غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اسرائیل کے ساتھ اس بلاک کے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کے فیصلے کا اعلان کیا۔ یہ غزہ پٹی میں جاری انسانی بحران پر سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے جواب میں پہلا باضابطہ قدم ہے۔
اسرائیل نے مئی کے اوائل میں جنوبی غزہ پٹی کے شہر رفح میں اور اس کے آس پاس شروع ہونے والے فوجی حملے میں شدت پیدا کی اور غزہ میں داخل ہونے والی امداد پر سخت کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔
یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کی جانب سے برسلز پر اسرائیلی حکومت کو ایک مضبوط اشارہ بھیجنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں منگل کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا، جس میں یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اسرائیل کے ساتھ یورپی تجارتی تعلقات پر نظرثانی کے فیصلے کا اعلان کیا، جو غزہ میں جاری انسانی بحران پر سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے جواب میں پہلا باضابطہ اقدام ہے۔(جاری ہے)
یورپی کمیشن کا اعلان
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اعلان کیا کہ یورپی کمیشن ای یو۔اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے پر نظرثانی کرے گا۔ یہ ایک آزاد تجارتی معاہدہ ہے، جو دونوں فریقوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو کنٹرول کرتا ہے۔
کایا کالاس نے اگرچہ اس خبر کا خیرمقدم کیا کہ اسرائیل نے 11 ہفتوں کی طویل اور مکمل ناکہ بندی کے بعد کچھ امداد کے غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ ''تباہ کن‘‘ صورتحال میں یہ اقدام ''سمندر میں ایک قطرے‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا تھا کہ اسے غزہ میں امداد سامان کے کے تقریباً 100 ٹرک بھیجنے کی اجازت مل گئی ہے، کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر یہ امداد علاقے میں واپس پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن ماضی میں اقوام متحدہ کی طرف سے کہا جا چکا ہے غزہ پٹی میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے روزانہ 500 امدادی ٹرکوں اور تجارتی سامان کی ضرورت ہے۔
مارچ میں اسرائیل نے غزہ پٹی میں عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی ختم کر دی تھی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل پر دوبارہ سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔
اپریل میں یورپی یونین نے غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے تین سالہ مالی امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کی مالیت 1.
اسپین کی طرف سے پابندیوں کا مطالبہ
یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک، خاص طور پر اسپین، آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ اس یورپی بلاک کے تجارتی تعلقات پر باضابطہ نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ ای یو اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے زیر انتظام ہیں، جس میں ''آرٹیکل 2 ‘‘ نامی ایک شق بھی شامل ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملات میں اسے معطل کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔منگل کو پیرس میں فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بیرو نے کہا تھا، ''ایک بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ثابت ہو جائیں، تو پھر 'معاہدے‘ کو معطل کیا جا سکتا ہے۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ تجارت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔یورپی یونین سے قومی سطح تک
غزہ پٹی کے انسانی بحران کے سلسلے میں یورپی یونین کی جانب سے بہت کم مشترکہ کارروائی کے سبب کئی یورپی ممالک نے معاملات کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے پچھلے سال فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا تھا اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ فرانس اور بیلجیم بھی جلد ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین منقسم
اکتوبر 2023 سے یورپی یونین کی ریاستیں جیسے جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور چیک جمہوریہ نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی بھرپور حمایت کی ہے اور وہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کے تعزیری اقدامات کی توثیق کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
جرمنی نے بارہا اسرائیل کے حوالے سے اپنی تاریخی ذمہ داری پر زور دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو غزہ پٹیمیں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے تحقیقات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود اس ماہ کے شروع میں جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمن اسرائیلی سفارتی تعلقات کے قیام کے 60 سال مکمل ہونے کے موقع پراسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات بھی کی تھی۔منگل کے روز ہسپانوی وزیر خارجہ خوزے مانوئل الباریس نے اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کیا اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ انسانی تباہی کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرے۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں یورپی یونین کے سابق سفیر اور اب سینٹر فار یورپی پالیسی اسٹڈیز (CEPS) کے سینئر فیلو جیمز موران نے کہا ہے کہ
غزہ پٹی میں اسرائیل کے اقدامات پر اندرونی اختلافات نے یورپی یونین کو مؤثر طریقے سے سائیڈ لائن کر دیا ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تجارتی تعلقات پر میں یورپی یونین اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کی یورپی یونین کے نے اسرائیل کے غزہ پٹی میں اعلان کیا کا اعلان کے لیے
پڑھیں:
یورپی یونین اور برطانیہ نوجوانوں کے لیے نئی ویزا اسکیم پر متفق
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2025ء) برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین نوجوانوں کے لیے ایک نیا ویزا معاہدہ طے کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو یورپ بھر میں رہنے اور کام کرنے میں سہولت دینا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو پیر کے روز موصول ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق فریقین ''بیلنسڈ یوتھ ایکسپیریئنس اسکیم‘‘ کے آغاز پر متفق ہو گئے ہیں، جو نوجوانوں کو محدود مدت کے لیے ایک دوسرے کے ممالک میں کام، تعلیم، رضاکارانہ خدمات یا سیاحت کی اجازت دے گی۔
اس دستاویز کے مطابق، ''یورپی کمیشن اور برطانیہ کو ایک متوازن یوتھ ایکسپیریئنس اسکیم پر کام کرنا چاہیے، جس کی شرائط باہمی اتفاق رائے سے طے کی جائیں گے۔ اس اسکیم کے تحت ایک مخصوص ویزے کا راستہ مہیا کیا جائے گا اور (اس معاہدے میں ) شرکاء کی مجموعی تعداد دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
‘‘
یہ مجوزہ منصوبہ برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین تعلقات کی بحالی کے ایک وسیع تر پیکج کا حصہ ہے، جس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔
اس میں تجارت، دفاع اور دیگر امور بھی شامل ہیں، اور یہ بریگزٹ کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت تصور کیا جا رہا ہے۔برطانوی حکومت نے کچھ عرصہ قبل تک یورپی یونین کی جانب سے نوجوانوں کی نقل و حرکت کے معاہدے کی تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ آزادانہ نقل و حرکت کی بحالی کے مترادف ہوگا، وہی نظام جسے برطانیہ نے 2020 میں یورپی یونین سے علیحدگی کے وقت ختم کر دیا تھا۔
تاہم اس مجوزہ معاہدے پر سیاسی تنازع کا امکان بھی موجود ہے۔ برطانیہ کی دائیں بازو کی عوامی حمایت یافتہ ریفارم یوکے پارٹی کے سربراہ نائجل فیرج نے اسے ''آزادانہ نقل و حرکت کے معاہدے کی عقبی دروازے سے واپسی‘‘ قرار دیا ہے، جسے برطانوی عوام نے 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم میں مسترد کر دیا تھا۔
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران ایک اہم نکتہ یہ ہوگا کہ یورپی یونین سے آنے والے طلبہ کی تعداد کو کس حد تک محدود رکھا جائے گا۔ یہ پیش رفت بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان اعتماد سازی کی سمت میں ایک اہم قدم تصور کی جا رہی ہے۔
شکور رحیم روئٹرز کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک