Daily Ausaf:
2025-07-06@13:22:26 GMT

جنگ کے بعد کا منظر نامہ!

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

کیا پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی ایک نئی بساط بچھنے جا رہی ہے؟ اور کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’تاجرانہ حرکیات‘‘ بھارت کی ہٹ دھرمی کو موم کر پائیں گی؟ اِن سوالات کا واضح جواب آنے میں کچھ وقت لگے گا۔
ٹرمپ جلدی میں لگتے ہیں ۔ وہ ایک طاقتور عالمی راہنما کی حیثیت سے اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے مسائل پر جامع مذاکرات کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کرچکا ہے لیکن بھارت ابھی تک سناٹے کی کیفیت میں ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں غیرمتوقع شکست نے اُس کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ اِس سے جُڑی ایک اور ہزیمت یہ ہوئی کہ آزمائش کی اِس گھڑی میں بھارت تنہا رہ گیا۔ اسرائیل نے پاکستان دشمنی کے باعث اُسے بہت کچھ دیا لیکن بھارت کو کہیں سے بھی وہ توانا سفارتی حمایت نہیں ملی جو شدید اعصابی دبائو کے جنگی ماحول میں سیاسی قیادت کا حوصلہ بڑھاتی اور افواج کے عزم کو تھپکی دیتی ہے۔ بڑی طاقتوں میں سے چین ڈٹ کر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ روس، جو کبھی بھارت کا گرم جوش دوست تھا، غیرجانبداری کی چادر اوڑھے بیٹھا رہا۔ برطانیہ اور فرانس، دفتر خاجہ کی ٹیکسال میں ڈھلے رسمی بیانات سے آگے نہ بڑھے۔ نریندر مودی کویقین تھا کہ کسی بھی تنازعہ میں صدر ٹرمپ بھارت کی کھُلی حمایت کریں گے اور پاکستان کو بھارت کی آنکھ سے دیکھیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ امریکہ نے نہایت جچے تلے متوازن انداز میں، دونوں ممالک کو ایک ہی سطح پر رکھتے ہوئے، ساری توجہ جنگ بندی پر مرکوز رکھی۔ عمومی گفتگو میں سفارتی آداب اور تقاضوں کو زیادہ اہمیت نہ دینے کی شہرت رکھتے ہوئے بھی، صدر ٹرمپ اِس معاملے میں بہت محتاط رہے۔ ٹرمپ کا یہ رویہ، پاکستان کے لئے نہایت حوصلہ افزا، لیکن بھارت کی توقعات کے برعکس تھا۔ سو اُسے شدید مایوسی ہوئی۔
یہ بات تو اَب محتاجِ بحث نہیں رہی کہ پہلگام، بھارت کے کسی کام نہیں آیا۔ دہشت گردی کے اِس قابلِ مذمت واقعے کے محرکات جو بھی ہوں، بھارت نے سوچے سمجھے بغیر اِس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر نہایت بے حکمتی کا مظاہرہ کیا۔ اِس احمقانہ عُجلت نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ امریکہ کے نائب صدر، تب بھارت کے دورے پہ تھے لیکن اُنہیں بھی قائل نہ کیا جاسکا کہ پہلگام، پاکستان کی کارستانی ہے۔ یہاں سے مودی کی جھنجھلاہٹ کا پارہ چڑھنا شروع ہوا۔ وزیراعظم ’شہباز شریف‘ کی اِس پیشکش کو بھی رَد کردیا گیا کہ پاکستان کسی بھی معتبر عالمی فورم سے شفاف تحقیقات کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کا بیانیہ عالمی ضمیر کے قریب تر ہوتے ہوئے قوت پانے لگا تو مودی کا غضب، کھولائو کی آخری سطح تک آن پہنچا اور پاکستان پر چڑھ دوڑا۔پاکستان نے کمال تحمل سے خودکو سختی سے دفاعی حکمت عملی تک محدود رکھا۔ شرانگیزی نہ رُکی تو ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ صرف تین گھنٹے پینتیس منٹ کی ضربِ کاری نے بھارت کے غرور وتکبر کو زمیں بوس کردیا۔ اب مودی کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ اپنے ’سیندور‘ کو ہمارے ’’بُنیان المرصوص‘‘ کے مدّمقابل لاکھڑا کرتا اور ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے پنجہ آزمائی کی جرات دکھاتا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے، مزید کاری زخم کھانے کے بجائے امریکہ سے التجا کرتا کہ ہم توجنگ بندی کو تیار ہیں۔ پاکستان کو سمجھائیں۔ شکست خوردہ مودی نے دوسرا راستہ چُنا۔ سو جب امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کی التماس پاکستان تک پہنچائی تو اُس نے آمادگی ظاہر کردی۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ تیسری کھُلی جنگ، بہت مختصر رہی لیکن اس کے اثرات ونتائج محدود نہیں رہیں گے۔ بھارت کو نہایت واضح اور غیرمبہم پیغام مل گیا ہے کہ اُس کی جنگی مشینری، پاکستان کو زِیر کرنے کی سکت نہیں رکھتی بلکہ پاکستان اتنا توانا ہوچکا ہے کہ وہ بھارت کی جنگجویانہ مہم جوئی کی کمر توڑ کر اُسے شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔ بھارت کو اپنی سفارتی کم مائیگی کا علم بھی ہوگیا ہے۔ اُسے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ کچھ بھی کرلیاجائے، مسئلہ کشمیر کو پسِ پُشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ وہ یہ بھی جان گیا ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ دیرینہ سیاسی وسفارتی صف بندیاں، زمینی صداقتوں اور اخلاقی معیارات کو نظرانداز نہیں کرسکتیں۔ اِس مختصر جنگ نے مودی کے تفاخر کی اُڑان کے پَر بھی بُری طرح نوچ ڈالے ہیں۔ وہ خود اپنے ملک کے اندر سے شدید دبائو کی زد میں ہے۔ پاکستان سے جنگ بندی کے بعد اب اُسے اپنے ڈیڑھ ارب عوام سے طویل جنگ لڑنا ہوگی کیوں کہ یہ بے ثمر معرکہ تیزی سے اُسے اپنے سیاسی مَرگھٹ کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اللہ تعالی نے پاکستان کو کئی گُنا بڑے دشمن کے ساتھ جنگ میں فتحِ مبین سے نوازا ہے۔ اُس کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے کم ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں ملکی اقتدار پر قابض جرنیلوں کی قیادت میں لڑی گئیں جس کے سبب سیاسی حکمت کاری کا فقدان رہا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام نے اُن جنگوں میں بھی کھُل کر اپنی مسلح افواج کا ساتھ دیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی سیاسی چہرہ نہ ہوتے ہوئے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے نقطۂِ نظر کی پذیرائی میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ بھارت کے ساتھ یہ پہلی جنگ تھی جو منتخب سیاسی حکومت کے پرچم تلے لڑی گئی۔وزارتِ خارجہ نے نہایت موثراور نتیجہ خیز کردار ادا کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف اور عسکری قیادت کی ہم آہنگی اور فیصلہ سازی میں بامعنی مشاورت نے ملکی نظم کو ایسا پُراعتماد مورچہ بنادیا جو دشمن سے پنجہ آزمائی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی پارلیمانوں نے نہ صرف پاکستان کے جمہوری تشخص کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا بلکہ سیاسی تفریق سے ماوریٰ ہوکر قومی اتحاد ویکجہتی کا پیغام بھی دیا۔ پاکستانی میڈیا نے پیشہ ورانہ بلوغت اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میدان میں بھی بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
مختصر سی جنگ نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا ہی نہیں منوایا، اُن کی عزت وتکریم میں بھی گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ سپہ سالار، سید عاصم منیر کو ہر آن نیزے کی اَنی پر رکھنے اور پست بازاری سوچ میں لت پت غلیظ مہم کا نشانہ بنانے والی سپاہ کو مودی سے بھی زیادہ شرمناک شکست ہوئی ہے۔ ہماری اٹھہتر سالہ تاریخ میں فتحِ عظیم کا یہ تمغۂِ اعزاز حافظ سید عاصم منیر کے سینے کی زینت بنا ہے۔ بلاشبہ عزت اور ذلت کے فیصلے اللہ ہی کی بارگاہِ خاص میں ہوتے ہیں۔ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا نام بھی دفاعِ وطن کی درخشاں تاریخ کا حصہ رہے گا۔ یہ فتح اُن بے سمت طفلانِ خود معاملہ کے لئے بھی ایک پیغام چھوڑ گئی ہے جو وطن کے باہر یا اندر بیٹھے،وطن فروشی کے لقمۂِ تَر سے شکم سیر ہو رہے ہیں کہ پاکستان، کسی فردِ واحد کے مدار میں گردش کرنے والا سیارہ نہیں، ایک مستحکم نظام رکھنے والی زندہ و پائندہ ریاست ہے ۔ کسی فرد پر دائر فوجداری مقدمات اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں اُس کی قید کو ’’وسیع تر سیاسی عدم استحکام‘‘ کا نام دے کر ڈرانے والوں کو اَب معلوم ہوجانا چاہیے کہ پاکستان نے اِس ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ کے باوجود، شدید اقتصادی بحران پر قابو بھی پالیا ہے اور ساڑھے تین گھنٹوں میں دشمن کے دانت بھی کھٹّے کر دیے ہیں۔ سو محض اپنی کشتِ بُغض کی آبیاری کے لئے ’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا ماتم کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ نئے منظرنامے کو نئے زاویے سے دیکھا جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کو کہ پاکستان پاکستان کے بھارت کو بھارت کی بھارت کے کے لئے گیا ہے

پڑھیں:

بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی

حالیہ بارہ روزہ پاک بھارت جنگ میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت کا کوئی ملک طرف دار نہیں۔ اس مشکل وقت میں کسی ملک نے اس کا ساتھ نہیں دیا جب کہ پاکستان کا کئی ممالک ساتھ دے رہے تھے اور اعلانیہ پاکستان کی حمایت کر رہے تھے، ان میں چین، ترکیہ اور آذربائیجان کے نام قابل ذکر ہیں۔ بھارت کا کسی نے کیوں ساتھ نہیں دیا، اس میں اس کے جھوٹ کا بڑا عمل دخل ہے یعنی پہلگام حملے کے فوراً بعد پاکستان پر الزام لگانا۔

بھارت نے پاکستان پر پہلگام حملے کا الزام تو لگایا مگر اس کا ثبوت آج تک پیش نہیں کیا۔ مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کارڈ پر ہی اب تک انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرتا رہا ہے۔ یہ تمام دہشت گردانہ حملے آخر الیکشن سے پہلے ہی کیوں رونما ہوتے ہیں۔ لیکن پہلگام حملہ مودی کے گلے میں پھنس گیا ہے، وہ اس ڈرامے کو بہار میں ہونے والے الیکشن میں استعمال کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے اس دفعہ اس کا سارا ڈرامہ درہم برہم کر دیا ہے۔ مودی سے بھارتی عوام کے سامنے جواب دیتے نہیں بن رہا ہے۔

پہلگام ڈرامے سے مودی کی عالمی سطح پر بھی بہت بے عزتی ہوئی اوراب اس کا سحر ٹوٹ چکا ہے۔ جہاں پاکستان پر جارحیت سے بھارت کی بدنامی اور تنہائی میں اضافہ ہوا ہے وہاں ایران اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے سے اس کی مشرق وسطیٰ میں بھی بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ ایران جو پہلے بھارت کو دوست سمجھتا تھا اب اس کی دوغلی اور مسلم دشمن پالیسی سے باخبر ہو گیا ہے۔ بھارت سے دوستی سے ایران کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ بھارت کے ایران کے خلاف اسرائیل کی مدد کرنے کے ثبوت بھی ایران کو ملے ہیں۔ ایرانی حکومت نے کئی افغانوں کو بھی اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتارکیا ہے، پتا لگا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے کام کر رہے تھے۔

ایران کو بھارت پر اندھا بھروسہ ہے۔لیکن بھارت اسرائیل کے اتنے قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اس کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے۔ بھارت اسرائیل کی دوستی سے امریکا سے مراعات حاصل کرتا رہتا ہے اور وہ اسرائیل سے ہی تقویت حاصل کرکے کشمیریوں کا فلسطینیوں کی طرح قتل عام کرتا رہتا ہے۔ جس طرح مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کو امریکا سمیت تمام یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے، بھارت کو بھی کشمیر کے مسئلے پر ان کی حمایت حاصل ہے، اب اگر حالات بدلتے ہیں اور فلسطینیوں کو آزادی ملتی ہے تو پھرکشمیریوں کو آزادی سے روکنا بھارت کے لیے بہت مشکل ہوگا۔

چنانچہ بھارت اسی لیے نہیں چاہتا کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو کیونکہ پھر اسے بھی کشمیر کا مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ منعقدہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے بڑی ڈھٹائی سے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا مگر پاکستان کی جانب سے اسے رد کر دیا گیا کیونکہ بھارت نے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

پاکستان پہلگام حملے کے بعد سے ہی بھارت سے اس حملے کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کہتا رہا ہے مگر افسوس کہ بھارت کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا اور پھر بغیرکسی ثبوت کے پاکستان پر جارحیت کا مرتکب ہوا۔ چونکہ تنظیم کے تمام ہی ممالک اس حقیقت سے واقف تھے چنانچہ کسی بھی ممبر ملک نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ الٹا پاکستانی اصولی موقف کو سراہا چنانچہ بھارت کو وہاں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

دراصل بھارت کے جھوٹ کی کوئی بھی ملک تائید نہیں کر سکتا۔ امریکا نے بھی بھارتی موقف کی تائید نہیں کی اور پاکستانی فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف کرکے بھارت کے حوصلے مزید پست کر دیے ہیں۔ بھارت کے غرور اور توسیع پسندانہ رجحانات کی وجہ سے بھارت سخت تنہائی کا شکار ہو گیا ہے چنانچہ بھارت کے پڑوسی اب اس سے نالاں ہو کر ایک علیحدہ علاقائی تنظیم بنانے پر راضی ہو گئے ہیں۔

اس میں ابتدائی طور پر پاکستان، بنگلہ دیش اور چین شامل ہوں گے مگر بعد میں وہ تمام ممالک جو سارک میں شامل تھے اس تنظیم میں شامل ہو جائیں گے۔ سارک کی ناکامی کا ذمے دار بھارت ہے کیونکہ وہ تمام پڑوسیوں پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے جو کسی بھی پڑوسی ملک کو قابل قبول نہیں ہے۔ یہ تنظیم بھارت کے لیے یقینا ایک چیلنج ہوگی اور اس کے قیام سے اس کی تنہائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  •  2 ماہ قبل مودی کے چمچے پاکستان کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے، ان کا سندور اجڑ گیا، وزیر دفاع
  • سیاسی کشیدگی کے سائے: بھارت-بنگلہ دیش کرکٹ سیریز 2026 تک مؤخر کردی گئی
  • بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی
  • بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی
  • مودی سرکار کے ساتھ ساتھ بھارتی نوجوان بھی جھوٹ میں ماہر، جنگ میں پاکستانی جواب کو کام سے جان چھڑانے کا بہانہ بنا لیا
  • را نے ہمیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا، مودی نے دھوکہ دیا،بلوچ علیحدگی پسند رہنما کا اعتراف
  • پارلیمنٹ میں بھارت چین تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بحث کی جائے، کانگریس
  • سلامتی کونسل میں پاکستان کی سربراہی؛ بھارت کو بدترین سفارتی شکست کا سامنا
  • سیول کا عہد نامہ عالمی تعاون پر اعتماد سازی میں اہم ہوگا
  • مودی کو امریکی انتباہ کے بعد بھارت نے فوری جوابی کارروائی کی، جے شنکر