداری کا فروغ نے نوجوانوں کی روح میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ وہ انقلاب جو کربلا آپ سے چاہتی ہے اور شہدائے کربلا آپ سے چاہتے ہیں۔ ایسا گریہ و ماتم جس سے یزیدیت کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جائے، اس کو کہتے ہیں بامقصد عزاداری۔۔۔۔ یہ درس اور سبق جو ہمیں منبر و محراب سے ملنا چاہیئے تھا، آئی ایس او پاکستان کی درسگاہوں سے ملا۔ لہٰذا اس کا کریڈٹ بھی اس کا روانِ حسینی کو ہی دیا جائے گا۔
اس فکر اور سوچ میں بلا شبہ انقلاب اسلامی ایران کا بہت بڑا حصہ ہے، جو خود اس فکر و سوچ کی عملی تعبیر کی صورت میں دنیا کے نقشے پر وجود رکھتا ہے۔ امام خمینیؒ نے یہی تو کہا تھا کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے، اس محرم و عزاداری کی بدولت ہے۔ بقول ثاقب نقوی بھائی۔۔
جنوں سے شوق سے جذبوں سے کام لینا ہے
تجھے لجام زمانہ کو تھام لینا ہے
ہے آ رہی یہ صدا کربلا کے ذروں سے
یزیدیت سے ابھی انتقام لینا ہے
اس الہیٰ تنظیم کو اگرچہ بے حد مشکلات درپیش رہتی ہیں، مگر خلوص، تقویٰ اور نظم کی بنیاد پر ان پر قابو پالیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس قدر حیرانگی ہوتی ہے کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ آئی ایس او کے برادران و خواہران آخر تعلیمی اداروں کے طالعلم ہوتے ہیں، ایک طالبعلم کے پاس کس قدر وقت ہوتا ہے۔ آج کل تعلیم خاصی مشکل ہوچکی ہے اور آئی ایس او کے ورکنگ سٹائل اور سالانہ و ماہانہ پروگراموں اور معروضی حالات کو دیکھیں تو کوئی دن خالی نہیں ہوتا، ایسے میں مکمل وقت دینا ناممکن دکھائی دیتا ہے، مگر یہ برادران کا خلوص اور تقویٰ ہے کہ تعلیمی حرج و نقصان کیئے بغیر تنظیمی، تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کو جاری رکھتے ہیں، حالانکہ ان پروگراموں کیلئے صرف فنڈز کی کولیکشن ہی خاصا حوصلہ شکن اور دقت طلب کام ہوتا ہے۔۔۔۔ مگر امام زمانہ ؑ کے انقلاب کیلئے کام کرنے والوں کو نااُمیدیوں، مایوسیوں، مشکلات اور مصائب کے پہاڑ تو جھیلنا پڑتے ہیں۔
آئی ایس او پاکستان کے 53 ویں یوم تاسیس کے موقع پر ملت کو شکر ادا کرنا چاہیئے کہ ملت کی یہ اُمید ابھی تک قائم و دائم ہے۔ تاریکیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی یہ کرن بلا شبہ معاشرے کو اپنی نورانیت سے منور کر رہی ہے اور مایوسیوں، نااُمیدیوں اور دم توڑتے حوصلوں کے اس دور میں طلوع صبح ِ نو کا پیغام ہے، مختلف ادوار میں اس کاروان کو ٹکڑوں میں بانٹنے کیلئے کیسے کیسے منصوبے بنائے گئے، کیسے کیسے بہروپیئے سامنے آئے، کیسے کیسے مقدس مآب استعمال ہوئے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہر ایک نے ناکامی کا سامنا کیا، ہر ایک کو منہ کی کھانا پڑی، ہر ایک نامراد ہوا اور کئی ایک تو اس کاروان کو ختم کرنے کی تمنا اور آرزو لئے آج بھی مارے مارے پھرتے ہیں۔ ان میں پاکستان میں سب سے زیادہ رسوا اور ذلیل ہونے والا امریکہ بھی ہے اور اس کے مقامی نمک خوار بھی۔ آئی ایس او سے اختلاف کرنے والے بھی ہیں اور شخصیات پرستی کی رَو میں بہہ جانے والے بھی، نظریاتی مخالفیں بھی ہیں اور فکری اختلاف رکھنے والے بھی۔ یہ جنون و عشق کی داستان ہے، جس کے راستے میں آنے والے روسیاہ ہو کر گمنام ہو جاتے ہیں۔ یہ خلوص و ایثار کا میدان سجانے والے ہیں، جن کے خلاص و قربانوں کی بدولت پروردگار انہیں تازگی فراہم کرتا ہے۔
یہ کاروان الہیٰ اپنے آغاز سے لے کر آج تک اپنی انفرادیت اور تشخص قائم رکھے ہوئے ہے۔ مرکزی سیکریٹیریٹ ہی وہ قومی دفتر ہے، جو قومی پلیٹ فارمز کی کمی کو پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لاہور میں قائم مسلسل فعال مرکزی دفتر کیساتھ ساتھ گلگت، پاراچنار، ملتان، سرگودھا، کراچی، لیہ اور کئی دیگر شہروں میں اپنے دفاتر قائم کیے ہوئے ہیں۔ کچھ مقامات پر طلباء ہاسٹلز کے ذریعے بھی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیا جا رہا ہے۔ خداوند کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملت تشیع پاکستان کے پاس یہ الہیٰ کارواں آج پہلے سے کہیں بڑھ کر قوت و شہامت کے ساتھ موجود ہے۔ 53 برس تک تسلسل کے ساتھ جاری اس کاروان ِ الہیٰ کی جدوجہد، تحریک،، خدمات، کارہائے نمایاں اور وحدت کی لڑی میں پروئے اس کے متحد کارکنان کو دیکھ کر کسی روحانی دوست نے خوب کہا تھا کہ اس کارروان الہیٰ پر یقیناً کسی بڑی ہستی کا دستِ مبارک ہے اور وہ ایسا ہاتھ ہے، جو سب پر بھاری ہے۔
قائد شہید کے ساڑھے چار سالہ دور قیادت کو بھی اگر دیکھا جائے تو ایسی ہی کسی "طاقت" کے وجود کا احساس ہوتا ہے، جو مکمل رہنمائی فرما رہی تھی۔ تبھی تو شہید بزرگوار نے اتنے مختصر عرصہء قیادت میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جن کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم تھک جاتے ہیں، مگر وہ ختم ہونے کو نہیں آتے۔ میرا یقین ہے کہ شہید کی شہادت کے بعد اس کارروان الہیٰ آئی ایس او پاکستان پر یہ خصوصی لطف اور کرم و عنایت کا سلسلہ جاری ہے، جن کی بدولت کتنی آفات، طوفان، مصائب، مشکلات ٹال دی جاتی ہیں۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ ساتھ اس کے دردمند، مخلص، صالح، باایمان، ایثار گر، الہیٰ و متقی نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ کسی شخصیت کے ساتھ مقصود نہیں بلکہ نظریہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ولایت کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے برادران ہر قسم کی زنجیروں کو توڑ کر ولایت فقیہ کے زیر سایہ و رہنمائی امام زمانؑ کے الہٰی انقلاب کیلئے مصروف عمل ہیں۔ یہ ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
امامیہ نوجوانوں کی دوسری بڑی کامیابی کا سہرا ان کا جمہوری نظام ہے۔ مقامی یونٹ سے لے کر مرکزی صدر تک منتخب ہونے کیلئے اس کے کارکنان آزادانہ طور پر حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر دستور میں طے کئے گئے الہیٰ معیارات پر نوجوان ملت کے اس کاروان کو سال بھر آگے بڑھاتے ہوئے پرچم امانت کو دیانتدار ہاتھوں کے سپرد کرکے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ 53 برسوں سے یونہی چل رہا ہے، ایک برس قبل تنظیم نے اپنے نظم میں کافی تبدیلیاں بھی کی ہیں، تاکہ کارکردگی میں بہتری لائی جا سکے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھا جاسکے۔ ڈویژنل سیٹ اپ ختم کرکے ریجنل سیٹ اپ اور صوبائی سیٹ اپ بنائے گئے ہیں، جس سے یونٹس کی تعداد و استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ آخر میں ان تمام محسنین ملت بشمول علامہ سید صفدر حسین نجفی، علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل، علامہ سید آغا علی الموسوی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، و شہدائے امامیہ، قائد شہید علامہ سید عارف الحسینی، اس تمام عرصہ کے دوران جس جس نے بھی اس کاروان امامیہ میں کسی بھی انداز سے تعاون فرمایا، ان سب کے شکریہ کیساتھ ان کے درجات کی بلندی کیلئے پروردگار کے حضور دست بہ دعا ہیں۔
یقیناً اس شجر سایہ دار، شجر طیبہ کا اجر و ثواب انہیں پہنچتا رہے گا۔ یہ تڑپ اور خواہش جو اس ملت کی ضرورت بھی ہے کہ کاش اس ملت کو ایک اور سید صفدر حسین نجفی مل جاتے، جو نوجوانوں کی سرپرستی اور دین کی اشاعت کیلئے سر پر کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوتے، کاش کوئی سید آغا علی الموسوی میسر آجائے، جو اپنے شیریں لہجہ میں قوم کے مستقبل کو سنبھال لے۔ کاش کوئی مفتی جعفر حسین پھر سے آجائے، جو سادگی، دیانت اور خوداری کا خوگر ہو اور وقت آنے پر کسی سرکاری عہدے کی پرواہ نا کرے۔ کاش کوئی ڈاکٹر محمد علی نقوی پھر سے ہمارے درمیان موجود ہو، جو مایوسیوں میں امید کا استعارہ بنے اور ولایت و انقلاب کا حقیقی سفیر بن کر میدان سجاتے ہوئے دشمنان دین کو للکار رہا ہو۔۔ لطفِ خداوندی ہے کہ پاکستان کے گوش و کنار میں 53برس سے مسلسل۔۔ پرجوش، پرعزم
بڑھتے رہیں یونہی قدم۔۔۔۔ حیی علیٰ خیر العمل
رکنے نہ پائیں یہ قدم ۔۔۔۔۔ حیی علیٰ خیر العمل
کی صدائیں اور شعار گونج رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈاکٹر محمد علی نقوی ا ئی ایس او پاکستان امامیہ برادران اگر اس جسم کو نوجوانوں کی پاکستان کے یہ برادران اس کاروان کاش کوئی جاتے ہیں سے لے کر ہیں اور نے والے ہوتا ہے کے ساتھ اس ملت ہے اور پھر سے
پڑھیں:
بلاول بھٹو زرداری کی نااہلی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)سابق وزیر خارجہ اور رکن قومی اسمبلی بلاول بھٹو کی نااہلی کیلئے درخواست دائر کر دی گئی،شہری اشبا کامران نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی،درخواست میں وزارت قانون، الیکشن کمیشن اور بلاول بھٹو کو فریق بنایا گیاہے۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بلاول بھٹو پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز دونوں کے رکن ہیں،الیکشن ایکٹ کے تحت بیک وقت 2سیاسی جماعتوں کی رکنیت نہیں رکھی جاسکتی،بلاول بھٹو الیکشن ایکٹ کے تحت رکن قومی اسمبلی نہیں رہ سکتے،درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کو بلاول بھٹو کی نااہلی کیلئے ریفرنس بھیجنے کی ہدایت کی جائے۔
چیف الیکشن کمشنر کی الیکشن کمیشن کے ملازمین پر نوازشات،کروڑوں روپےکے اعزازیے 4مختلف مراحل میں دیئے گئے
مزید :