سپریم کورٹ: مخصوص نشستیں کیس، لائیو نشریات اور بینچ پر اعتراضات زیر بحث
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان روسٹرم پر موجود رہے اور بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعتراض کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جا رہا، عدالت اس درخواست کو مقرر کرنے کا حکم دے۔ جسٹس امین الدین نے جواب دیا کہ اس درخواست کو بعد میں دیکھ لیتے ہیں، آپ دلائل شروع کریں۔
حامد خان نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق متفرق درخواست پر بھی دلائل دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کے مرکزی کیس کی کارروائی پہلے بھی براہ راست دکھائی جاتی رہی ہے، عوام کو آگاہی حاصل ہوئی۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کی براہ راست نشریات کی درخواست دی تھی۔
مزید پڑھیں: ممکن ہے نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو مثال بنانے کے لیے ہرایا گیا ہو، خرم دستگیر
جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے حلف کے فوری بعد فل کورٹ اجلاس بلایا، جہاں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی براہ راست نشریات سے متعلق پائلٹ پراجیکٹ کی منظوری دی گئی۔ 2 رکنی کمیٹی، جس میں وہ خود اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے، نے نشریات کے طریقہ کار پر تجاویز دیں۔ بعد ازاں زوالفقار علی بھٹو ریفرنس سمیت دیگر مقدمات بھی لائیو نشر کیے گئے۔ جسٹس مظہر نے واضح کیا کہ اب تک عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ دوبارہ فل کورٹ اجلاس میں نہیں آیا، یہ اب بھی پائلٹ پراجیکٹ کی صورت میں جاری ہے۔
حامد خان کا مؤقف تھا کہ کم از کم مثال تو موجود ہے، اس پر عمل کیا جائے، اور ان کی لائیو سٹریمنگ کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہر ایسی درخواست پر پہلے فیصلہ نہیں کیا جائے گا، فیصل صدیقی کی بھی درخواستیں ہیں، سب کو سنا جائے گا۔
وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تعلق 26ویں آئینی ترمیم سے ہے، اس لیے پہلے اس ترمیم سے متعلق مقدمے کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جب وہ کیس لگے گا تو اس میں آپ دلائل دے دیجئے گا۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی، جہاں مخدوم علی خان دلائل جاری رکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
11 رکنی آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان حامد خان سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستیں کیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستیں کیس جسٹس امین الدین براہ راست
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس؛ کیا دو ججوں کو واپس لانے کیلیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، آئین بینچ
اسلام آباد:مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا دو ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان دو ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، سربراہ آئینی بینچ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 6 مئی کی عدالتی کارروائی کا حکمنامہ پڑھیں، اس حکمنامے پر تمام 13 ججز کے دستخط موجود ہیں، حکمنامے میں کہا گیا کہ ججز نے اختلاف کرتے ہوئے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پھر بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے معاملہ ججز آئینی کمیٹی کو بجھوایا گیا، بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے کمیٹی کو بجھوانے پر بھی اختلاف کرنے والے دو ججز نے دستخط کیے، اگر چلتے ہوئے کیس میں کوئی وجوہات بیان کرکے بینچ سے الگ ہو تو معاملہ الگ ہوتا ہے، بینچ کی دوبارہ تشکیل پر دو ججز نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ وہ متفق نہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کل بھی بتایا تھا ان دو ججز کی اپنی خواہش تھی کہ وہ بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔
جسٹس مسرت ہلانی نے کہا کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز نے تو میرٹس پر بھی بات کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب الیکشن کیس میں چار ججز اور تین ججز والی بحث کافی چلی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب الیکشن کیس کا آرڈر آف دی کورٹ آج تک نہیں آیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل ریکارڈ ابھی آپ کے سامنے نہیں ہے، اس مقدمے میں کیا ہوتا رہا سب کچھ against the clock ہوا، چلیں چھوڑیں آپ کو اندرونی باتیں نہیں معلوم آپ دلائل دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جج کھلی عدالت میں کیس سننے سے معذرت کر سکتا ہے یا چیمبر سے بھی ایسا کہا جا سکتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ کیس سننے والا جج کھلی عدالت میں آکر ہی معذرت کرتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ایسی مثالیں ہیں جہاں ججز نے چیمبرز میں بیٹھ کر بھی کیسز سننے سے معذرت کی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ تو اصرار کر رہے ہیں کہ ہم آپ کی دلیل سے متفق ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم جوڈیشل آرڈر جاری کریں کہ فلاں جج کو بینچ میں لایا جائے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ چھ مئی کے حکمنامے کے خلاف کسی نے نظرثانی بھی دائر نہیں کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا دو ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان دو ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔
میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں، جسٹس امین کا وکیل سے مکالمہ
جسٹس امین الدین خان نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ مجھے امریکا کا ٹکٹ لیکر دیں میں اس جج کو امریکا سے جاکر لے آتی ہوں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ویسے بھی 10، 10 سال سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں بھی زیر التوا کر دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ فوجداری کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جا رہے ہیں، میں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی فوجداری کیسز پر سماعت کی جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کے کیس میں فیصلہ لکھنے والے جج خود نہیں بیٹھے تھے۔
پانامہ کیس کا حوالہ
بینچ تشکیل سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے پانامہ کیس کا حوالہ دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان کا ایک فیصلہ تھا جبکہ ایک فیصلہ میں نے تحریر کیا تھا، میرے فیصلے پر تو نظر ثانی نہیں آئی تو کیا میں بیٹھوں یا اٹھ جاؤں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے دلائل میں کہا کہ اگر آئینی بینچ کے رولز نہیں بنے تو آئینی بینچ پر پہلے والے رولز کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین اور قانون میں ترمیم کے بعد مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوئے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کیا رولز کا اطلاق جوڈیشل کمیشن پر بھی ہوتا ہے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ لوگوں میں عام تاثر ہے کہ 26ویں ترمیم کے بعد ایک نئی سپریم کورٹ بن گئی اور یہ تاثر درست نہیں ہے، ہمارے لیے کچھ نہیں بدلا۔ سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے بعد کوئی تبدیلی نہیں، اس ترمیم کے ذریعے بس ایک نیا اختیار سماعت تشکیل دیا گیا ہے۔ آئینی بینچ بھی وہی اختیار سماعت اختیار کرے گا جو سپریم کورٹ کے اختیار سماعت ہیں
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ یہ دلائل 26ویں آئینی ترمیم کے کیس میں دیجیے گا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں دلائل ختم کرتے ہوئے کہوں گا کہ 185/3 کی نظر ثانی ریگولر بینچ ہی سنے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ممانعت نہیں ہے کہ فلاں جج آئینی بینچ کے لیے نامزد ہوگا اور فلاں نہیں ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچز کے لیے نئے ججز نامزد کرنے پر پابندی نہیں ہے، جتنے مرضی ججز نامزد کریں، نہ کسی کو اعتراض ہے یا ہمارا کنٹرول ہے، نئے ججز کی نامزدگی کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے، نئے ججز کی آئینی بنچز کے لیے نامزدگی کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
آئینی بینچ نے حکم دیا کہ کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔ سنی اتحاد کونسل کے دوسرے وکیل حامد خان کل سے دلائل شروع کریں گے، حامد خان کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق پہلی درخواست 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک کارروائی روکنے سے متعلق ہے اور دوسری درخواست عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھانے سے متعلق ہے، دونوں درخواستوں پر سماعت کل کریں گے۔